محمد دانش شاہد
ایک روز میں دفتر جانے کے لیے گھر سے نکلا ، جب گلی کے کونے پر پہنچا تو عجیب تماشا دیکھا ۔ ایک ماں اپنے بیٹے کوزدوکوب کررہی تھی ۔بچے کی عمر بہ مشکل دس سال تھی اور وہ ماں کے تھپڑوں کی وجہ سے رو رہا تھا لیکن حیران کن بات یہ کہ ، ماں بھی اسے مارتے ہوئے رو رہی تھی۔ میں نے آگے بڑھ کر پوچھا ، ’’بہن ، بچے کو کیوں مار رہی ہو ،جبکہ مارتے ہوئے خود بھی رو رہی ہو‘‘۔ اس نے جواب دیا کہ’’بھائی ، اس کے والدکا چند ماہ قبل انتقال ہوا ہے۔’’
ہم بہت غریب ہیں، میں لوگوں کے گھروں میں محنت مزدوری کرکے اپنا اور اس کاپیٹ پالنے کے بعد بڑی مشکل سے اس کی پڑھائی کا خرچ اٹھاتی ہوں۔ یہ کم بخت روزانہ دیر سے اسکول جاتا ہے اور شام کو دیر سے گھر واپس آتا ہے۔ اسکول جاتے ہوئے راستے میں کہیں کھیل کود میں لگ جاتا ہے اور پڑھائی کی طرف ذرا بھی توجہ نہیں دیتا۔ صبح صاف ستھرا یونی فار م پہن کر جاتا ہے اور شام کو اسے گندا کرکے واپس آتا ہے۔ میں نے بچے اور اس کی ماں کو سمجھایا اور اپنے دفتر روانہ ہوگیا لیکن اس کے بعد بھی یہ تماشا میں روزانہ ہی دیکھتا۔
ایک روز صبح کے وقت میں سبزی منڈی گیا، اچانک میری نظر اسی بچے پر پڑی جو روزانہ ماں سے مار کھاتا تھا۔ کیا دیکھتا ہوں کہ وہ بچہ منڈی میں پھر رہا ہے اور جو دوکاندار اپنی دوکان کے لیے سبزی خرید کر بوریوں میں ڈالتےتو ان سے کچھ سبزی زمین پر گر جاتی اور وہ بچہ اسے فوراً اٹھا کرایک تھیلے میں ڈال لیتا۔ میں یہ ماجرا دیکھ کر پریشانی میں مبتلا تھا کہ یہ کیا چکر ہے۔ میں اس بچے کی لاعلمی میں اس کی نگرانی کرنے لگا۔ جب اس کا تھیلا سبزی سے بھر گیا تو وہ جیب میں ٹھنسا ایک کپڑا نکال کر زمین پر بچھانے کے بعد اس پر سبزیاں رکھ کر بیٹھ گیا آوازیں لگا کر انہیں بیچنے لگا۔
منہ پر مٹی لگی ہوئی، گندا یونی فارم پہنے اور آنکھوں میں نمی کے ساتھ ایسا سبزی فروش میں پہلی بار دیکھ رہا تھا۔ دیکھتے ہی دیکھتے اچانک وہ دکاندار جس کی دکان کے آگے بچے نے سبزی کا چھوٹا سا پتھارا لگایا ہوا تھا، اٹھا اور بچے کے پاس آکر ایک زور دارلات مار کر اس کی دکان الٹ دی اور بچے کو بھی بازو پکڑ کر اٹھایا اور اسے ایک طرف زور سے دھکا دیا۔ ساری سبزیاں سڑک پر بکھرگئی تھیں۔
