’’تیری یاد‘‘ (1948ء) سے لے کر دسمبر 2019ء کی ریلیز فلم ’’سچ‘‘ تک میں موسیقی، فلموں کا لازمی جزو رہی ہے۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق پاکستان میں مختلف زبانوں کی پانچ ہزار فلمیں سلور اسکرینز کی زینت بن چکی ہیں اور ان میں اکثریت کام یاب فلموں کی رہی ہے،جن میں موسیقی کا کردار کلیدی رہا ہے۔ ان گنت فلمیں ایسی ہیں ، جو موسیقی کی وجہ سے پسند کی گئیں۔ برصغیر پاک و ہند کی فیچر فلموں میں موسیقی کی اہمیت ابتدا ہی سے رہی ہے۔ نغمات سولو، دوگانوں اور کورس میں ریکارڈ کیے جاتے رہے۔
ان نغمات میں جہاں طربیہ و شوخ و چنچل نغمات سماعتوں کو آسودہ کرتے رہے، وہاں حزن و ملال کی کیفیت میں ڈوبے نغمات کسی سے پیچھے نہیں رہے۔ سولو المیہ نغمات کے ساتھ ساتھ ہماری فلموں میں المیہ دوگانوں کو بھی پسند کیا گیا۔ فلموں کی کہانی، منظرنامے اور سچویشنز کے ضمن میں ہیرو یا ہیروئن یا دیگر فن کاروں پر المیہ نغمات کی پکچرائزیشن اس طرح سے ہوتی کہ ہیرو کہیں کھڑا گا رہا ہے اور ہیروئن کہیں اور بیٹھی یا کھڑی وہی دوگانا گا رہی ہوتی ہے۔ المیہ دوگانے ہمیں ابتدائی اردو فلموں ’’امانت‘‘ ’’بے قرار‘‘ ’’ہماری بستی‘‘ ’’سیلاب‘‘ ’’غلام‘‘ ’’محبوب‘‘ ’’سوہنی‘‘ اور طوفان‘‘ وغیرہ میں سنائی دیے۔ 1955ء کی عیدالفطر پر ریلیز گولڈن جوبلی فلم ’’نوکر‘‘ میں شامل یہ المیہ دوگانا پہلا ایسا المیہ دوگانا ثابت ہوا، جو مقبول ہوا۔ ’’تقدیر کے مالک دیکھ ذرا، کیا ظلم یہ دُنیا کرتی ہے‘‘، اسے قتیل شفائی نے لکھا اور بابا چشتی نے اسے کمپوز کیا۔
آوازیں کوثر پروین اور سلیم رضا کی تھیں۔ شمیم آراء کی اولین فلم ’’کنواری بیوہ‘‘ (1956ء) ہوئی ، جس میں مہدی حسن اور کوثر پروین نے موسیقار قادر فریدی کی بنائی ہوئی دُھن پر طفیل ہوشیار پوری کا لکھا المیہ دوگانا’’کوئی صورت نہیں اے دل کہ غم کی رات ڈھل جائے‘‘۔ 1956ء کی عیدالفطر پر ریلیز کام یاب نغماتی، رومانوی فلم ’’وعدہ‘‘ میں موسیقار رشید عطرے نے شرافت علی اور کوثر پروین سے بالترتیب سیف الدین سیف اور طفیل ہوشیار پوری کے لکھے یہ دو المیہ دوگانے کلاسیک انداز میں گوائے۔ ’’باربار برسیں مورے نین مورے نیناں، موہے کیسے ملے چین اور ’’لے چل اب منجدھار میں اے دل لے چل‘‘ ڈائریکٹر ایم۔اے رشید کی سیمی آرٹ فلم ’’آس پاس‘‘ (1967ء) میں ریلیز ہوئی۔ اس میں یہ غمگین دوگانا شاعر ساحل فارانی ، موسیقار اختر حسین ایکھیاں نے زبیدہ خانم اور سلیم رضا پر نہایت دلسوزی کے ساتھ گوایا۔’’محبت ہوئی ہے ستم کا نشانہ، رہا دونوں کا ادھورا فسانہ‘‘ فلم ’’بے گناہ‘‘ (1958ء) کی ریلیز تھی، جس میں جہاں موسیقار میاں شہرباد خان نے نسیم بیگم سے ’’نینوں میں جل بھر آئے‘‘ گوا کر متعارف کروایا، وہاں انہوں نے اسی فلم میں سیف چغتائی اور زبیدہ خانم سے شاعر سید عاشور کاظمی کا یہ المیہ دوگانا اثرانگیزی سے گوایا۔ ’’ہر تمنا ہر خوشی برباد ہے، زندگی شرمندہ ہے فریاد ہے‘‘ 12؍اپریل 1957ء کو ہدایت کار منشی دل کی نغماتی رومانوی فلم ’’عشق لیلیٰ‘‘ ریلیز ہوئی۔ موسیقار صفدر حسین نے قتیل شفائی کے لکھے، اس المیہ دوگانے کو زبیدہ خانم اور سلیم رضا سے عمدگی سے گوایا۔ ’’بتا رے آسماں والے میرے نالوں پر کیا گزری، چمن والوں پر کیا گزری‘‘۔
ہدایت کار ضیاء سرحدی کی فلم ’’راہ گزر‘‘ (1960ء) میں موسیقار مصلح الدین نے تنویر نقوی کے لکھے اس غمگین دوگانے کو زبیدہ خانم اور سلیم رضا سے گوایا۔ ’’تیرے جہاں میں ہمیں کیا ملا، دل پریشاں غم تمنا‘‘ معروف فلم ساز و ہدایت کار ایس۔ایم یوسف کی پاکستان میں پہلی فلم ’’سہیلی‘‘ (1960ء) کا یہ مشہور زمانہ المیہ دوگانا بے حد پسند کیا گیا۔ فیاض ہاشمی نے اسے لکھا، اے حمید نے اس کی دُھن بنائی اور اسے سلیم رضا اور نسیم بیگم نے گایا۔ ’’کہیں دو دل جو مل جاتے، بگڑتا کیا زمانے کا، خبر کیا تھی کہ یہ انجام ہوگا دل لگانے کا‘‘ فلم ساز و ہدایت کار و نغمہ نگار نخشب کی فلم ’’فانوس‘‘ (1963ء) نے ناہید نیازی اور سلیم رضا کا گایا یہ المیہ دوگانا اس زمانے میں ریڈیو کے فرمائشی پروگرامز میں خوب بجا کرتا تھا۔
اس دوگانے کی طرز رشید عطرے نے بنائی۔ ’’آجا دل گھبرائے، چین نہ آئے، آجا دل گھبرائے‘‘ فلم ساز و ہدایت کار اور نغمہ نگار شباب کیرانوی کی کام یاب معاشرتی فلم ’’ماں کے آنسو‘‘ میں موسیقار منظور اشرف نے آئرن پروین اور خادم حسین سے یہ پراثر المیہ دوگانا گوایا۔ ’’اتنے بڑے جہاں میں کوئی نہیں ہمارا، دنیا کی ٹھوکروں میں پھرتے ہیں بے سہارا‘‘۔
مذکورہ بالا المیہ دوگانوں سمیت متعدد اردو فلموں میں مقبول دوگانے شامل کیے گئے، جن میں بعض المیہ دوگانے جو بے حد پسند کیے گئے، ان میں یہ بھی شامل ہیں۔
٭’’جب رات ڈھلی تم یاد آئے، ہم دور نکل آئے اس یاد کے سائے سائے‘‘ (کنیز)۔٭’’اک اور بات مانی اک اور زخم کھایا، پھر ہم نے اپنے ہاتھوں دل کا دیا جلایا‘‘ (بدنام)۔٭’’دے گا نہ کوئی سہارا ان بے درد فضائوں میں، سو جانم کی چھائوں میں‘‘ (کون کسی کا)۔ ٭’’اے میری زندگی اے میرے ہمسفر، دل کو تجھ سے بچھڑنا کا غم ہے مگر‘‘ (احسان)۔ ٭’’نہ آئے آج بھی تم کیا یہ بے رخی کم ہے، دیے خوشی کے جلے پھر بھی روشنی کم ہے‘‘ (دیور بھابھی)۔ ٭’’ساتھی کہاں ہو آواز تو دو پل پل میرا پیار پکارے، پیار پکارے‘‘ (لاکھوں میں ایک)۔ ٭’’میں اک بھولا ہوا نغمہ ہُوں آہوں میں ڈوبی ہوئی صدا ہوں‘‘ (اشارہ)۔ ٭’’تجھے پیار کی قسم ہے میرا پیار بن کے آجا، میری بے قراریوں کا تو قرار بن کے آجا‘‘ (چاند اور چاندنی)۔ ٭’’روٹھ گئی کیوں مجھ سے تیری پائل کی چھنکار، بتا کیا یہی ہے تیرا پیار‘‘ (دل میرا دھڑکن تیری)۔ ٭’’آپ کو بھول جائیں ہم اتنے بے وفا نہیں‘‘ (تم ملے پیار ملا)۔ ٭’’محبت کا ترانہ مجھ سے گایا جا نہیں سکتا‘‘ (دل بیتاب)۔٭’’اے غم جہاں ناچ ، خلق بے زباں ناچ‘‘ (زرقا)۔ ٭’’آ پروانے آ، ہونٹوں پہ دم توڑ رہے ہیں، یہ گیت آ‘‘ (شمع اور پروانہ)۔ ٭’’میرا پیار بھرا سنسار لُٹا، منزل پہ ساتھی چھوٹ گیا‘‘ (میری محبت تیرے ۔ ٭’’وفا کا وعدہ ہے کسی نے توڑا، قصور تیرا ہے یا کہ میرا‘‘ (جواب دو)۔ ٭’’ساون آئے ساون جائے، تجھ کو پکارے گیت ہمارے‘‘ (چاہت)۔ ٭’’جانے کیوں انتظار کرتے ہیں، شمع کے ساتھ ساتھ جلتے ہیں‘‘ (طلاق)۔ ٭’’دل بھول گیا لیکن اشکوں کو یہ سمجھانا ہے‘‘ (دو دل)۔ ٭’’یہ رات یہ تنہائی پھر دل نے دی آواز تمہیں‘‘ (آب حیات)۔