• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
میں گزشتہ کئی سالوں سے حکومت پاکستان کے نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف مینجمنٹ (NIM) میں ملک بھر کے 20 ویں گریڈ میں ترقی کے خواہاں اعلیٰ افسران کے کورس کے شرکاء کو ملکی معیشت پر لیکچر دینے جارہا ہوں جو ان کے تربیتی کورس کا حصہ ہوتا ہے۔ اس بار NIPA کے ڈائریکٹر جنرل نے مجھے 12 ویں سینئر مینجمنٹ کورس کے شرکاء کو پاکستان میں بڑی صنعتوں کی ترقی، موجودہ حالات میں ملکی صنعتی ترقی کی حکمت عملی پر عمل اور چائنا کے پاکستان کیساتھ بڑے درجے کی صنعتوں میں جوائنٹ وینچرکے مواقع پر 2گھنٹے کی پریذنٹیشن اور سوال و جواب کیلئے مدعو کیا تھا۔
میں نے اپنی پریذنٹیشن میں بتایا کہ قیام پاکستان کے بعد ملکی ترقی کو صنعتی ترقی سے مشروط اور ملک کو ایک دکان کے بجائے فیکٹری میں تبدیل کرنے کا عزم کیا گیا تھا۔ اکتوبر 1947ء میں پہلا ولیکا ٹیکسٹائل مل کا بابائے قوم نے سائٹ کے صنعتی علاقے میں افتتاح کیا۔ کوئی بھی صنعتی پالیسی اس وقت تک کامیاب نہیں ہوسکتی جب تک ملک میں بلاتعطل مقابلاتی قیمتوں پر بجلی اور گیس کی فراہمی، صنعتوں کیلئے انفرااسٹرکچر، جدید مواصلاتی نیٹ ورک، ہنرمند اور تجربہ کار محنت کش، جدید بینکنگ اور دوستانہ حکومتی ریگولیٹری نظام پایا نہ جاتا ہو۔ قیام پاکستان کے بعد ہم نے آہستہ آہستہ مطلوبہ سہولتیں حاصل کیں لیکن اب بھی ہم اپنی صنعتوں کو مطلوبہ توانائی فراہم کرنے سے قاصر ہیں۔ گزشتہ دور حکومت میں ہماری بڑے درجے کی صنعتی ترقی گروتھ ریکارڈ 18% تک پہنچ گئی تھی لیکن بجلی اور گیس کے بحران، ملک میں امن و امان کی ناقص صورتحال اور اسٹیٹ بینک کی سابقہ گورنر ڈاکٹر شمشاد اختر کی سخت مالیاتی پالیسی کے باعث بینکوں کے قرضوں پر بلند شرح سود سے ہمارے بڑے درجے کی صنعتی گروتھ کم ہوکر صرف 2% سے 3% تک رہ گئی جس کے باعث ملک میں بیروزگاری اور غربت میں اضافہ ہوا۔ اس کے برعکس انڈیا کی بڑے درجے کی صنعتوں کی گروتھ6% رہی۔ ہم نے آئندہ 10 سالوں کیلئے اپنے مینوفیکچرنگ سیکٹر میں 8% سالانہ گروتھ حاصل کرنے کا ہدف رکھا ہے جس کے باعث ہم صنعتی شعبے میں ملازمتوں کے موجودہ مواقع 13%سے بڑھاکر 20% تک لے جاسکتے ہیں جس سے 40 لاکھ محنت کشوں کو صنعتی شعبے میں روزگار کے مواقع حاصل ہوں گے۔ اس کے ساتھ ساتھ ہمیں مینوفیکچرنگ سیکٹر میں ویلیو ایڈیشن (MVA)کو 100% اور جدید ٹیکنالوجی کو اپنانا ہوگا۔
