براعظم یورپ کے اہم ترین ملک برطانیہ میں کافی ایسے ادیبوں کی تعداد ہے، جن کا آبائی پس منظر مختلف ہے، لیکن وہ برطانوی شہری ہوتے ہوئے، اپنے اپنے شعبوں میں عالمی شہرت حاصل کرچکے ہیں، ان میں ایک بڑی تعداد ان پاکستانی نژاد برطانوی افراد کی بھی ہے، جن کے آبائو اجداد کا تعلق تو پاکستان سے ہے، مگر وہ برطانیہ میں پیدا ہوئے۔ برطانوی ادب کے موجودہ منظرنامے پر حنیف قریشی، جو پاکستانی نژاد ہیں، لیکن برطانیہ کا فخر بھی ہیں۔ ان کو 2008 میں برطانوی شاہی اعزاز سے بھی نوازا جا چکا ہے۔ وہ موجودہ دور کے عالمی شہرت یافتہ برطانوی ادیب ہیں۔
حنیف قریشی 5 دسمبر 1954کو لندن (برطانیہ) میں پیدا ہوئے۔ 1947 میں ان کے والد’’رفیع الشان‘‘ انڈیا سے ہجرت کر کے پاکستان آئے اور 1950 میں وکالت کی تعلیم حاصل کرنے کی غرض سے برطانیہ چلے گئے۔ وہ بطورطالب علم مالی وہاں مشکلات کا شکار تھے، تلاشِ معاش میں برطانیہ میں قائم پاکستانی سفارت خانے سے وابستہ ہوگئے، یہیں ان کی اپنی ہم پیشہ برطانوی خاتون سے شادی ہوئی، یوںان کا قیام برطانیہ میں مستقل طور پر ہوا۔ حنیف قریشی کے دادا’’ایم اے قریشی‘‘ قیام پاکستان سے قبل ہندوستانی فوج میں اعلیٰ عہدے پر فائز تھے۔ ان کے والد عمرقریشی، کچھ عرصہ پاکستانی کرکٹ ٹیم کے ہمراہ انتظامیہ کا حصہ بھی رہے۔ ٹائمز میگزین نے 1947 سے لے کر 2008 تک 50 معروف برطانوی ادیبوں کی فہرست جاری کی، تو اس میں حنیف قریشی کا نام بھی شامل تھا۔
حنیف قریشی نے کنگز کالج، لندن سے فلسفہ میں ماسٹرز کی ڈگری حاصل کی اور 1970 میں لکھنے سے اپنے کیرئیر کا آغاز کیا۔ اپنے لکھنے کے ابتدائی دور میں، انہوں نے نہایت سطحی اور کمرشل تحریریں لکھیں، مگر اصل کی بجائے کئی فرضی نام استعمال کیے۔ انتہائی کم عمری میں تھیٹرکے لیے کھیل بھی لکھے۔ 80 کی دہائی میں فلم نگاری کی شروعات بھی کی۔ ان کی پہلی ہی کامیاب لیکن متنازعہ فلم’’مائی بیوٹی فل لانڈریٹ‘‘تھی۔ یہ کہانی ان کے نیم سوانحی تجربات پر مبنی تھی۔ یہ فلم آسکر ایوارڈ برائے’’بہترین اوریجنل اسکرین پلے‘‘ کے لیے بھی نامزد ہوئی تھی۔
انہوں نے ایک فلم’’لندن کلنگ می‘‘ کو لکھنے کے ساتھ ساتھ، اس کی ہدایات بھی دی تھیں۔ 1998 میں ان کے شائع ہونے والے ایک ناول ’’اِنٹی میسی‘‘ یعنی’’قربت‘‘ کو قارئین نے بہت پسند کیا، پھر 2001 میں اس ناول کی کہانی سے متاثر ہوکر، اسی ناول کے نام سے فلم بھی بنائی گئی۔ فرانس سے تعلق رکھنے والے فلم ساز’’پیٹرس کیرو‘‘ نے اس فلم کی ہدایات دی تھیں۔ اس کہانی میں ایک ایسے اداس انسان کو دکھایا گیا ہے، جس کی ازدواجی زندگی ناخوشگوار ہے۔ اسے اپنے دونوں بچوں سے بہت پیار ہے، لیکن اس کی بیوی اسے مسترد کرکے علیحدگی اختیار کرچکی ہے۔
ایک ناکام شوہر، مجبور باپ اور بے چین عاشق کس طرح اس صورتحال کی تلافی کرتا ہے، اسی شخصی تکون کی عکاسی کی گئی ہے۔ کہا جاتا ہے، اس کہانی پر بھی حنیف قریشی کی ذاتی زندگی کی پرچھائیاں ہیں۔ اس بات کو ان کی حقیقی زندگی سے جوڑ کر دیکھا جائے تو یہ بات کسی حد تک درست بھی معلوم ہوتی ہے۔ اس متذکرہ ناول کی طرح فلم کو بھی بہت کامیابی ملی۔ اس فلم کا اسکرپٹ’’اینی لوئس‘‘ اور’’پیٹرس کیرو‘‘ نے مل کر لکھا تھا۔ فلم کے مرکزی کرداروں میں برطانوی اداکار’’مارک رائلنس‘‘ اور نیوزی لینڈ سے تعلق رکھنے والی اداکارہ’’کیری فوکس‘‘ نے ادا کیے، دونوں نے اپنی شاندار اداکاری سے شائقین فلم کے دل موہ لیے۔ اس فلم کی موسیقی، عکس بندی اور دیگر شعبے بھی مضبوط تھے، جس کی وجہ سے مجموعی طور پر فلم کو پسند کیا گیا اور ہدایت کار نے حنیف قریشی کے ناول کی کہانی کو احساسات میں ڈبو کر فلمایا، یوں قارئین کی طرح فلم بینوں نے بھی اسے اپنے دل سے قریب محسوس کرتے ہوئے پسندیدگی کی سند عطا کی۔
حنیف قریشی بطور ناول نگار، فلم نویس، ڈراما نگار، افسانہ نویس اور مضمون نگار بہت کامیاب رہے۔ ان کی کہانیوں کو تھیٹر، ٹیلی وژن اور فلم کے شعبے میں بہت ساری کامیابیاں ملیں۔ 2014 میں برٹش لائبریری نے حنیف قریشی کے تخلیقی کام کے حوالے سے ایک آرکائیوسیکشن بنانے کا اعلان بھی کیا، اس سے ان کے تخلیق کیے ہوئے ادب کے معیار اور برطانوی قدرشناسی کا اندازہ ہوتا ہے۔ حنیف قریشی نے 9ناول لکھے ہیں، جبکہ ان کی مختصر کہانیوں کے 3 مجموعے شائع ہوئے ہیں۔
تھیٹر، ٹیلی وژن اور فلم کے لیے لکھی گئی کہانیوں کی تعداد درجن بھر سے زیادہ ہے اور مضامین پر مبنی، ان کی 4 کتابیں چھپ چکی ہیں، ایک کتاب کی تدوین بھی کی۔انہوں نے ناول نگاری کے بعد فلم نگاری کے شعبے میں زیادہ لکھا، لگ بھگ درجن فلمیں ہیں، انہوں نے جن کے اسکرپٹ بھی لکھے۔ ان میں کئی فلموں کو پذیرائی بھی ملی۔ حنیف قریشی کی پیشہ ورانہ کامیابیوں کا سلسلہ جاری ہے۔ اگر وہ انہیںمدعو کریں۔ وہ اس وقت عہد حاضر کے ایک بڑے ادیب اور فلم نویس ہیں، جن کی مقبولیت ان کے شاندار ہونے کو ثابت کر رہی ہے۔