• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پاکستان میں جمہوریت کے تسلسل کے باوجود سول ملٹری تعلقات میں ابھی تک عدم توازن پایا جاتا ہے۔ بلوچستان وہ صوبہ ہے جہاں کے زمینی حقائق اقتدار کے ایوانوں کے بلند و بانگ دعوؤں کی نفی کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ دفاعی اداروں کا دعویٰ ہے کہ بلوچستان میں فوجی دستے موجود نہیں ہیں۔ اس بیان کا مقصد فوج کو انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں ، خاص طور پر سیکڑوں بلوچ قوم پرستوں کو ”غائب“ کرنے کے الزام سے محفوظ رکھنا ہے کیونکہ بعض حلقوں کی طرف سے یہ الزام تواتر کے ساتھ لگایا جاتا ہے کہ بلوچستان میں ایف سی، ایم آئی اور آئی ایس آئی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں میں ملوث ہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ ایف سی اور رینجرز بھی پاک فوج کی طرح فوجی ادارے ہیں فرق صرف یہ ہے کہ وہ وزارت ِ داخلہ کے کنٹرول میں ہیں جبکہ فوج وزارت ِ دفاع کے ماتحت ہے۔ ان کے دائرہ ِ کار میں فرق اتنا ہے کہ فوج پورے پاکستان میں کارروائی کر سکتی ہے جبکہ ایف سی اور رینجرز صوبائی حکومتوں کے تحت اپنے فرائض سرانجام دیتے ہیں۔ قواعد کے مطابق یہ ادارے سول حکومت سے احکامات لیتے ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ ان کو جی ایچ کیو ہی کنٹرول کرتا ہے اور وہ اپنے علاقے کے کور کمانڈر سے رابطے میں ہوتے ہیں۔ یہ فوجی ادارے بظاہر بہت سے قوانین کے تحت سول حکومتوں کی مدد کے لئے کام کرتے ہیں لیکن جب وہ ایسا کررہے ہوتے ہیں تو قانون نافذ کرنے والے اداروں ، جیسا کہ پولیس کے احتساب اور پوچھ گچھ سے بالاتر ہوتے ہیں ۔
دیکھنا یہ ہوگا کہ کیا پاکستانی فوج آئین اور سیاسی مینڈیٹ کے حوالے سے قومی سلامتی کی پالیسی بنانے کا مکمل اختیار بھی رکھتی ہے یا نہیں۔ ماضی کو دیکھا جائے تو تمام معاملات پر جی ایچ کیو یا آئی ایس آئی فوج کا تحفظ کرتے رہے ہیں۔ اس وقت ”قومی سلامتی“ کا یہی نقطہٴ نظر بلوچستان میں سارے مسئلے کی جڑ ہے کیونکہ فوج بلوچ قوم پرستوں کو بلوچ علیحدگی پسندوں کا ایک حصہ سمجھتی ہے جبکہ ان علیحدگی پسندوں کو ریاست دشمن عناصر ، جن کو غیر ملکی طاقتوں کی سرپرستی حاصل ہے، سمجھ کر ہر ممکن طریقے سے کچلا جارہا ہے تاہم بلوچستان کے سیاسی رہنما یا اسلام آباد اس معاملے میں قومی مفاد کے پیچیدہ تصورات کو کسی اور زاویئے سے دیکھتے ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ بلوچ قوم پرست دراصل اس معاشرے کے وہ ناراض عناصر ہیں جو مختلف وجوہات کی بنا پر قومی اور صوبائی سیاسی دھارے سے الگ ہو گئے ہیں اور اب انہوں نے ہتھیار اُٹھا لئے ہیں۔ ان میں سے کچھ رہنماؤں نے غیر ممالک میں پناہ لی ہوئی ہے۔ ہو سکتا ہے کہ کچھ غیر ملکی طاقتوں سے مالی وسائل اور ہتھیار بھی لیتے ہوں۔ ان حالات میں سول حکمران چاہتے ہیں کہ جیسے بھی ہو سکے انہیں منایا جائے اور سچائی کا سامنا کرتے اور مفاہمت کی پالیسی بناتے ہوئے اُنہیں قومی، سیاسی دھارے میں شامل کیا جائے۔
