• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

دلیپ کمار کے وہ ڈائیلاگز جو کبھی بھلائے نہیں جاسکتے

بالی ووڈ میگا اسٹار دلیپ کمار کے انتقال کے بعد جہاں ان سے جڑی ڈھیروں سنہری یادوں کو یاد کیا جارہا ہو تو وہیں ان کی مشہور فلموں کےایسے ڈائیلاگز پر ایک نظر ڈال لیتے ہیں جو کبھی بھلائے نہیں جاسکتے ۔

دلیپ کمار نے اپنے چھ دہائیوں پرمشتمل طویل فلمی سفر میں کئی یادگار ڈائیلاگز پیش کیے ، جن میں سے کچھ مشہور ڈائیلاگز کا تذکرہ یہاں کیا جارہا ہے۔

دیوداس (1955)

کون کمبخت ہے جو برداشت کرنے کے لیے پیتا ہے، میں تو پیتا ہوں کہ بس سانس لے سکوں ۔

مغل اعظم (1960)

 تقدیریں بدل جاتی ہیں ، زمانہ بدل جاتا ہے، ملکوں کی تاریخ بدل جاتی ہے، شہنشاہ بدل جاتے ہیں ، مگر اس بدلتی ہوئی دنیا میں محبت جس انسان کا دامن تھام لیتی ہے وہ انسان نہیں بدلتا۔

سوداگر (1973)

' حق ہمیشہ سر جھکا کے نہیں ، سر اٹھا کے مانگا جاتا ہے۔'

ودھاتا (1982)

' اگر میں چور ہوں، تو مجھ سے چوری کروانے والے تم ہو، اور اگر میں مجرم ہوں تو مجھ سے جرم کروانے والے بھی تم ہو۔'

ودھاتا (1982)

' کاغذات پر دستخط میں ہمیشہ اپنے قلم سے کرتا ہوں ۔'

شکتی (1982)

' لوگ جو سچائی کی طرف داری کی قسم کھاتے ہیں ، زندگی ان کے بڑے کٹھن امتحان لیتی ہے۔'

کارما (1986)

' تمہاری زندگی میرے ہاتھ میں ہے اور تمہاری موت بھی۔'

تازہ ترین