پیارے بچو! آپ کو یہ تو یقیناً معلوم ہوگا کہ ہر سال جون کے تیسرے اتوار کو " فادرز ڈے " منایا جاتا ہے۔ سمجھدار بچے اپنے آس پاس رہنے والوں سے یہ بات بھی سنتے ہوں گے کہ بھئی" ہمارے معاشرے میں اس دن کو منانے کی کیا ضرورت ہے یہ تو مغربی کلچر کی روایات میں سے ایک روایت ہے ، ہم تو مسلمان ہیں، ہمارا تو ہر دن فادرز ڈے " ہونا چاہئے " ۔
یقیناً یہ بات درست ہے لیکن اب میں آپ لوگوں سے ایک سوال کرتی ہوں کہ " کیا ہمارا ہر دن ’’فادرز ڈے‘ ہو ؟‘‘ نہیں ناں! ایسا نہیں ہوتا ! بلکہ یہ کہنا زیادہ مناسب ہوگا کہ زیادہ تر گھروں میں ایسا نہیں ہوتا البتہ کچھ خوش قسمت گھر ایسے ہیں جہاں والدین کی عزت و قدر دن رات کی جاتی ہے انہیں سر آنکھوں پر بٹھایا جاتا ہے ،ان کااحترام کیا جاتا ہے۔ آپ نے یہ بھی دیکھا ہوگا کہ ان گھرانوں پر اللہ کی خاص رحمت بھی برستی ہے اور لوگ انہیں دیکھ کر رشک کرتے ہیں کہ کاش ہمارا گھرانہ بھی ایسا ہی ہوجائے۔
لیکن میرے پیارے سمجھدار بچو، آپ نے یہ بھی مشاہدہ کیا ہوگا کہ والدین جب تک جوا ن اور صحت مند رہتے ہیں انہیں اہمیت ملتی ہے لیکن عمر کے ساتھ ساتھ جب وہ بوڑھے ، کمزور اور بیمار ہوجاتے ہیں اور تب ان کی ضروریات پوری کرنا بچوں پر عائد ہوتی ہےیعنی، اب ان کی خدمت کی جائے، اس وقت کچھ گھروں میں انہیں بوجھ سمجھا جانے لگتا ہے ، ان کی عادات بری لگنے لگتی ہیں اور بڑھتی عمر کے سبب جب ان کی یادداشت متاثر ہوتی ہے ، بیماریوں کے سبب وہ چڑ چڑے ہوجاتے ہیں ، تنہائی کا شکار ہوکر ماضی میں رہنا شروع کر دیتے ہیں ، ہر وقت پرانے واقعات اور گذری ہوئی زندگی کے قصےبار بار دہراتے رہتے ہیں تو بدقسمت اولاد ان سے دور بھاگنا شروع کر دیتی ہے۔ شاید یہی سب دیکھ کر " مدرز ڈے " اور " فادرز ڈے " منانا شروع کیا گیا ہوگا کہ اس بھاگتی دوڑتی مصروف زندگی میں سے ایک دن ایسا ہو جو صرف اور صرف ماں باپ کے ساتھ گزارا جائے۔
اس کا یہ مطلب بالکل نہیں ہے کہ سال کے باقی 364 دن، ان سے بے گانہ رہ کر گزارے جائیں، ہر گز نہیں۔ جس طرح عید ایک خوشی کا تہوار ہے اور سال میں صرف ایک بار آتا ہے لیکن اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ سال کے باقی دنوں میں خوشیاں منانا منع ہے بالکل اسی طرح والدین کو بھی پورا سال محبت ، احترام اور توجہ دی جائے ،ان کی ضروریات کا بن کہے خیال رکھا جائے ، جب فرصت ملے انہیں کہیں باہر لے کر جایا جائے،رشتے داروں سے ملوایا جائے لیکن یہ سب کچھ کرنے کے بعد بھی سال کا ایک دن ایسا بھی ہو جو والدین کے لیے مخصوص ہو، جب اپنی تمام مصروفیات ترک کرکے صرف اور صرف ان کے ساتھ وقت گزارا جائے۔
