ابھی کچھ دن ہی تو گزرے تھے کہ سقوط ڈھاکہ کا دن منایا تھا اپنوں سے علیحدگی کا دن جو شاید کبھی اپنے تھے… یا کبھی بھی اپنے نہیں تھے یا پھر ہوس اقتدار اور سیاسی کم فہمی نے انہیں ہم سے بیگانہ کر دیا… تاریخی نوحے کے طور پر پچھتاوے اور دکھوں کا یہ دن ہم ہر سال 16 دسمبر کو گزشتہ کئی سال سے مناتے آرہے ہیں لیکن نجانے ہم ان المیوں کو کیوں یاد رکھتے جن سے کچھ سیکھتے نہیں ہم تاریخ کو مسخ کرنے پر تو تیار رہتے ہیں لیکن تاریخ سے سبق حاصل کرنے کیلئے ہرگز نہیں علامہ اقبال نے ایک خاص طبقے کے بارے میں کیا خوب کہا تھا ۔
’’ خود بدلتے نہیں، قرآن کو بدل دیتے ہیں‘‘ پھر اس سال ماہ دسمبر میں ہی سقوط ڈھاکہ کے المیے میں آرمی پبلک سکول پشاور کے ننھے اور معصوم فرشتوں کا سانحہ بھی شامل ہوگیا جس نے دکھوں کی ایک نئی تاریخ رقم کر دی 16 دسمبر کی صبح کو مائوں نے اپنے چاند ستاروں کو تیار کرکے گلے میں سکول بیگ اور ہاتھوں میں لنچ باکس تھما کر اور پیشانی پر بوسہ دیکر انہیں گھر سے سکول جانے کیلئے دروازے میں کھڑے دور تک ہاتھ ہلا ہلا کر رخصت کیا، لیکن وہ تو دنیا سے ہی رخصت ہوگئے۔
ان شہداء نے اپنے خون کا خراج دیکر سیاستدانوں سے یہ عہد لیا کہ اب وہ قومی اور ملکی معاملات پر یکجا رہیں گے اور ہاتھوں میں ہاتھ ڈال کر اندرونی اور بیرونی دشمنوں کا مقابلہ کریں گے اور ایسا ہوا بھی لیکن کتنے دن شاید چند ماہ بھی نہیں اور 16 دسمبر کو اپنی پہلی برسی کے موقع پر ان شہداء کی روح یہ دیکھ کر تڑپ گئی ہوگی کہ کچھ بھی تو نہیں بدلا سب کچھ ویسا ہی ہے سیاسی نفسانفسی کا وہی عالم اتفاق کی بجائے نفاق کسی کا ہاتھ اور کسی کا گریباں وہی تضادات وہی اختلافات اور ویسے ہی الزامات جن میں ہر طرح کے دہشت گرد جنم لیتے ہیں اور ہر طرح کی دہشت گردی ہوتی ہے کیا ان معصوم شہیدوں کا خون رائیگاں چلا جائے گا؟؟؟
اور پھر آج بھٹو کی بیٹی کا دکھ عالم اسلام میں پاکستان کی پہلی خاتون وزیراعظم کا منصب اور رتبہ حاصل کرنے والی محترمہ بینظیر بھٹو جنہوں نے … سال قبل آج کے دن راولپنڈی کے لیاقت باغ میں جلسہ عام سے اپنا آخری خطاب کیا اور جلسہ گاہ سے رخصت ہوتے ہوئے دنیا کو ہی الوداع کہہ گئیں… خاتون ہونے کے باوجود انہوں نے سیاسی میدان میں آمروں اور سیاسی حریفوں کا مقابلہ مردانہ وار کیا۔