بچہ آنکھوں میں آنسوؤں کی نمی لیے سڑک پر سے اپنی سبزی اکٹھا کرنے لگا اور تھوڑی دیر بعد اپنا پتھارا ڈرتے ڈرتے دوسری دکان کے سامنے لگا لیا۔ بھلا ہو اس شخص کا، جس کی دکان کے سامنے اب اس نے اپنی ننھی دکان لگائی تھی، اس نے شاید معصوم بچے کی مجبوری سمجھ لی تھی اس لیے اس نے بچے کو کچھ نہیں کہا۔ جب بچے کی ساری سبزی فروخت ہو گئی تو وہ اپنی دکان سمیٹ کر کھڑا ہوا اور پیدل چلتا ہوا دوسرے بازار میں آکر ایک کپڑے والے کی دکان میں داخل ہوا،میں بھی اس کے پیچھے تھا۔اس نے دکان دار کو کچھ پیسے دیئے اور دکان میں رکھا ہوا اپنا بستہ اٹھایا اور بنا کچھ کہے، اسکول کی جانب چل دیا۔
میں بھی ، اس کےپیچھے چلنے لگا۔ جب وہ پہنچا تو اسکول لگے ہوئے ایک گھنٹہ ہو چکا تھا۔ اسے دیکھ کر کلاس ٹیچر نے اسے پاس بلایا اور ڈنڈے سےمارنا شروع کردیا۔ میں جلدی سے جماعت میں داخل ہوا اور استادسے کہا کہ خدارا اسے نہیں مارو، یتیم بچہ ہے اس پر ترس کھاؤ۔۔میری بات سن کر استاد بولے، محترم ، آپ کیوں اس کی طرف داری کررہے ہیں، یہ بچہ روزانہ ایک گھنٹہ دیر سے اسکول آتا ہے اور مجھ سے مار کھاتاہے، لیکن اتنی مار کھانے کے باوجود بھی یہ اپنی عادت نہیں بدلتا۔ کئی بار میں اس کے گھر بھی شکایت بھجوا چکا ہوں لیکن کوئی فائدہ نہیں ہوا، اس کے ماں باپ بھی نجانے کیسے لاپروا ہیں۔ بچہ مار کھانے کے بعدروتے ہوئے، کلاس میں بیٹھ کر پڑھنے لگا۔ میں نے استاد کا موبائل نمبر لیا اور گھر کی طرف چل دیا۔
حسب معمول بچے نے اسکول سے گھر آکراپنی ماں سے بھی مار کھائی ہو گی۔ یہ سوچ سوچ کرساری رات میرا دماغ چکراتا رہا۔ اگلی صبح نماز ادا کی اور فوراً بچے کے استاد کو فون کیا ، اپنا تعارف کرانے کے بعد ان سے کہا کہ وہ تھوڑا سا وقت نکال کر سبزی منڈی پہنچیں، میں نے جگہ اور مقام کے بارے میں انہیں پوری تفصیل سے سمجھا دیا۔
انہوں نے وہاں پہنچنے کا وعدہ کیا ۔ سورج نکلا اوراسکول لگنے کا وقت ہوگیا۔ بچہ گھر سے نکل کرپہلے بستہ رکھنے کپڑے کی دکان پر گیا، وہاں سے سبزی منڈی پہنچا اور اپنی ننھی دکان جمانے کے لیے سبزی اکٹھا کرکے جگہ تلاش کرنے لگا۔ اس دوران میں اس کے گھرگیا اور اس کی والدہ سے کہا کہ بہن ذرا میرے ساتھ چلو میں تمہیں بتاتا ہوں تمہارا بیٹا کیوں دیر سے اسکول جاتا ہے۔
وہ فوراً میرے ساتھ یہ کہتے ہوئے چل دیں کہ آج اس لڑکے کی میرے ہاتھوں خیر نہیں،چھوڑوں گی نہیں اسے۔منڈی میں لڑکے کا استاد بھی آچکا تھا، میں نے ان دونوں کو خاموشی سے تماشا دیکھنے کو کہا۔ ہم تینوں بچے کی نظروں سے چھپ کر اسے سبزی فروخت کرتا دیکھنے لگے۔ آج بھی اسے کافی لوگوں سے جھڑکیاں ملیں۔ جب ساری سبزی فروخت ہوگئی تو بچہ کپڑے کی دکان کی طرف چل دیا۔اچانک میری نظر اس کی ماں پر پڑی تومیں نے اسے زاروقطار روتے دیکھا جب کہ استاد کی آنکھیں بھی آنسوؤں سے تر تھیں۔اس کی ماں روتے ہوئےگھر چلی گئی اور استاد بھی سسکیاں لیتے ہوئےا سکول چلا گیا۔