ایک بچہ جب اس دنیا میں آتا ہے تو وہ بالکل چھوٹا سا ننھا منا پیارا سا ایک ایسا وجود ہوتا ہے جسے مستقل سہارے کی ضرورت ہوتی ہے وہ خود سے کچھ نہیں کرسکتا ایسے میں ماں باپ وہ ہستیاں ہیں جو اپنے چھوٹے سے بچے کی دیکھ بھال کرتے ہیں ،اس کی ذمہ داری اٹھاتے ہیں اور پھر ساری عمر اپنی اس ذمہ داری کو نبھانے میں لگا دیتے ہیں۔ اگر ماں اس بچے کے کھانے پینے ،سونے جاگنے کا خیال رکھتی ہے تو باپ اسے زندگی کی بنیادی ضروریات فراہم کرنے میں دن و رات ایک کر دیتا ہے، اسی لئے ماں کا رتبہ جتنا بلند ہے اتنا ہی اونچا باپ کا مقام بھی ہے ۔بقول شاعر ،
عزیز تر مجھے رکھتا ہے وہ رگ جاں سے
یہ بات سچ ہے میرا باپ کم نہیں ماں سے
باپ ایک سائبان اور ایک ایسی مضبوط چھت ہے جس کے نیچے رہنے والے ہر سردوگرم سے محفوظ رہتے ہیں ۔ زندگی کی مشکلات اور پریشانیاں کیا ہوتی ہیں یہ ان بچوں کو بہت دیر میں پتہ چلتا ہے جن کے باپ زندہ ہوتے ہیں۔ " ماں " ہر وقت اولاد کے ساتھ ساتھ ہوتی ہے اس لئے اس کی خدمات اور قربانیوں کو زیادہ توجہ ملتی ہے لیکن باپ چونکہ روزگار کے سلسلے میں زیادہ تر گھر سے باہر رہتا ہے اس لئے بچے اس سے اتنے قریب نہیں ہوتے جتنا ماں سے ہوتے ہیں بلکہ کبھی کبھی تو اولاد شاکی بھی ہوتی ہے کہ " ابو تو ہر وقت باہر ہی رہتے ہیں بس سونے کے لئے گھر آتے ہیں " یا " ابو ہمیں وقت نہیں دیتے، ہم سے زیادہ باتیں نہیں کرتے ، زیادہ تر خاموش رہتے ہیں یا پھر غصہ کرتے رہتے ہیں۔"
پیارے بچو! شاید آپ میں سے بھی کچھ بچوں کو اپنے والد سے یہی شکوے ہوںگے لیکن جب آپ لوگ بڑے ہو ں گے تو آپ کو سمجھ میں آجائے گا کہ یہ جو آپ کے "بابا " دیر سے گھر آرہے ہیں تو صرف اور صرف اس وجہ سے کہ وہ زیادہ سے زیادہ محنت کرکے اپنے بچوں کو زندگی کی تمام ضروریات فراہم کرسکیں ۔ آپ کو نہیں پتہ کہ انہیں کتنی محنت کرنی پڑتی ہے تب جاکر آپ کے اسکول و کالج کی فیسیں ادا ہوتی ہیں ، وہ اپنے دفاتر میں یا کام کی جگہوں پر اپنے افسروں کی کتنی کڑوی کسیلی باتیں برداشت کرکے کام کر رہے ہوتے ہیں تب جاکر آپ اپنی پسند کے مزے مزے کے پزا اور برگر کھا رہے ہوتے ہیں، کبھی کبھی تو ایسا وقت بھی آجاتا ہے کہ انہیں اپنی عزت نفس داؤ پر لگا نی پڑتی ہے تب جا کر آپ کہیں سیرو تفریح کر رہے ہوتے ہیں ۔ کبھی کبھی جب آپ کو لگتا ہے کہ " بابا " بہت غصہ کررہے ہیں تو آپ کو نہیں معلوم کہ اس وقت آپ کے بابا کے دماغ میں کتنے مسائل ایسے گھوم رہے ہوتے ہیں جنہیں حل کرنے والے صرف اور صرف آپ کے والد ہوتے ہیں ۔