اس وقت پاکستان دنیا میں فیکٹری پیداوار میں 55 ویں نمبر پر آتا ہے اور ملکی جی ڈی پی میں ہمارے صنعتی سیکٹر کا حصہ 24%ہے۔ صنعتی شعبے کا سب سے بڑا سیکٹر ٹیکسٹائل ملکی معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے جو ہماری مجموعی ایکسپورٹ میں 56% اور صنعتی شعبے میں 40% روزگار کے مواقع فراہم کررہا ہے۔ ٹیکسٹائل سیکٹر جس کا ہماری جی ڈی پی میں حصہ 7.5% ہے، زرعی شعبے میں پیدا ہونے والی سب سے بڑی فصل کاٹن کی 12 سے 13 ملین بیلز کا خریدار ہے۔ پاکستان اس وقت دنیا میں دوسرے نمبر پر کاٹن یارن، تیسرے نمبر پر فیبرک اور چوتھے نمبر پر کاٹن پیدا کرنے والا ملک ہے۔ پاکستان میں اس وقت دنیا کے ٹیکسٹائل کے بڑے برانڈز مینوفیکچر ہورہے ہیں اور ہماری ٹیکسٹائل صنعت 18 کروڑ عوام کو نہ صرف ہر قسم کی ٹیکسٹائل مصنوعات فراہم کررہی ہے بلکہ ملک کیلئے تقریباً 14/ارب ڈالر سالانہ کا زرمبادلہ ایکسپورٹ سے کمارہی ہے۔ 1999ء سے 2009ء تک ٹیکسٹائل صنعت نے اپنے وسائل سے ٹیکسٹائل سیکٹر میں تقریباً 7.5/ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کی ہے اور آج ہماری ٹیکسٹائل صنعت خطے میں نہایت جدید ٹیکنالوجی کی حامل ہے جسے مدنظر رکھتے ہوئے ہمارے ٹیکسٹائل سیکٹر کے زیرو سے شروع ہونے والے سفر کو ہر لحاظ سے کامیاب قرار دیا جاسکتا ہے۔
پاکستان کی دیگر بڑی صنعتوں میں سیمنٹ، فرٹیلائزر، آٹو موبائلز، خوردنی تیل، شوگر، اسٹیل، تمباکو، کیمیکلز، انجینئرنگ، دفاعی پیداوار، فوڈ پروسیسنگ، شپ، بلڈنگ اینڈ بریکنگ انڈسٹریز شامل ہیں اور ملکی تجارتی پالیسی روایتی مصنوعات مثلاً ٹیکسٹائل، لیدر، کارپیٹ، چاول، سرجیکل اور اسپورٹس گڈز کی ایکسپورٹس کے علاوہ غیر روایتی مصنوعات کو نئی منڈیوں میں متعارف کرانے کی حوصلہ افزائی کرتی ہے۔ پاکستان میں آٹو موبائلز کی صنعت نے تیزی سے ترقی کی ہے۔ اس سال ملک میں گاڑیوں کی فروخت میں 11% اضافہ ہوا ہے اور رواں سال 1,57325 گاڑیاں فروخت ہوئیں جبکہ گزشتہ سال ان کی تعداد 1,27944 تھی جس میں سب سے زیادہ ٹویوٹا کرولا 46,207، سوزوکی مہران 35,131 جبکہ ہنڈا اور دیگر گاڑیوں کی فروخت 75,987 رہی۔ اسی سیکٹر میں پاکستان دنیا میں پانچواں بڑا موٹر سائیکل بنانے والا ملک بن گیا ہے۔ ہنڈا کمپنی جو پاکستان میں سالانہ 7,50,000 موٹرسائیکلیں تیار کررہی ہے کے منیجنگ ڈائریکٹر کے مطابق پاکستان دنیا میں موٹر سائیکل کی سب سے بڑی مارکیٹ ہے، یہ وہ واحد صنعت ہے جس نے اپنے ساتھ آٹو موبائلز وینڈر انڈسٹری کو فروغ دیا جو ان گاڑیوں کیلئے مختلف پارٹس تیار کرتی ہے۔