حسب معمول بچے نے دکان دار کو پیسے دیے ، جواب میں دکان کے مالک نے بچے کو ایک لیڈیز سوٹ دیتے ہوئے کہا کہ بیٹا آج سوٹ کے سارے پیسے بے باق ہوگئے ہیں اپنا سوٹ لے لو۔ بچے نے سوٹ لےکربستے میں رکھا اورا سکول چلا گیا۔ آج بھی وہ ایک گھنٹہ دیر سے اسکول پہنچا۔ وہ سیدھا استاد کے پاس گیا اور بیگ ڈیسک پر رکھ کر مار کھانے کے لیے ہاتھ آگےبڑھا دیے ۔استاد کرسی سے اٹھا اور فوراً بچے کو گلے لگا کر رونے لگا۔ میں نے آگے بڑھ کر استاد کو چپ کرایا اور بچے سے پوچھا کہ’’ یہ جو بیگ میں سوٹ ہے وہ کس کے لیے ہے‘‘۔ بچے نے جواب دیا ’’ میری ماں امیر لوگوں کے گھروں میں مزدوری کرنے جاتی ہے اور اس کے کپڑے پھٹے ہوئے ہیں، مجھے یہ دیکھ کر بہت شرم آتی ہے۔
میں نے اس کے لیے یہ سوٹ خریداہے تاکہ وہ صاف ستھرا لباس پہن کر کام پر جایا کرے‘‘۔ میں نے پوچھا، ’’یہ سوٹ گھر لے جا کر ماں کو دوگے‘‘؟ بچے نے جو جواب دیا اسے سن کرمیرے ذہن کو جھٹکا سا لگا۔ اس نے کہا، ’’ نہیں جناب، اسکول سے چھٹی کے بعد میں اسے درزی کو سلائی کے لیے دے دوں گا اور روزانہ تھوڑے تھوڑے پیسے جمع کر کے اسے دیا کروں گا، جب سلائی کے پیسے پورے ہوجائیں گے تب میں اس سے سوٹ لے کر اپنی ماں کو پہننے کےلیےدوں گا‘‘۔ میں سوچنے لگا کہ اس معصوم بچے کو ماں کا سوٹ لانے کے لیے نہ جانے کب تک منڈی میں اپنا پتھارہ لگاتے ہوئے لوگوں کی جھڑکیاں اور دھکے کھانے پڑیں گے۔
میں نے اپنی جیب سے کچھ روپے نکال کر اس کے ہاتھ پر رکھنا چاہے لیکن اس نے یہ کہہ کر لینے سے انکار کردیا کہ ، ’’جناب میں بھکاری نہیں ہوں، میں عزت دار ماں کا بیٹا ہوں ،وہ مجھے محنت مشقت کرکے حلال روٹی کھلا کر پال رہی ہے، میں بھی اسی کے نقش قدم پر چلتے ہوئے اس کا سہارا بننا چاہتا ہوں‘‘۔ میں نے اور اس کے استاد نے بہت کوشش کی کہ وہ ہم دونوں سے پیسے لے کر اپنی ماں کے لیے سوٹ سلوا لے لیکن اس کی خودداری نے گوارہ نہیں کیا۔,وہ اب بھی فجر کے وقت گھر سے نکل کر سبزی منڈی جاتا ہے، سبزی کا پتھارہ لگانے کے لیے لوگوں کی جھڑکیاں اور مار کھاتا ہے ، جب کہیں جاکر چند روپے کماتا ہے۔ اتنے مصائب و پریشانیوں کے باوجود اس کی خودداری اسےدوسروں کی مددلینے سے روکتی ہے۔