• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اس میں کوئی شبہ نہیں کہ بھارت مسلسل پاکستان میں تخریب کاری میں مصروف ہے۔ پاکستان کے اندر بھارتی تخریبی کارروائیوں کی مکمل تفصیلات اس ڈوزئیر میں شامل ہیں جو پاکستان نے کچھ عرصہ قبل اقوام متحدہ سمیت اہم طاقتوں اور ممالک کے سامنے پیش کیا ہے۔ اگر ان تمام ثبوتوں اور شواہد کے پیش نظر دنیا بھارت کے خلاف کارروائی کرتی تو بلوچستان میں سیکورٹی فورسز پر دہشت گرد حملے نہ ہوتے اورنہ ہی گزشتہ دنوں لاہور میں دھماکا ہوتا۔ یہ بات عیاں ہے کہ لاہور دھماکےمیں ملوث گرفتار دہشت گردوں کو بھارتی خفیہ اور بدنام ادارے ’’را‘‘ کی معاونت و پشت پناہی حاصل تھی۔

پاکستان میں ہونے والے دہشت گردی کے تمام واقعات میں بھارت براہ راست ملوث رہا ہے۔ بھارت کے دہشت گردوں سے بالواسطہ روابط ہیں اور اس مقصد کے لئے بھارت عرصہ دراز سے افغانستان کی سرزمین کو بیس کیمپ کے طور پر استعمال کررہا ہے۔ بھارت کو پاکستان میں دہشت گرد بھیجنے، دہشت گردوں کی تربیت اور مالی و دیگر معاونت میں افغان حکومت کی پشت پناہی بھی حاصل رہی ہے جو پاکستان دشمنی ہے۔ افغان صدر اور دیگر حکومتی عہدیداران کے بیانات دنیا کے سامنے ہیں۔ لاہور دھماکا ان دنوں کرایا گیا جب فیٹف اجلاس میں پاکستان کے بارے میں فیصلہ ہورہا تھا۔ ایسے موقع پر لاہور میں دھماکا کرانے کا مقصد یہی تھا کہ یہ ظاہر کیا جائے کہ پاکستان دہشت گردی پر قابو پانے میں فی الحال کامیاب نہیں ہوسکااور پاکستان کو گرے لسٹ سے نکالنے کے بجائے بلیک لسٹ کیا جائے ۔ وہ الگ بات ہے کہ ہر بار کی طرح بھارت کو اس بار بھی کامیابی حاصل نہیں ہوسکی۔ لیکن عجیب بات ہے کہ دہشت گردوں کا قلع قمع کرنے والے ملک پاکستان کو تو ایک عرصےسےگرے لسٹ میں رکھا گیا ہے۔ لیکن پاکستان میں دہشت گردی کرانے والا ملک بھارت فیٹف کی نظروں سے اوجھل ہے۔

ہونا تو یہ چاہئے کہ فیٹف فوری طور پر ہنگامی اجلاس طلب کرکے بھارت کو بلیک لسٹ کردے۔ لاہور دھماکا تازہ ترین ثبوت ہے۔ آخر دنیا کو مقبوضہ کشمیر پر بھارت کا غاصبانہ قبضہ، طویل ترین محاصرہ اور کشمیریوں پر ظلم و بربریت کیوں نظر نہیں آتے؟ بھارت پاکستان میں شر انگیزی اور دہشت گردی میں کھلم کھلا ملوث ہے جس کے ثبوت پوری دنیا کے سامنے موجود ہیں۔ پھر امن کے علمبرداروں نے کیوں چشم پوشی اختیار کر رکھی ہے۔ کیا دنیا میں امن کی خواہش کے سب دعوےجھوٹ ہیں اور کیا عالمی برادری اور طاقتوں کی امن کے قیام میں کوئی دلچسپی نہیں ۔ اگر ایسا ہی ہے تو پھر پاکستان کو فیٹف کی گرے لسٹ میں کیوں رکھا گیا ہے کیا اس لئے کہ پاکستان نے دہشت گردی پر قابو پانے میں تاریخی کردار ادا کیا ۔ اگر عالمی طاقتوں کو خطے میںقیام امن میں واقعی دلچسپی ہے تو پھر بھارت کو فوری بلیک لسٹ کرنے میں کوئی امر مانع نہیں ہونا چاہئے۔

افغانستان میں حالات انتہائی خطرناک رخ اختیار کرچکے ہیں۔ طالبان اب تک شمالی افغانستان پر تقریباً مکمل کنٹرول حاصل کرچکے ہیں۔ افغان سیکورٹی فورسز پسپا ہورہی ہیں۔ ایسی بھی اطلاعات ہیں کہ کئی اضلاع میں سیکورٹی فورسز کے بعض افسران و اہلکار طالبان کے ساتھ شامل ہوگئے ہیں۔ طالبان کے ہاتھ بھاری تعداد میں جدید امریکی اسلحہ ، گولہ بارود اور بکتر بند سمیت فوجی استعمال کی گاڑیاں آئی ہیں۔ جو اضلاع طالبان کے قبضے میں آچکے ہیں وہاں افغان حکومتی مزاحمت مکمل طور پر دم توڑ چکی ہے۔ اطلاعات ہیں کہ طالبان نے اپنے زیر قبضہ اضلاع میں شرعی نظام نافذ کردیا ہے۔ اگرچہ وہاں کے باشندوں کو تحفظ کی یقین دہانی کرائی گئی ہے لیکن اس وقت پورے افغانستان میں افغان حکومت کی گرفت ختم ہورہی ہےاور خانہ جنگی کی کیفیت ہے۔

طالبان کی پیش قدمی تیزی سے جاری ہے۔ قندھار میں بھی صورت حال ابتر ہورہی ہے۔ کابل طالبان کا اہم ترین ٹارگٹ ہے۔ وہاں شدید لڑائی کے پیش نظر افغان باشندے شدید خوف و ہراس کا شکار ہیں۔ جنوبی افغانستان طالبان کے لئے کوئی مشکل جگہ نہیں ہے۔ وہاں ویسے بھی طالبان کے حامی موجود ہیں۔

دوسری طرف امریکی فوج کا انخلا تیزی سے جاری ہے۔ اور دن بدن بگڑتی صورت حال اور طالبان کی پیش قدمی کو دیکھتے ہوئے امریکہ نے اپنی فوج کو بحفاظت نکالنے کے لئے ہنگامی منصوبہ بندی پر عمل درآمد شروع کردیا ہے۔ امریکہ کے دورے کے دوران امریکی صدر بائیڈن اور امریکی انتظامیہ نے افغان صدر اشرف غنی اور چیف ایگزیکٹو عبداللہ عبداللہ کو محض طفل تسلی کے علاوہ کوئی ٹھوس اور واضح یقین دہانی نہیں کرائی۔ ظاہر ہے جب امریکہ شکست تسلیم کرتے ہوئے افغانستان سے نکل رہا ہے تو وہ کمزور ترین افغان حکومت کو کیا یقین دہانی کراسکتا ہے۔

ایسی کمزور حکومت جس سے امریکہ مایوس ہے۔ افغانستان سے امریکی انخلا پربھارت بھی بہت پریشان ہے۔ اس پریشانی کی دو وجوہات ہیں۔ ایک تو یہ کہ بھارت نے افغانستان میں بھاری سرمایہ کاری کی ہوئی ہے۔ دوسری یہ کہ پاکستان کے خلاف وہ افغان سرزمین کو استعمال کرتا رہا ہے۔افغانستان کی صورت حال کے پاکستان پراثرات آئند ہ کالم میں بیان کئے جائیں گے۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین