ہم ایک عجیب قوم ہیں۔لمحاتی جذبات ہمیں ہر چیز ، خاص طورپر عقل وغیرہ، سے بیگانہ کردیتے ہیں۔ فراموشی کا اتنا غلبہ کہ یاد ہی نہیں رہتا کہ چند لمحے پہلے ہم جنون کے کس اسپ ِ تازی پر سوار تھے اور کیوں؟ فرضی مسیحائوں کے استقبال کے لئے دید ودل فرش ِراہ، اور یہ انتظار دامن ِ قیامت سے جڑا، لیکن ہم پر تھکاوٹ یا مایوسی کے آثار ناپید۔ 2009ء سے لے کر 2013ء تک سوئس اکائونٹس اور آصف زرداری کی طرف سے بیرون ِملک چھپائی گئی رقم کے بحران نے پاکستان میں میلہ لگائے رکھا۔ اس سے پہلے افتخار چوہدری کو ایک مسیحا سمجھا گیا جو آتے ہی مافوق الفطرت ہیروز کی طرح تمام برائیوں کا سرقلم کردیں گے۔ آج 2016ء میں نواز شریف کو تمام خرابیوں کی جڑ اور پاناما اسکینڈل کو پاکستان کے وجود کے لئے بننے والا سب سے بڑا خطرہ قرار دیا جارہا ہے ۔ اگلی ہی سانس میں آرمی چیف، راحیل شریف ہمارے نجات دہند ہ کے روپ میں دکھائی دیتے ہیں۔ چونکہ وہ چھ ماہ بعد عہدے سے رخصت ہونے والے ہیں، اس لئے وقت کو بے حد اہمیت حاصل ہوچکی ہے ۔ نیا بیانیہ یہ ہے کہ جو انکوائری صرف اور صرف نواز شریف کو ہدف بناتے ہوئے اُنہیں مجرم قرار نہیں دیتی، وہ ناقابل ِقبول ہوگی کیونکہ اس کا مقصد محض بدعنوانی پر پردہ ڈال کر اُنہیں بچانا ہوگا۔ پاناما لیکس پاکستان کے لئے لہو گرم رکھنے کاایسا بہانہ بن گیا ہے جسے ہم ٹھنڈا پڑنے کی اجازت دینے کے لئے تیار نہیں۔ قوم کو اس بات پر قائل کرنا آسان نہیں کہ اندھے جذباتی پن کا شکار ہوتے ہوئے چند افراد کو لٹکانے سے سب مسائل حل نہیںہوں گے۔ اس کی بجائے، پاناما اسکینڈل کو موقع غنیمت جانتے ہوئے ایک ایسا موثر نظام وضع کیا جائے کہ کوئی عوامی عہدہ رکھنے والا اپنے اعلانیہ وسائل سے بڑ ھ کر زندگی نہ گزار سکے ۔ ہمارے سامنے چوائس واضح ہے۔ یا تو ہم اپوزیشن کو موقع فراہم کردیں کہ ہمارے غصے کو استعمال کرتے ہوئے نواز شریف صاحب کو منصب سے نکال باہر کرے ، لیکن اس سے پھیلنے والے انتشار سے عوامی نمائندوں کے احتساب کے لئے کوئی نظام وضع نہیں ہوپائے گا۔ دوسری طرف ہمارے پا س موقع ہے کہ ہم احتساب کا عمل شروع کریں لیکن چاہے اس کا آغاز نواز شریف سے ہو، یہ نواز شریف پر رکے نہیںبلکہ تمام عوامی عہدے رکھنے والوں کو چھلنی سے گزارے ۔ ہمیںاس بات میں واضح ہونا پڑے گا کہ کیا پاکستان کا مسئلہ بدعنوانی ہے یا محمد نواز شریف؟اگر مسئلہ صرف نوازشریف کا ہے تو پھر اپوزیشن کے ٹرمز آف ریفرنس ٹھیک ہیں، لیکن اگر مسئلہ بدعنوانی ہے تو پھر یہ ٹرمز آف ریفرنس نامکمل اور بے سمت ہیں۔
یہ ٹرمز آف ریفرنس ہمارے دومشہور آئینی ماہرین، اعتزاز احسن اور حامد خان، نے تخلیق کیے ہیں۔ اگر حکومت انہی الفاظ کے ساتھ انہیں قبول کرکے بطور قوانین منظورکرلے تو عین ممکن ہے کہ حسن نواز یا حسین نواز انہی دونوں آئینی ماہرین میں سے کسی ایک کو بھاری فیس کے عوض وکیل کرلیں۔ یہ بات سمجھنے کے لئے آئینی ماہرہونے کی ضرورت نہیں کہ انہیں عدالت میں بہت آسانی سے امتیازی اور بنیادی انسانی حقوق کے خلاف قرار دیا جاسکتاہے ۔ چنانچہ عدالت انہیں دوسری سوچ ذہن میں لائے بغیر کالعدم قرار دیدے گی۔ قانونی پیچیدگی میں پڑے بغیر بھی ان ٹرمز آف ریفرنس میں کم از کم چار بڑے مسائل ہیں۔ پہلا یہ کہ نیب کے قانون کی مثال استعمال کرتے ہوئے ٹرمز آف ریفرنس کہتے ہیں۔۔۔’’تمام معاملات میں اپنی بے گناہی کا ثبوت فراہم کرنا تحقیقات کا سامنے کرنے والے شخص اور اس کے اہل ِ خانہ کی ذمہ داری ہو گی۔ ‘‘اس کا مطلب ہے کہ کمیشن پاناما اسکینڈل میں شامل ہر نام کو ملزم سمجھے گا تاوقتیکہ وہ شخص کمیشن کی تسلی کے مطابق خود کو بے گناہ ثابت نہ کرلے ۔ یہ شق انصاف کے بنیادی اصول ’’جرم ثابت ہونے تک بے قصور‘‘ کی کھلی خلاف ورزی ہے ۔ اصول یہ ہے کہ الزام لگانے والا ثبوت فراہم کرے ۔ حتیٰ کہ نیب قانون میں سپریم کورٹ نے اسفند یار ولی کیس میں کہا کہ پہلے تو ریاست یہ ثابت کرے کہ ملزم کے پاس جائیداد ہے جس کا اُس پر الزام ہے ۔ اس کا مطلب ہے کہ ثبوت سے بھی پہلے دیکھا جانا ہے کہ کیا واقعی کیس بنتا بھی ہے یا نہیں۔
دوسرا یہ کہ ٹرمز آف ریفرنس پاناما لیکس میں شامل افراد سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ تحقیقات کرنے والوںکو اختیار دیں کہ وہ اپنے اثاثوں اور فنڈز کے بارے میں سمندر پار کمپنیوں سے معلومات حاصل کرسکیں۔ اس تخلیقی تصور میں قباحت یہ ہے کہ یہ آئین کے آرٹیکل 13 کے خلاف ہے ۔ یہ آرٹیکل ملزم کو تحفظ دیتا ہے کہ وہ خود اپنے جرم کا ثبوت فراہم نہ کرے (پوری دنیا کے نظام ِ انصاف میں ملزم اپنے جرم کا خود گواہ نہیں بن سکتا )۔ تیسرا یہ کہ کمیشن نے یہ ثابت کرناہے کہ جب نوازشر یف اور ان کی فیملی مشرف کے شب خون کے بعد سعودی عرب میں جلاوطنی کی زندگی گزارنے گئے تو وہ ’’ریاست کے مہمان ‘‘ تھے ، چنانچہ اُس دورا ن اُن کو دیا گیا کوئی بھی تحفہ دراصل ریاست کی ملکیت تھا۔ اس کا مقصد بہت واضح ہے ۔ اگر شریف فیملی دعویٰ کرتی ہے کہ لندن جائیداد سعودی فنڈز ، جو بطور تحفہ ملے ، سے ، یا اُن سے نفع کماکر خریدی گئی اور کمیشن یہ ثابت نہیں کرسکتا کہ اُس وقت(جلاوطنی کے دور میں) وہ ریاستی مہمان تھے، تو اس کا مطلب ہے کہ اپوزیشن ہاتھ جھاڑ کر اٹھ جائے اور اچھا سا ڈنر کرکے سوجائے، اس کے ہاتھ کچھ نہیں آئے گاچوتھا یہ کہ کمیشن کا مجوزہ دائرہ کار نواز شریف اور پاناما لیکس ہیں۔ یہاں اپوزیشن کی منطق نہ قابل ِفہم ہے ۔ کمیشن پاناما لیکس پر توجہ مرکوز کررہاہے جو اس وقت تک سامنے آگئے ہیں، لیکن یہ تو گلیشیر کا ایک کنارہ ہے ۔ابھی تو لاتعداد نام سامنے آنا باقی ہیں۔ چنانچہ صرف سامنے آنے والی علامات پر ہی توجہ مرکوز کرنا اصل بیماری کو نظر انداز کرنے کے متراد ف ہوگا۔
یہاں سینیٹ میں اپنے لیڈر ، فاضل قانون دان کی رہنمائی میں یہ قوانین تیار کرتے ہوئے پی پی پی نے بھی خود کو ایک آزمائش میں ڈال لیاہے ۔ اس قانون کا پاناما پیپرز اور پھر سوئس اکائونٹس کیس پر اطلاق کرکے دیکھیں، اور پھر مرکزی جماعتوں کو اس چھلنی سے گزاریں اور پھر بھٹو فیملی کو بھی اسی احتساب سے گزرنے دیں(جب ان ٹی اوآرز کے مطابق اپنی بے گناہی کا ثبوت خود پیش کرنا ہے اور تحقیقات کرنے والوں کو اکائونٹس تک رسائی حاصل کرنے کی اتھارٹی دینی ہے ) تو پھرکیسا رہے گا؟پھر کیا یہ ٹرمز آف ریفرنس منصفانہ لگیں گے ؟اپوزیشن کا یہ موقف درست ہے کہ ہمیں پاناما لیکس کی تحقیقات کے لئے خصوصی قانون سازی کی ضرورت ہے۔
لیکن اس کے لئے ہمیں ایک جامع قانون کی ضرورت ہوگی جس کی زد میں امتیازی طور پر کوئی ایک شخص نہیں ، بلکہ ہر عوامی عہدہ رکھنے والا شخص آئے گا جو سمندر پار اکائونٹس اور غیر اعلانیہ اثاثے رکھتا ہے ۔
اس قانون کے لئے ضروری ہے کہ چار پہلوئوں کا احاطہ کرے ۔ پہلا یہ کہ عوامی عہدے دار اپنے اور اپنے قریبی اہل ِخانہ کے اثاثوں کا اعلا ن کرے، چاہے یہ ملک میں ہوں یا سمندر پار، نیز یہ اثاثے حاصل کرنے کی تاریخ ، اُس وقت کی قیمت اور موجودہ قیمت بھی بتائی جائے ۔ دوسرا یہ کہ آمدنی کا گوشوارہ جمع کرایا جائے جو دکھائے کہ اُس وقت یہ شخص فلاں اثاثے خریدنے کی پوزیشن میں تھا،اور اگر اس میں کوئی تضاد ہو تو اس کی بھی وضاحت کی جائے کہ رقم کہاں سے آئی۔ تیسرا یہ کہ ایک آزاد کمیشن کا قیام عمل میں لایا جائے جس کی نگرانی چیف جسٹس کی سربراہی میں جج حضرات کی کمیٹی کرے ۔ یہ کمیشن قصور وا ر کو بیس سال تک کے لئے عوامی عہدہ رکھنے سے نااہل قراردینے کا مجاز ہو۔ اس کے علاوہ یہ سرکاری افسران، ججوں اور جنرلوں کو بھی اُن کے عہدوںسے فارغ کرسکتا ہو۔ یہ قانون اگر دنوں نہیں تو بھی ہفتوں کے اندر وضع کیا جاسکتا ہے ، بشرطیکہ اپوزیشن سیاسی مہم جوئی کی بجائے بدعنوانی کے خاتمے کا ارادہ رکھتی ہو۔