اور آخر کار صوبائی وزیر مال حاجی قلندر لودھی کی قربانی کی بدولت خیبر پختونخوا حکومت ایک بڑے آئینی بحران سے بچ گئی ، رواں سال اپریل میں2 برطرف صوبائی وزرا کی واپسی کیساتھ 2نئے وزرا نے حلف اٹھایا تھا جس کے بعد صوبائی وزرا کی مجموعی تعداد 16ہوگئی تھی، اگر وزیر اعلیٰ کو شامل کیا جائے تو کابینہ ارکان کی تعداد17تک چلی گئی تھی چنانچہ اسی وقت آئینی اور قانونی ماہرین نے کہنا شروع کردیا تھا کہ صوبائی وزرا کی تعداد آئین میں دی گئی تعداد سے متجاوز ہے اور بعد ازاں یہی معاملہ اپوزیشن جماعتوں نے صوبائی اسمبلی کے اجلاس میں اتھایا۔
تاہم بعض صوبائی وزرا کا یہ خیال تھا کہ کابینہ کے اراکین کی تعداد آئین کے مطابق ہی ہے مگر جب اسمبلی میں معاملہ اٹھا اور ایڈووکیٹ جنرل کی رائے مانگی گئی تو انہوں نے اپنا وزن اپوزیشن کے پلڑے میں ڈالتے ہوئے واضح کیا کہ آئین کی رو سے وزرا بشمول وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا کابینہ کی تعداد16سے ہرگز زیادہ نہیں ہونی چاہیے یوں صوبائی حکومت کے سرپر ایک بڑے آئینی بحران کےخطرات منڈلانے لگے تھے اور یہ آمر طے تھا کہ کسی ایک صوبائی وزیر کی قربانی دی جائے گی اور آخر کار یہ قربانی قلندر لودھی نے دیتے ہوئے2جون کو صوبائی وزیر کے عہدہ سے استعفیٰ دے دیا۔
جس کے جواب میں انہیں استعفیٰ کی منظوری کے چند لمحموں کے اندر ہی صوبائی مشیر بناکر اسی محکمہ کا قلمدان تفویض کیا گیا جو اس سے قبل صوبائی وزیر کی حیثیت سے ان کے پاس تھا، اسی روز وزیر اعلیٰ محمود خان نے بروقت قدم اٹھاتے ہوئے صوبائی وزیر قانون ، پارلیمانی امور اور انسانی حقوق فضل شکور خان کے محکمے کو دو حصوں میں تقسیم کرتے ہوئے ان سے پارلیمانی امور اور انسانی حقوق کا شعبہ لیکر صوبائی وزیر بلدیات اکبر ایوب خان کے حوالے کیا کیونکہ صوبائی وزرا کی آئینی تعداد کے معاملہ پر چند دن پہلے ہی فضل شکور خان نہ صرف صوبائی اسمبلی میں مدلل جواب دینے میں ناکام رہے تھے بلکہ بعدازاں اسمبلی اجلاس کے دوران ہی اپنے موبائل فون پر ویڈیو گیم کھیلنے کی تصویر اور ویڈیو وائرل ہوئی تھی۔
جس کا وزیر اعلیٰ محمود خان نے فوری نوٹس لیتے ہوئے نہ صرف ان کی سرزنش کی بلکہ ان سے پارلیمانی امور کے معاملات لیکر کابینہ کے دوسرے رکن کے حوالے کردئیے کیونکہ اس سے قبل جب صوبائی وزیر قانون سلطان محمد مستعفی ہوئے تھے تو اکبر ایوب خان نے اضافی چارج کے طور پر محکمہ قانون اور پارلیمانی امور کے معاملات خوش اسلوبی کیساتھ چلائے تھے۔
وزیر اعلیٰ کے اس بروقت اقدام سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ محمود خان اب وقت ضائع کرنے والوں کیساتھ مزید کوئی رعایت روا رکھنے کے قائل نہیں اور یہی وجہ ہے کہ گزشتہ دنوں جب صوبائی پارلیمانی پارٹی کا اجلاس ہوا تھا تو اس میں انہوں نے کھل کر تمام صوبائی وزرا، مشیروں اور معاونین خصوصی کو سختی کیساتھ یہ تاکید کی تھی کہ عوامی مسائل کے حل کے حوالے سے دفاتر سے نکلتے ہوئے موثر کردار ادا کریں، انہوں نے صوبائی وزرا کو ہفتہ میں ہر صورت تین دن دفاتر میں بیٹھنے اور اسمبلی اجلاس میں شرکت کے تسلسل کو یقینی بنانے کا بھی پابند بنایا جبکہ اراکین صوبائی اسمبلی پر بھی واضح کیا کہ اسمبلی اجلاس کے دوران وزیر اعلیٰ ہاؤس آنے کی کوشش نہ کریں۔
اس وقت صوبہ میں تحریک انصاف حکومت کے تین سال مکمل ہونے والے ہیں اور اب حکومت کے پاس دو سال ہی باقی رہ گئے ہیں چنانچہ صوبائی حکومت کے کپتان کی حیثیت سے وزیر اعلیٰ محمود خان اب تیزی کیساتھ انتخابی وعدوں کی تکمیل اور ڈیلیوری یقینی بنانے کی حکمت عملی پر گامزن ہوچکے ہیں جس کا آغاز انہوں نے رمضان المبارک کے دوران خود ہی کردیا تھا جب انہوں نے متواتر مختلف سرکاری دفاتر اور بازاروں ، تھانوں کے اچانک دوروں کا سلسلہ شروع کرکے کیا۔
انہوں نے اسی وقت واضح کیا تھا کہ چھاپوں کا یہ سلسلہ جاری رہے گا اور بعد میں انہوں نے اس پر عمل کرکے بھی دکھایا،تاہم بدقسمتی سے ان کی حکمت عملی پر کسی بھی صوبائی وزیر یا مشیر نے عمل کرنے کی زخمت گواراہ نہیں کی حالانکہ وزیر اعلیٰ کے پے در پے چھاپوں کے بعد صوبائی وزرا کو از خود متحرک ہوجانا چاہیے تھا، نہ صرف یہ کہ صوبائی وزرا میدان میں نکلنے کے معاملہ میں ہچکچاتے رہے بلکہ دفاتر سے غیر حاضری کی شکایات بھی بڑھتی چلی گئیں اور پھر 22مئی کو وزیر اعلیٰ نے پارلیمانی پارٹی کے اجلاس میں سب کو کھری کھری سناتے ہوئے آخری وارننگ دیدی۔
ظاہر ہے کہ پاکستان تحریک انصاف کی دوسری صوبائی حکومت کے پاس اب وقت ضائع کرنے کا کوئی موقع نہیں بلکہ وعدوں کی تکمیل کےلئے سال ڈیڑھ سال کا عرصہ ہی رہ گیا ہے کیونکہ آخری 6ماہ میں کام نکالنے مشکل ہوجاتے ہیں اور اسی امر کا احساس کرتے ہوئے صوبائی حکومت نے بجٹ سے قبل ہی سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں25فیصد اضافہ کا اعلان کیا ہے جبکہ بجٹ میں سرکاری ملازمین کی تنخواہ میں مزید اضافی کیساتھ ایڈہاک ریلیف بھی دیا جائیگا حالانکہ اس سے قبل صوبائی حکومت کا یہ موقف رہا ہے کہ مشکل مالی صورت حال کی وجہ سے سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں فی الفور قابل ذکر اضافہ کرنا ممکن نہیں۔