لیکن موت کا مقابلہ نہ کرسکیں یہ وہی لیاقت باغ ہے جہاں چند منٹ کی پیدل مسافت پر پاکستان کے پہلے وزیراعظم کو گولی مار دی گئی تھی اور اسی لیاقت باغ سے محض تین کلومیٹر کی مسافت پر راولپنڈی سنٹرجیل جہاں سابق وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کو تختہ دار پر لٹکایا گیا تھا اسی لیاقت باغ میں ذوالفقار علی بھٹو نے ایوب خان کے خلاف جدوجہد کا آغاز کیا اور اسی لیاقت باغ میں بھٹو کی بیٹی نے آمریت کے خلاف جدوجہد میں جان دے دی ان کی اس قربانی کے صلے میں پانچ سال تک حکمرانی کرنے والے تمام تر اختیارات کے باوجود ان کے قاتلوں کو منظر عام پر نہ لاسکے۔ آج ملک بھر میں ذوالفقار علی بھٹو اور ان کی بیٹی کی لٹی پٹی جماعت کے حقیقی اور نظریاتی کارکن اپنی قائد کی برسی منا رہے ہیں لیکن محض ایک دن کے طور پر کل یہ دن بھی گزر جائے گا۔
قومی المیوں اور سانحوں کو صرف ایک دن کے دکھ کے طور پر منانا اب ہماری روایت بنتی جارہی ہے 26 دسمبر کو ہم نے خوشبوئوں کی شاعرہ پروین شاکر کا دکھ بھی یاد رکھنا ہے جو صرف 42 سال کی عمر میں ایک حادثے کا شکار ہو کر ہم سے ہمیشہ کیلئے دور ہوگئیں اور اسی دن منیر نیازی کا بھی جو یہ کہتے چل بسے کہ ’’منیر اس ملک پر آسیب کا سایہ ہے یا کیا ہے،کہ حرکت تیز تر ہے اور سفرآہستہآہستہ ‘‘ یہ بھی دسمبر ہی تھا جب ہم سب کے محبوب شاعر منیر نیازی ہم سے رخصت ہوئے ان کی شاعری اور شخصیت پر جتنی گفتگو ان کے ہم عصر شعرا دانشوروں، ناقدین اور ان کے عشاق نے کی ہے اور جس انداز سے اس کا احاطہ کیا ہے وہ خود بھی اسے ناکافی سمجھتے ہیں۔
اشفاق احمد لکھتے ہیں کہ۔ منیر نیازی کا ایک ایک شعر ۔ایک ایک مصرعہ اور ایک ایک لفظ آہستہ آہستہ زمین کے پردے سے ٹکراتا ہے اور اس کی لہروں کی گونج سے قوت سامعہ متاثر ہوئے نہیں رہ سکتی‘‘ منیر نیازی ایک انتہائی وجہیہ شخص تھے اور اپنے ناپسندیدہ لوگوں ’’ بدصورت‘‘ قرار دینے میں کوئی عار محسوس نہیں کرتے۔ اپنی شاعری اور روزمرہ کی گفتگو میں منیر نیازی جو اصطلاحیں استعمال کرتے تھے وہ ان کی انفرادیت میں شمار ہوتی جن میں چڑیل، پچھل پیری،جن بھوت، جنگل وہ بکثرت استعمال کرتے تھے یہ بھی حقیقت ہے کہ منیر نیازی عام زندگی میں بے ساختگی سے جو باتیں کرتے تھے اگر انہیں محفوظ کرکے تحریری شکل دے دی جاتی تو وہ بھی ان کے اشعار کی طرح مقبول ہوتی۔
ہر وقت بے چین، مضطرب، انجانے خوف میں مبتلا، گھبرائے ہوئے دکھائی دینا۔ اپنی ان کیفیات کا ذکر انہوں نے اپنے اشعار میں بھی کیا ہے۔ اور اس شعر میں بھی۔ ’’کج شہر دے لوگ وی ظالم سن ،کج سانوں مرن دا شوق وی سی‘‘ اور 26 دسمبر2006 ءمیں انہوں نے اپنا یہ شوق پورا کر لیا۔ وہ لاہور کے ایک ہسپتال میں زیر علاج تھے جہاں اس احتجاج کے شاعر نے زندگی کو رخصت کیا۔