• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
احکامات کیا ہیں”جس نے ایک انسان کو قتل کیا اس نے پوری انسانیت کو قتل کیا“۔” جس نے کسی مومن کی جان بوجھ کر جان لی اس کا ٹھکانہ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے جہنم ہے “۔کیا آج یومِ حساب آپہنچا ہے؟کیا آج بھرنے کا وقت ہے؟ کیا قدرت انتقام لینے کو ہے؟ تھوڑا صبر، تھوڑا انتظار۔ جناب مجیب الرحمن شامی کا قولِ صادق ایک گو نہ انتقام اور غصہ کی آگ کو کم کرتا ہے کہ” پاکستان کو جن جن لوگوں نے دانستہ نقصان پہنچایا۔ وہ ہمیشہ قدرت کے انتقام کا شکار ہوئے“۔
بدقسمتی آج ملت ِ اسلامیہ کی قیادت اور نمائندگی جن افراد کے ہاتھوں میں ہے۔ انہیں سیاستدان لکھتے ہوئے شرم آتی ہے۔ سیاست تو ماسٹر آف سائنسزٹھہری اور اس پر عبورحاصل کرنے والے معاشرتی چمپئن۔ جبکہ آج کے قائدین میں دیانت ، امانت، سچائی اورکردارکی کوڑی تلاش کرنا جوئے شیر لانا ہی تو ہے۔دانشور امریکی صدر ابراہم لنکن کا قول ہے کہ ”بہت سے لوگوں کو بہت سارے وقت کے لیے بے وقوف نہیں بنایا جا سکتا“ ارضِ پاک کا منظر نامہ ابراہم لنکن کے قول کی مکمل نفی کرتاہے۔ رہنماؤں، رہبروں اور ، مسیحاؤں نے دہائیوں سے عوام الناس کوایک عرصے سے بے وقوف بنا رکھا ہے۔دوسری طرف عوام الناس نے ایسی سپردگی کو مسلک اور قائدین کی تقلید کو عبادت کا درجہ دے رکھا ہے ۔ابھی تین دن پہلے براہ راست قومی میڈیا پر ہزاروں ورکرز الطاف بھائی پر ٹوٹنے والی نئی آفت پر ٹوٹ ٹوٹ کر روتے ہوئے کیا کہہ گئے ”کہ آپ کی قیادت ہمارے ایمان کا حصہ ہے“ ۔الطاف صاحب ایک سانس میں فرما رہے تھے کہ” میں برطانوی عدالتی نظام پر اعتماد کرتا ہوں “اور دوسرے سانس میں تنبیہ کر رہے تھے کہ” میرا پیچھا چھوڑ دو“۔کیا ڈاکٹر عمران فاروق کا سفاکانہ قتل جو اب تک ایک معمہ بنا ہوا ہے ، اللہ بہتر جانتا ہے یا شایدسکارٹ لینڈ یارڈ کی تفتیش بتا پائے گی کہ ”قاتل کون؟“
ایم کیو ایم ہماری ملکی تاریخ کا ایک خیرہ کن نادرہ کار اور غیر معمولی سیاسی واقعہ ہے۔ جو اردو بولنے والے طبقے کی فکرمیں بنیادی اور انقلابی تبدیلی (Paradigm Shift) لائی۔ہر پاکستانی ایم کیو ایم کے غیر معمولی طلوع اور نصف النہار پہنچنے کے اچھے برے عمل پر رطب اللسان رہا۔ ایم کیو ایم اردو بولنے والوں کا ایک جائز ردعمل ٹھہرا۔میں اس عمومی رائے سے بھی متفق ہوں کہ بڑے شہروں خصوصاََ کراچی اورحیدرآباد میں اردو بولنے والے مہاجرین جو مین سٹریم پالیٹکس اور مذہبی جماعتوں کا جزولاینفک سمجھے جاتے تھے ایک عرصے سے طعن و تشنیع کی زد میں تھے۔ ملک کے طول و عرض میں جب قوم ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوئی تو قومیتی عصبیتیں عفریت بن کر سامنے آئیں ۔ اسلام کے نام پر وجود میں آنے والی مملکت اپنی قومی شناخت کھو بیٹھی۔جبکہ قومیت ، لسانیت ، علاقائیت وجہ افتخاروامتیاز ٹھہری۔ ایسے موڑ پر ہندوستان سے آئے اردو بولنے والے شناخت سے یکسر محروم نظر آئے ۔جناب الطاف حسین کو اس بات کا کریڈٹ کہ اس نے بکھری اردو اسپیکنگ برادری کو جگایا۔ ایک لڑی میں پرویا اور عدمِ تحفظ کی شکار اس برادری کو اپنی آغوش ِ عافیت میں لیا۔
اردو بولنے والے مہاجرین کی کثیر تعدادنے بہتر روز گار اور رشتوں کی تلاش میں دوسری نقل مکانی کی اورشہر کراچی کو اپنی آخری جائے پناہ جانا ۔ دیہی علاقوں کی ترقی کے لیے ملازمتوں اور پروفیشنل کالجز و اسکولوں میں داخلے کے لیے دیہی کوٹہ مخصوص تھا۔ دیہی علاقوں کے نام پر کوٹہ سسٹم شہری آبادی میں احساس ِ محرومی اور وجہ نزاع پیدا کر گیا۔
تقسیم ہند سے پہلے ہندو آبادی کی کثیر تعداد شہروں میں براجمان تھی جب کہ دیہات، گاؤں ، قصبے اور چھوٹے شہرمسلمانوں کی آماجگاہ تھے۔جب مہاجرین نوزائیدہ مملکت میں داخل ہوئے تو مقامی لوگوں نے دیدہ دل فرشِ راہ کر دئیے ۔ اپنی مد د آپ کے تحت رضاکار تنظیمیں تشکیل پا گئیں ۔میرے اپنے والد صاحب اور دوسرے رشتہ داروں نے مل جل کر مہاجرین کو آباد کرنے میں تن من دھن لگا دیا۔ میانوالی میں شیعہ مکتب ِ فکر نہ تھا چنانچہ شیعہ مکتب فکر کے مہاجرین کے لیے مسجد اور امام بارگاہ تعمیر ہوئی ۔ اردو بولنے والے مہاجرین بھی تعلیم، تمدن، تہذیب ساتھ لائے ۔ مقامی لوگوں میں اپنی اقدارفراخدلی سے بانٹیں۔ میرے والد صاحب جو میانوالی میں رہتے ہوئے اپنے بچوں کو مقامی ماحول سے دور رکھنے کے قائل تھے مہاجرین کو نعمت جانا اور ہمیں ان کے گھروں میں کثرت سے جانے اور میل جول رکھنے کا پابند بنایا ۔ اردو سپیکنگ خصوصاََ یوپی سے آئے لو گ بھی اپنی فکر، تہذیب، تمدن اور شرافت میں ایک مثال تھے۔کیا آج بھی کراچی تہذیب وتمدن کا گہوارہ ہے؟کس نے اس فکر، تہذیب اور شرافت کو ضعف پہنچایا ؟ 80 کی دہائی میں مہاجر نے ووٹ ، عقیدہ، پیسہ ، فکر ، ہنر، تعلیم سب کچھ ایم کیو ایم کی نذر کر دیاجواباََ مہاجر کو عظیم قوم بنانے کا عزم وعہدکیا گیا۔ پھرکراچی پچھلے 25 سال سے آگ سے کیوں جھلس رہا ہے؟ آئے دن ٹارگٹ کلنگ میں 70 فیصد اردو سپیکنگ ہی کیوں؟اردو بولنے والے نابغہ روزگار ہی کیوں قتل ہوئے ؟ ایم کیو ایم کوخود اپنے بے شمار قائدین سے محروم ہونا پڑا۔ ان گنت جانثار بوری بند لاشوں میں پائے گئے۔ قانون نافذ کرنے والے بے شمار سپوت شہید ہوئے ۔ لوگ سوال کرتے ہیں کہ یہ سب کچھ اردو سپیکنگ والوں کی جماعت ایم کیو ایم بنے کے بعد ہوا۔جماعت اسلامی، پیپلزپارٹی اور ایم کیو ایم کی دوسری مخالف جماعتوں کے اردو بولنے والے زعماء کی ٹارگٹ کلنگ کسی شمار میں نہیں ۔نجانے کتنی نادر صورتیں خاک میں پنہاں ہوگئیں۔
الطاف بھائی کی نشتر پارک والی ”المشہور“ تقریر جس میں انہوں نے جلسہ کے شرکاء کو مخاطب کرتے ہوئے کہا ”کہ وی سی آر، ٹی وی، ہار سنگھار بیچو اور آتشیں اسلحہ خریدو“۔یہ وہ اعلامیہ تھا جس نے کلچر اور فکر کو تبدیل کرنا ہی تھا۔ چنانچہ صاحبِ بصیرت اور صاحب علم و دانش کو پچھلی نشستوں پر اورعقل و دانش سے مبراء جذباتی نوجوان قیادت کے منصب پر فائز ہوگئے۔ کراچی کی سیاست بدل گئی ۔
جناب الطاف حسین نے کئی موقعوں پر پاکستان ، بانیان اوراسلامی عقائد کے بارے میں سخت الفاظ استعمال کیے ۔ ان کا سیاسی رول جو اردو بولنے والوں کو ایک لڑی میں پرو کر وطن ِ عزیز میں روایات کی تاریخ رقم کر سکتا تھا بدقسمتی کہ لسانی اور قومیتی عصبیت کو ہوا دینے اور اقدار کا جنازہ اٹھانے کے سوا کچھ نہ کر پایا۔
دیکھا دیکھی دیگر سیاسی اور دینی جماعتوں نے بھی اپنے اسلحہ کے ماڈل تبدیل کر لیے ۔ کراچی میں 3 دہائیوں سے ہونے والی ماردھاڑ ، بھتہ خوری، قتل و غارت، ٹارگٹ کلنگ ، آگ اور خون کی ہولی میں ایم کیو ایم کا نام جلی سرخیوں کے ساتھ لیا جانا اس لیے تکلیف دہ کہ یہ مہذب اور تعلیم یافتہ قومیت کی ترجمان بن چکی تھی۔عدالتِ عالیہ نے بھی تو یہی کہا ہے کہ ” کراچی میں ہر قسم کے جرائم کی پشت پر سیاسی جماعتیں کارفرما ہیں“۔کراچی کا ہر شہری اس پر متفق بھی اور متفکر بھی کہ جرائم پیشہ افراد کامسکن سیاسی جماعتوں کاپچھواڑہ ہے“۔لسانی اور مذہبی تقسیم دائمی ہو چکی، شہر اسلحہ ، بارود کا گھر اور گڑھ بن چکا ہے۔ ڈرگ ، اسلحہ اور بھتہ مافیا کے فٹ پرنٹس سیاسی جماعتوں کے دفتروں تک جاتے ہیں۔ شہری آتش فشاں کے دھانے پر کسی بھی وقت لاوہ ابلنے کے انتظار میں دائمی خوف کی گرفت میں۔ سارے قومی اور صوبائی ادارے جرائم پیشہ افرادکی مصرف گاہ بن چکے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ بگاڑ کی تو درجنوں صورتیں نظر آتی ہیں جبکہ بناؤ کی کوئی شکل دکھائی نہیں دیتی۔جناب الطاف حسین نے مہاجروں کی خدمت کے عزم کے ساتھ سیاست میں قدم رکھا شناخت دلائی ایک قبیلہ میں ڈھال کر لڑی میں پرو دیا بجائے قبیلے کی بڑائی کو مزیدچار چاند لگاتے اقدار کو گہن لگانے کا سبب ثابت ہوئے ۔
آج کراچی کے قائدین کے مال و اسباب کے تخمینے لگا ئیں مڈل کلاس قیادت ارب پتی بن چکی ۔بحث ابھی بھی جاری کہ مہاجر قومیت غیر محفوظ یا محفوظ، دونوں اطراف دلائل کا ابنوہ ۔ اردو بولنے والوں نے تو الطاف بھائی پر بہت کچھ نچھاور کیا۔یاد کرو وہ وقت جب ہر ذی شعور دانشمند، شاعر، نثر نگار، صنعت کار، مزدور،امیر غریب جوق در جوق الطاف بھائی پر فریضتہ تھے واری تھے دیوانے تھے پروانے تھے۔ شخصیت کو مافوق الفطرت قرار دے چکے تھے ۔ چاند ستاروں ،پتوں بُوٹوں پر انکی شبیہ ڈھونڈ چکے تھے۔ نوجوان سمیت والدین ” قافلہ جیومہاجر“ کا حصہ بن چکے تھے ۔ اس وارفتگی کا صلہ کیا ملا ؟سیانے کہہ گئے ہیں کہ نوجوان ہی قوم و نسل کا مستقبل اوراچھی بری تربیت اچھے بر ے مستقبل کی ضامن۔کیا آج الطاف حسین اپنی قوم کو اطمینان دلا سکتے ہیں کہ 80/90 کی دہائی میں جو پود تیار کرکے دی ہے وہ آباء و اجداد کی اقدار سے لگا کھاتی ہے؟ اردو بولنے والوں کی ٹارگٹ کلنگ ایک لامتناہی سلسلہ بن چکا؟ روشنیوں کا شہر اجڑ چکا۔ پاکستان کا دبئی بن کھلے مرجھا گیا۔ مانا کہ برطانوی تفتیشی ادارے غیر ضروری طور پر آپ کو ملوث کر رہے ہیں۔اس سے اچھا کیا موقع ہے کہ پچھلے دو سالوں سے بنا معمہ اپنے منطقی انجام کو پہنچے اور آپ کا دامن صاف نظر آئے۔ اگر معاملہ ابنِ صفی کی جاسوسی داستان کی طرح کہ ایک جرم کی تفتیش میں درجنوں جرائم آشکار ہونے کو ہیں تو یہ” قومیتی “نہیں بلکہ قومی بدنصیبی ہوگی۔
کیا ڈاکٹر عمران فاروق کا خون رنگ لائے گا؟ قومی یک رنگی تو شاید واپس نہ آپائے البتہ وطن عزیز کے پھیکے رنگوں میں کچھ بہتری ضرورآجائے گی۔شایدقوم کو تہذیب وتمدن کے روشن مینار ہی واپس مل جائیں۔
تازہ ترین