وہ ہر پریشانی ، ہر ضرورت ، ہر مسئلہ آپ تک پہنچنے سے پہلے خود حل کر لینا چاہتے ہیں تاکہ ان کے بچوں کو کوئی تکلیف نہ پہنچے ۔ " باپ " " باپ " ہوتا ہے ذرا اپنے آس پاس نگاہ دوڑائیں تو آپ کو کتنے " باپ " نظر آئیں گے وہ چاہے آفیسر ہوں یا مزدور، اے سی آفس میں کام کرنے والے ہوں یا سڑک کوٹنے والے، پھل فروش ہوںیا ڈرائیور ، جمعدار ہوں یا تھانیدار، سب باپ ایک جیسے ہوتے ہیں جو اپنی اولاد کی محبت دلوں میں لیے صبح گھر سے نکلتے ہیں اور سب کا مقصد حیات صرف یہ ہوتا ہے کہ اپنے بچوں کی ضروریات زندگی پوری کرنے کے ساتھ ساتھ انہیں جو آسائشیں بھی فراہم کرسکتے ہیں وہ کس طرح دیں۔
ہر باپ دن ڈھلے کام سے گھر واپس جاتے وقت بھی اپنے بچوں کو ہی دل میں بسائے گھر واپس لوٹ رہا ہوتا ہے، تب ہی تو ہر باپ اپنی اپنی بساط کے مطابق دکانوں سے ان کے لئے کچھ نہ کچھ خرید رہا ہوتا ہے ۔ کیا آپ نے نوٹ کیا ہے کہ ہر عید پر یا کسی تقریب کے موقع پر آپ کے والد یہ کیوں کہہ رہے ہوتے ہیں کہ " میرے پاس بہت کپڑے ہیں، میں نئے کپڑے نہیں بناؤں گا "۔ وہ یہ اس لئے کہہ رہے ہوتے ہیں تاکہ آپ اور آپ کی امی اچھے اچھے کپڑے پہن سکیں۔ آپ کو نہیں پتہ کہ آپ کے حلق سے نیچے اترنے والے لقموں کے پیچھے آپ کے والد کی کتنے گھنٹوں کی محنت شامل ہوتی ہے ۔
ایک ننھے منے وجود سے لے کر بڑے ہونے تک آپ کے والد نے آپ کے لئے کیا کچھ نہیں کیا ہوتا ۔ سو پیارے بچو! جب بھی زندگی کی سہولیات سے فائدہ اٹھاؤ ،اسکول کی فیس یا ٹیوشن کی فیس ادا کرو، نئے کپڑے ، جوتے ، کھلونے، گیم ،ٹیبلٹ یا کچھ اور خریدو، کہیں گھومنے پھرنے جاؤ ، مزے مزے کے کھانے کھاؤ ،تب اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرنے کے بعد اپنے والد کا بھی خصوصی شکریہ ادا کرو، اس کے لیے الفاظ کی ضرورت نہیں ہوگی بلکہ اپنے فرماں بردار رویے سے ، اپنی محبت واطاعت سے ان کے شکر گزار بنیں۔ فادرز ڈے چاہے مناؤ یا نہ مناؤ لیکن اپنے والد کی قدر کرو ۔کہتے ہیں کہ، ایک باپ سو اسکول ٹیچرز سے بہتر سبق دے سکتا ہے ۔
ماں کے قدموں تلے جنت ہے تو باپ کو جنت کا دروازہ کہا گیا ہے اگر آپ کے پاس یہ دروازہ موجود ہے تو آپ بہت خوش قسمت ہیں۔ ان کی قدر کریں ان کی دعائیں لیں ان سے پیار کریں انہیں وقت دیں۔ ابھی آپ بچے ہیں ، ابھی آپ کے والدین طاقتور اور صحت مند ہوںگے۔ ابھی انہیں آپ کے سہارے کی ضرورت نہیں ہوگی ۔ لیکن بس آج عہد کرلیں کہ اپنے والد کی قربانیوں کی قدر کریں گے ۔ ابھی ان کے لئے اس سے بڑی خوشی کچھ اور نہیں ہوگی کہ آپ لوگ ان کا کہنا مانیں ، وہ خواب جو آپ لوگوں کے مستقبل کے حوالے سے وہ دیکھ رہے ہیں انہیں قابل تعبیر بنانے کی پوری پوری کوشش کریں ،اس کے لئے پڑھائی میں دل لگائیں۔
ایک فرماں بردار بیٹا یا بیٹی بننے کی پوری پوری کوشش کریں ،اگر والد کبھی غصہ بھی کریں تو خاموش ہو جائیں اور ہاں،ایک بات اور کہ اگر آپ کے دادا اور نانا ہیں تو فادرز ڈے ان کا بھی ہے، اس لئے ان کو بھی اس دن خاص طور پر یاد رکھیں آپ لوگوں سے وہ بھی اتنا ہی پیار کرتے ہیں جتنا کہ آپ کے والدین کرتے ہیں۔ ذرا سوچئے کہ اگر آپ کچھ دیر ان کے ساتھ بیٹھ کر ان کے ماضی کے دو چار قصے سن لیں گے تو انہیں کتنی خوشی ہوگی۔
ان کی پسند کے ان ڈور گیمز مثلاً شطرنج، کیرم، لوڈو یا کارڈز بھی کھیلے جاسکتے ہیں۔ آپ انہیں موبائل میں کوئی ایسی چیز جس میں انہیں بہت دلچسپی ہو، دکھا سکتے ہیں بزرگوں کے ساتھ وقت گزارنے سے آپ کو دعائیں ہی دعائیں ملیں گی آخر وہ آپ کے ماں باپ کے " باپ " ہیں انہیں آپ کے والد کے ساتھ ساتھ آپ کی محبت و ہمدردی کی بھی ضرورت ہے ۔
پیارے بچو! ہر سال مدرز ڈے اور فادرز ڈے پر یہ خیال ضرور آتا ہے کہ یہ دن ان بچوں کے لیے کتنا مشکل ہوتا ہوگا جن کے پاس یہ رشتے نہیں ہوتے ۔یتیمی ساتھ لاتی ہے زمانے بھر کے دکھ جھیلتے ہیں۔ باپ زندہ ہو تو کانٹے بھی نہیں چبھتے،کچھ سال پہلے تک ہمارے ملک میں ان دنوں کے منانے کا رواج نہیں تھا لیکن اب سوشل میڈیا کے دور میں جب ماں باپ کے دنوں پر تصاویر اور پوسٹ کے ذریعے یہ دن خصوصی طور پر منائے جاتے ہیں تو لازمی بات ہے کہ جو بچے ان رشتوں سے محروم ہیں وہ زیادہ اداس ہوجاتے ہیں ۔
فادرز ڈے پر بھی ان بچوں کو اپنے والد کی کمی شدت سے محسوس ہوگی جو انہیں رضائے الٰہی سے کھو بیٹھے ہیں تو پیارے بچو! دنیا آزمائش کی جگہ ہے، یہاں سب کو سب کچھ نہیں ملتا ۔اللہ تعالیٰ مختلف لوگوں کو مختلف آزمائشوں سے گزارتا ہے اور ہمیں اس میں ہمت سے رہنا پڑتا ہے۔ مثالیں تو بہت ہیں لیکن ہمارے پاس اپنے آقا رسولِ خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مثال ہے ،جن کے والد ان کی پیدائش سے پہلے ہی وفات پا گئے تھے۔
اس کے باوجود انہوں نے ہمت و حوصلے سے اپنی زندگی ایسے گزاری کہ رہتی دنیا تک کے لیے مثال بن گئے ۔اپنے پاس موجود نعمتوں پر اللہ کا شکر ادا کرنے کے ساتھ ساتھ اس دن اپنے والد کی مغفرت کے لئے خصوصی دعائیں کریں اپنے ان رشتوں کی قدر کریں جنہوں نے آپ کے والد کے بعد آپ کو سہارا دیا۔ وہ دادا، نانا، چچا،ماموں یا کوئی بھی بزرگ رشتہ ہو سکتا ہے تو بس آپ کا فادرزڈے ان کے لئے مخصوص ہونا چاہئےاللہ تعالیٰ آپ سب کو قدم قدم پر آسانیاں عطا فرمائے اور اس قابل کرے کہ آپ آئندہ زندگی میں ایک بہترین انسان بن سکیں۔ یہ بات سمجھ لیں کہ
؎ ان کے ہونے سے بخت ہوتے ہیں
باپ گھر کے درخت ہوتے ہیں۔