• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

(گزشتہ سے پیوستہ)

ہمیں یاد ہے کہ آج سے پچاس برس قبل ہم اپنے ایک عزیز اور والد کیپٹن (ر) محمد ادریس ناگی مرحوم کے ساتھ لاہور ایئر پورٹ جا رہے تھے۔ FEATHER STON ROADجس کو اب عابد مجید روڈ کہتے ہیں،یہ ان دنوں ایک چھوٹی سی سڑک تھی۔ حالت یہ تھی کہ اگر سامنے سے بس آ جائے تو موٹرکار کو سڑک سے نیچے اتارنا پڑتا تھا۔ شیرپائو برج ابھی نہیں بنا تھا۔ میاں میر چھائونی آنےکے لئے صرف میاں میر پل استعمال ہوتا تھا اور پھر میاں میر اسٹیشن بھی آپ کو اسی پل سے اتر کر سینٹ جان پارک میں سے جانا پڑتا تھا۔ سینٹ جان پارک میں چند ایک پرانی کوٹھیاں تھیں اب صرف ایک پرانی کوٹھی رہ گئی ہے جو غالباً کسی جسٹس کی ہے۔ ایئرپورٹ جانے کے لئے آپ کو SIR SUGH ROSE ROAD موجودہ نام شامی روڈ سے یا پھر اس سے آگے تین سڑکوں میں سے کسی ایک سے جانا پڑتا تھا۔ ایئرپورٹ والی سڑک انتہائی گھنے اور بڑے بڑے درختوں سے بالکل ڈھکی ہوئی تھی۔لاہور کینٹ کا درجہ حرارت شہر سے کم از کم دو تین درجے کم ہوتا تھا۔ سردیوں میں یہ علاقہ خاصا سرد ہوتا تھا۔ آپ کو اکثر سائیکل پر کیپٹن /سیکنڈ لیفٹیننٹ/ لیفٹیننٹ اور میجر اور کرنل ویسپا اسکوٹر یا پھر پرانی فوکس ویگن چلاتے نظر آتے تھے۔ آج جو آپ میاں میر چھائونی دیکھ رہے ہیں‘ یہ ساٹھ برس قبل بالکل مختلف اور صاف ستھرا علاقہ تھا۔ فورٹریس اسٹیڈیم ایسا نہیں تھا۔ ایک لال رنگ کی چار دیواری تھی جس میں مختلف فوجی سرگرمیاں ،مشقیں اور ہارس اینڈ کیٹل شو ہوا کرتا تھا۔ ایک پوسٹ آفس تھا اور دکانوں کا کوئی تصور تک نہیں تھا۔ آج تو فورٹریس اسٹیڈیم میں آپ کو پائوں دھرنے کی جگہ نہیں ملتی۔ ہائے کیا خوبصورت لاہور کینٹ (میاں میر چھائونی) تھا جس پولو گرائونڈ میں آج صرف واکنگ اور جاکنگ ٹریک ہے وہاں کبھی صرف پولو ہوا کرتی تھی۔ ہم نے خود کئی مرتبہ اندر جا کر اور کئی مرتبہ باہر کھڑے ہو کر پولو میچ دیکھے ہیں۔ سڑک سے ہر کوئی پولو میچ دیکھ لیتا تھا۔ اس پولو گرائونڈ کے قریب جس کو آج ندیم چوک کہتے ہیں وہاں ایک مزار بھی تھا جسے مسمار کر دیا گیا اور اب وہاں سڑک بائیں جانب آر اے بازار (رائل آرٹلری بازار) جاتی ہے۔ لاہور کینٹ میں سڑک کنارے دو اور مزار بھی تھے جنہیں مسمار کر دیا گیا ۔ گرجا چوک جہاں بڑا تاریخی گرجا سینٹ میری مگدالین چرچ ہے ، اس گرجا پر 1857ء میں حملہ کیاگیا تھا۔ اس حوالے سے چوک میں ایک چھوٹی سا یادگاری ٹی کی صورت میں ایک پتھر نصب تھا جو ضیاء الحق کے دور میں اتار دیا گیا تھا۔گرجا چوک کا یہ چرچ تعمیراتی لحاظ سےبڑا خوبصورت ہے اور دیکھنے سے تعلق رکھتا ہے۔ یہ چرچ 1856ء میں تعمیر ہوا تھا، انتہائی مضبوط عمارت ہے اب اس کے اندر ایک اسکول بھی ہے۔ گرجا چوک پر آج بھی ایک بہت بڑا رائونڈ ابائوٹ یعنی گول چکر موجود ہے۔ لاہور کا اصل اور پہلا ایئرپورٹ تو والٹن ایئرپورٹ ہے، دوسرا ایئرپورٹ میاں میر چھائونی والا اور تیسرا ایئرپورٹ موجودہ ہے جس کا راستہ ڈی ایچ اے اور مال روڈ سے بھی ہے۔