علیحدگی پسند صرف پاکستان کا ہی مسئلہ نہیں ہیں، بہت سی دیگر ریاستیں بھی انہی حالات سے دوچار ہیں۔ مثال کے بطور پر انڈیا میں کشمیر اور شمال مشرق میں علیحدگی کی تحریکیں چل رہی ہیں۔ ان علاقوں میں فوج اور ایل ای اے کو بہت وسیع اختیارات دیئے گئے ہیں تاکہ ان تحریکوں کو کچلا جا سکے۔ وہاں کوئی بھارتی بھی فوج کی طرف سے کی جانے والی زیادتیوں پر آواز نہیں اٹھاتا جبکہ پاکستان میں فوجی کارروائیوں کی مذمت کی جاتی ہے۔ اس کی وجہ صرف ” قومی مفاد“ کے تعین کی پالیسی ہے کیونکہ بھارت میں یہ پالیسی فوج کے بجائے حکمران، سیاسی جماعتیں بناتی ہیں۔ اہم بات یہ ہے کہ بھارت میں سیاسی جماعتیں اتفاق ِ رائے سے قومی سلامتی کی پالیسی بناتی ہیں جبکہ فوج ان کے ماتحت کام کرتی ہے۔ اس طرح اس کی تمام کارروائیوں کی ذمہ داری سول حکمران اٹھاتے ہیں۔
پاکستان میں صورتحال اس کے برعکس ہے۔ یہاں سول ملٹری تعلقات عدم اعتماد، دشمنی اور تناؤ کا شکار رہتے ہیں۔ اس کی وجہ سول سیٹ اپ میں تواتر سے ہونے والی فوجی مداخلت ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جب فوج پورے صدق ِدل سے سول حکومتوں کی مدد بھی کرنا چاہے تو بھی سول حکمران اس کے نتائج کی ذمہ داری نہیں اٹھاتے ہیں۔ بلوچستان میں یہ مسلہ نکتہ ٴ عروج پر پہنچ چکا ہے ۔اس کی جڑیں گزشتہ مشرف دور میں پیوست ہیں۔ گزشتہ سول حکومت کے دوران اس مسئلے کا حل تلاش نہیں کیا جا سکا کیونکہ فوج کے زرداری حکومت کے ساتھ تعلقات تناؤ کا شکار تھے۔ اُس وقت سول ملٹر ی تعلقات انتہائی عدم توازن کا شکار تھے۔
سول ملٹری تعلقات کی کشیدگی کی جھلک سپریم کورٹ کی طرف سے بلوچستان کے ”گمشدہ افراد“کے معاملے کو نمٹانے کے حوالے سے بھی ملتی ہے۔ ایک طرف تو سپریم کورٹ اس بات کو تسلیم کرتی ہے کہ ان افراد کی گمشدگی میں دفاعی اور خفیہ اداروں کا ہاتھ ہے تو دوسری طرف یہ براہ راست ان کومورد ِ الزام نہیں ٹھہرا سکی کیونکہ یہ ادارے بہرحال سول حکومت کے زیر اختیار ہیں۔ آج نواز شریف انتظامیہ کو بھی یہی مسئلہ درپیش ہے کیونکہ نواز شریف صاحب بلوچ قوم پرستوں سے بات چیت کرتے ہوئے ان کے دل میں اعتماد پیدا کرنا اور اُن کو قومی سیاست کے دھارے میں شامل کرنا چاہتے ہیں تاہم ان کے پاس ایسی کوئی طاقت نہیں ہے کہ وہ فوج کی وضع کردہ قومی سلامتی کی پالیسی کو اپنے ہاتھ میں لیں۔ نوازشریف اس خواہش کا متعدد مرتبہ اظہار کر چکے ہیں کہ وہ بلوچستان میں سیاسی عمل شروع کرنا چاہتے ہیں تاہم اس خواہش کو عملی جامہ پہنانا نہایت دشوار ہے۔ اس کے لئے ضروری ہے کہ قومی سلامتی کا تعین دفاعی اداروں کے بجائے سول حکمران کریں۔ جب تک ایسانہیں ہوتا ہے ، جزوقتی اقدامات سے کچھ حاصل نہ ہوگا اور نہ ہی آرمی چیف یا ڈی جی آئی ایس آئی کی بریفنگ سے مطلوبہ نتائج برآمد ہوں گے۔
تازہ ترین