پاکستان کی سیمنٹ انڈسٹری نے نہایت تیزی سے ترقی کی ہے جس کا صنعتی شعبے کی مجموعی پیداوار میں حصہ 4.41% ہے۔ ملک میں اس وقت سیمنٹ کی 17 بڑی صنعتیں قائم ہیں۔ سیمنٹ کی ایکسپورٹ میں گزشتہ سال کے مقابلے میں رواں سال 47% اضافہ ہوا جس میں زمینی راستے سے انڈیا اور افغانستان کو ایکسپورٹ شامل ہے۔ پاکستان سے سیمنٹ کی ایکسپورٹ میں گزشتہ 10 سالوں میں حیرت انگیز طور پر اضافہ ہوا ہے اور اس وقت پاکستان، انڈیا، افغانستان، عرب امارات، عراق، روس اور وسط ایشیائی ممالک کو 13 سے 14 ملین ٹن سیمنٹ ایکسپورٹ کرکے دنیا کا پانچواں بڑا ملک بن گیا ہے۔ پاکستان کا تیسرا بڑا سیکٹر انرجی ہے جس میں تیل، بجلی اور گیس کی پیداواری صنعتیں شامل ہیں۔ اس کے بعد فرٹیلائزر سیکٹر آتا ہے۔ ملک میں اس وقت 10 فرٹیلائزر پلانٹس کام کررہے ہیں جو 4.3 ملین ٹن فرٹیلائزر پیدا کررہے ہیں۔ 2001-02ء میں فرٹیلائزر سیکٹر کی مجموعی پیداوار 5 ملین ٹن تک پہنچ گئی تھی لیکن موجودہ حالات میں گیس کی لوڈ شیڈنگ سے اس سیکٹر کی پیداواری صلاحیت بری طرح متاثر ہوئی ہے جس کے باعث ہم بڑی مقدار میں فرٹیلائزر امپورٹ کرنے پر مجبور ہیں۔
کسی بھی ملک میں اسٹیل کی صنعت ملکی صنعتی ترقی میں نہایت اہم کردار ادا کرتی ہے۔ مثال کے طور پر اس وقت دنیا کی اسٹیل کی مجموعی 1,413.6 ملین ٹن پیداوار میں صرف چائنا میں 626.7 ملین ٹن، یورپی یونین 172.9 ملین ٹن، جاپان 109.6 ملین ٹن، امریکہ 80.6 ملین ٹن، روس 67 ملین ٹن، انڈیا 66.8 ملین ٹن اور پاکستان میں اسٹیل کی پیداوار صرف 4.3 ملین ٹن سالانہ ہے۔ شہید بھٹو کے دور حکومت میں روس کے تعاون سے پاکستان کا پہلا اسٹیل مل کراچی میں قائم کیا گیا جس کی پیداواری صلاحیت میں اب تک کوئی اضافہ نہیں کیا گیا ہے حالانکہ ملک میں اسٹیل کی طلب میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے۔ ملک کی دیگر صنعتوں میں کیمیکل سیکٹر جس میں اس وقت 12 صنعتیں کاسٹک سوڈا، سلفر ایسڈ، کلورین گیس، سوڈا ایش اور دیگر کیمیکلز تیار کررہی ہیں۔ اس سیکٹر کا ملک کی مجموعی جی ڈی پی میں حصہ 3%ہے لیکن یہ سیکٹر، صنعتی سیکٹر کی ضروریات پوری کرنے سے قاصر ہے جس کے باعث ہمیں بڑی مقدار میں ڈائز اور کیمیکلز امپورٹ کرنا پڑتے ہیں۔ پاکستان کے انجینئرنگ سیکٹر میں 6 ہیوی انجینئرنگ انڈسٹریز پبلک سیکٹر میں قائم ہیں جن میں اسٹیل ملز، پاکستان مشین ٹول فیکٹری، کراچی شپ یارڈ، ہیوی مکینیکل کمپلیکس، ہیوی فاؤنڈری پروجیکٹ ٹیکسلا اور پاکستان آرڈیننس فیکٹری واہ شامل ہیں لیکن پاکستان کو حقیقی معنوں میں ترقی یافتہ صنعتی ملک بنانے کیلئے ہمیں ملک میں انرجی سپلائی کیلئے موثر انفرااسٹرکچر بنانا ہوگا جس کے نہ ہونے کے باعث آج ہم خطے میں صنعتی ترقی میں پیچھے رہ گئے ہیں۔ میں امید کرتا ہوں کہ موجودہ حکومت کی نئی انرجی پالیسی اس سلسلے میں ایک اہم پیشرفت ثابت ہوگی۔
تازہ ترین