بات قدیم درختوں اور سڑکوں کے ناموں سے شروع ہوئی تھی۔ ایک اور بات کا بھی ہم ذکر کر دیں ہم، گزشتہ ہفتے حضرت میاں میرؒ کے مزار مبارک پر حاضری دینے گئے تو وہاں جا کر انتہائی افسوس ہوا کہ اس مزار مبارک کی قدیم چار دیواری جو چھوٹی اینٹ کی ہے اس میں سے مسالہ باہر آ چکا ہے اور دیوار انتہائی خستہ حال ہے حالانکہ یہ دیوار کم از کم چار سو برس قدیم ہے اور محکمہ اوقاف کی تھوڑی سی توجہ سے یہ دیوار آئندہ کئی سو برس تک چل سکتی ہے مگر ہمارے ہاں تو قدیم عمارتیں کو گرانے والا ایک مافیا مدت سے سرگرم ہے جو پہلے قدیم عمارت کو مزید خستہ کرتا ہے اور پھر گرا کر دیہاڑی لگاتا ہے۔ حالانکہ حضرت میاں میرؒ کے مزار مبارک کے سامنے حال ہی میں گورنمنٹ میاں میرؒ اسپتال بنایا گیا ہے مگر کسی نے مزار کی اندرونی اور بیرونی حالت کو بہتر بنانے کی جانب توجہ نہیں دی۔ عزیز قارئین! فورٹریس اسٹیڈیم، اپر مال، دھرم پورہ کا کچھ علاقہ اور انفنٹری روڈ یہ دراصل سب میاں میر گائوں تھا۔

پچھلے کالم میں میاں میرؒ چھائونی کی کچھ سڑکوں کے نام رہ گئے تھے۔ ایلیگن روڈ موجودہ نام باغ علی روڈ، ELGIN ROADکا موجودہ نام سرور روڈ (سرور روڈ بھی بڑی طویل ہے اور اس کے اطراف میں صدیوں قدم درخت موجود ہیں)، میاں میرچھائونی میں حضرت میاں میرؒ کے آخری مرید کے مزار کے علاوہ اور دو درگاہیں بھی ہیںجن کے نام یہ ہیں۔حضرت میاں محمد مراد المشہور داتری پیر سرکار (حضرت میاں میرؒ کے آخری مرید)، بڑی پُرسکون اور صاف ستھری جگہ ہے اور یہ مزار قدیم درختوں کی چھائوں میں ہے۔ دوسرے دو مزار بابا شاہ مسکین امری اور سید حیدر علی شاہ قلندر کے ہیں۔ یہاں بھی بڑی رونق ہوتی ہے خصوصاً جمعرات کو۔ یہاں بہت بڑا عرس بھی ہوتا ہے۔ یہ مزار بھی کوئی تین سو برس قدیم ہیں۔ WELLINGTON MALL موجودہ نام طفیل روڈ، اس کے علاوہ بنارس روڈ، لدھیانہ روڈ۔ شہر لاہور میں بھی کئی سڑکوں کے نام گوروں کے دور کے کمشنروں اور ڈپٹی کمشنروں کے نام پر ہیں۔ ایجرٹن روڈ کا نام پہلے ریکٹ کورٹ روڈ تھا۔ لاہور میں ریٹی گن اور ٹیپ روڈ ایلیٹ کلاس کا علاقہ تھا۔ اس کے علاوہ ماڈل ٹائون، ایمپریس روڈ (ایمپریس مارکیٹ کراچی میں بھی ہے) ڈیوس روڈ، ایجرٹن، منٹگمری روڈ، میکلوڈ روڈ، میکلیگن روڈ، اپر مال، لوئر مال، سندر داس روڈ، وائٹ ہائوس لین اور زمان پارک میں بڑی بڑی قدیم کوٹھیاں تھیں۔ زمان پارک جہاں وزیر اعظم عمران خان کا اپنا گھر بھی ہے اور ان کے رشتہ داروں کی کئی کوٹھیاں بھی قائم ہیں، آج بھی وہاں پرانی کوٹھیاں اپنی اصل حالت میں موجود ہیں۔ (جاری ہے)

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین