• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

وقت کے بدلتے تقاضوں کے ساتھ مختلف امور میں پاکستان کے کلیدی کردار کو خاصی اہمیت دی جا رہی ہے جس کا وہ حقدار بھی ہے۔ ایک وجہ یہ بھی ہے کہ ماضی میں کسی پاکستانی رہنما کے اندر یہ حوصلہ اور ہمت نہ تھی کہ وہ عالمی برادری کے سامنے پاکستان کے موقف کو ٹھوس اور واضح طورپر بیان کر سکے لیکن اب نہ صرف عملی طورپر ایسا کرکے دکھایا جا رہا ہے بلکہ یہ پاکستان کی پالیسی کا لازمی جزو بھی بنا دیا گیا ہے۔

ملک کے وجود میں آنے پر ہمارے سیاسی اکابرین نے مغرب کے ساتھ تعلقات استوار کرنے کا فیصلہ کیا جس کے بدلے میں پاکستان کو اپنے دیرینہ علاقائی مفادات کے تناظر میں بھاری قیمت چکانا پڑی۔پاکستان کو امریکہ کی قیادت میں مختلف دفاعی معاہدوں کا حصہ بننے کے باعث شروع ہی سے مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ پھر افغانستان کی جنگوں میں شرکت کی وجہ سے مزید نقصانات اٹھانا پڑے لیکن امریکہ کبھی پاکستان کے کردار سے خوش نہ ہو سکا اور شروع سے آج تک مختلف محاذوں پر ’’ڈو مور‘‘ کے مطالبے کرتا چلا آ رہا ہے۔ امریکہ کے اس رویے کی وجہ سے ایک تاثر یہ ابھرا کہ پاکستان خواہ کچھ بھی کرے امریکی قیادت خوش نہیں ہو گی اور مزید کچھ کرنے کے مطالبات کے زمرے میں پاکستان کے مفادات اور مقاصد کو نقصان پہنچتا رہے گا۔

پاکستان نے امریکہ اور چین کے درمیان تعلقات کو فروغ دینے میں کلیدی کردار ادا کیا لیکن اس کے باوجود امریکی حکومت کی جانب سے پاکستان پر چین کے ساتھ شراکت داری بڑھانے سے باز رہنے کیلئے دبائوڈالا گیا۔پاکستان جب ’’چین پاکستان اکنامک کاریڈور‘‘ (سی پیک) کا اہم شراکت دار بنا تو یہ امر بھی امریکہ کو ناگوار گزرا۔اس کے خیال میں سی پیک منصوبہ خطے میں اس کے مفادات کے لئے براہ راست خطرہ تھا۔جب پاکستان اس شراکت سے پیچھے ہٹنے پر راضی نہ ہوا تو امریکہ نے چین کے مفادات کو نقصان پہنچانے کیلئے بھارتی سرپرستی شروع کردی۔ بھارت کو نہ صرف فوجی، معاشی اور سیاسی میدانوں میں تعاون فراہم کیا بلکہ ’’بھارتی غیرقانونی مقبوضہ جموں وکشمیر‘‘ میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا بھی نوٹس نہ لیا۔ حالانکہ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل نے حالیہ رپورٹ میں لکھا ہے کہ ’’وہ مقبوضہ کشمیر میں ہونے والے مسلح تصادم بالخصوص بچوں کے خلاف ہونے والی سنگین خلاف ورزیوں پر بہت افسردہ ہیں اور بھارتی حکومت سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ بچوں کا تحفظ یقینی بنائے اور ’’پیلٹ‘‘ گنز کا استعمال بند کرے۔ وہ بھارتی افواج کی جانب سے بچوں کو حراست میں رکھنے اور ان پر ہونے والے تشدد کا بھی خاتمہ کرے‘‘۔ہونا تویہ چاہئے تھا کہ بھارت کو انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں اور سفاکانہ کارروائیوں سے باز رہنے پر مجبور کیا جاتا ، اس کے برعکس پاکستان پر دبائو مزید بڑھا دیا گیا جس کے باعث باہمی رشتے توڑنا ایک ضرورت بن گئی۔

وزیراعظم عمران خان وہ واحد عالمی لیڈر ہیں جنہوں نے ہمیشہ افغان مسئلے کو مذاکرات کے ذریعے حل کرنے پر زور دیا جبکہ دیگر عالمی رہنما طالبان کا فوجی طاقت کے ذریعے صفایا کرنے خواہاں تھے۔ دو دہائیوں تک جاری رہنے والی بے نتیجہ جنگ کے بعد بالآخر امریکہ نے افغانستان سے اپنی افواج نکالنے کا فیصلہ کیا۔ یہ وزیراعظم عمران خان کا پاکستان ہی تھا جس نے امریکہ اور طالبان کے درمیان بات چیت کوممکن بنایا جس کے نتیجے میں فریقین کے درمیان باضابطہ معاہدہ طے پایا جس کے تحت افغان سرزمین کو دہشت گرد سرگرمیوں کے لئے استعمال نہ کرنے کی یقین دہانی کے بدلے امریکی افواج کے انخلا کی راہ ہموار ہوئی لیکن کہانی یہاں ختم نہیں ہوتی بلکہ امریکہ کی جانب سے افغانستان کے اندر کارروائیاں جاری رکھنے کیلئے پاکستان سے ہوائی اڈوں کی فراہمی کا مطالبہ کیا گیا جو پاکستان کو ایک بار پھر دہشت گردی کی طرف گھسیٹنے کی ایک کوشش تھی۔ جب وزیراعظم عمران خان نے امریکہ کو ہوائی اڈے دینے کے حوالے سے واشگاف انداز میں ’’بالکل نہیں‘‘ کہاتو اس جراتمندانہ اقدام سے خطے میں معاملات کے آگے بڑھنے کے تناظر میں ایک بڑی تبدیلی آئی۔ چینی ٹیلی وژن کو دیے گئے اپنے حالیہ انٹرویو میں وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ امریکہ اور بعض دیگر مغربی ممالک چین کے ساتھ تعلقات میں تبدیلی لانے کیلئے پاکستان پر دبائو ڈال رہے ہیں لیکن پاکستان کبھی نہیں چاہے گاکہ چین کے ساتھ اس کے تعلقات متاثر ہوں۔ وزیراعظم نے کہا کہ اچھے وقتوں میں تو ہر کوئی آپ کے ساتھ کھڑا ہوتا ہے لیکن اصل دوست وہ ہوتا ہے جو مشکل وقت میں بھی آپ کے ساتھ کھڑا ہو۔ چین ہی پاکستان کا وہ واحد دوست ملک ہے جس نے اچھے اور برے دونوں اور حالات میں پاکستان کا بھرپور ساتھ دیا ہے۔

وقت آ گیا ہے کہ پاکستان اور امریکہ کے درمیان تعلقات کو موجودہ حالات کے تناظر میں دیکھا جائے اور ان پر نظرثانی کی جائے۔ بداعتمادی کی فضاختم کرنے اور دونوں ممالک کے باہمی مفادات کی مناسبت سے تعلقات کو نئے خطوط پر استوار کیا جائے۔ اس بامقصد عمل کا آغاز افغانستان اور خطے میں حقیقی امن کے قیام کیلئے مخلصانہ کوششوں میں تعاون سے ہو سکتا ہے۔ امریکہ کو بھی اس حقیقت کا ادراک کرنا ہوگا کہ افغانستان میں ہونے والی کسی بھی گڑبڑ سے دور رہنا پاکستان کے مفاد میں ہے۔پاکستان کو اپنی توجہ مغربی سرحد سے اسے غیر مستحکم کی جانے والی کارروائیوں اور داخلی سطح پر دہشت گردی سے نمٹنے پر مرکوز کرنی چاہئے۔ چین کے خلاف بننے والے کسی محاذ کا حصہ بننا پاکستان کسی صورت میں قبول نہیں کرے گا۔

(صاحبِ تحریر وزیراعظم کے معاونِ خصوصی برائے اطلاعات، سیاسی اور دفاعی تجزیہ کار اور ادارۂ علاقائی امن کے بانی ہیں)

تازہ ترین