• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

’’ہم نے بنی اسرائیل پر یہ حکم نازل کیا جو شخص کسی کو (ناحق) قتل کرے گا (یعنی) بغیر اس کے کہ جان کا بدلہ لیا جائے یا ملک میں خرابی کرنے کی سزا دی جائے۔ اس نے گویا تمام لوگوں کا قتل کیا۔ اور جو اس کی زندگانی کا موجب ہوا تو گویا تمام لوگوں کی زندگانی کا موجب ہوا۔ (سورۃ المائدہ آیت32۔ مضامینِ قرآن حکیم۔ مرتبہ زاہد ملک)

آج اتوار ہے۔ اپنے بیٹے بیٹیوں سے ملنے، ان کی پیاری پیاری باتیں سننے، ان کے سوالات کے جوابات دینے کا دن مگر تصور کیجئے، اُن ماں باپ پر جو 50دنوں سے اپنے اکلوتے 22سالہ بیٹے کی شکل دیکھنے کے لئے دریائے جہلم کے کنارے خیمہ زن ہیں۔ اکیسویں صدی میں بھی جنہیں انصاف نہیں مل رہا۔ باپ پاکستان کی قدیم ترین درسگاہ گورنمنٹ کالج جھنگ میں پنجابی کے لیکچرر ہیں۔ اُردو پنجابی کے مقبول شاعر بشارت وقار، صاحبِ مطالعہ، 15مئی سے وہ اس کرب میں مبتلا ہیں۔ قانون اور انصاف کے سب دروازے کھٹکھٹا چکے ہیں۔ تحریکِ انصاف کی حکومت ہے اور انصاف اسی پارٹی کے بااثر منتخب لوگوں کی سفاکی کے باعث عنقا ہے۔ تھانہ کوٹ شاکر ضلع جھنگ میں ایف آئی آر JNG KOT 000974، 21مئی 2021 سے درج ہے۔ 22سالہ توقیر عباس بی ایس اُردو فائنل سمسٹر کا طالب علم، اپنے ہی رشتے داروں کی آتشِ انتقام کی نذر ہوا ہے۔ ظلم کرنے والے اتنے بارسوخ ہیں کہ سوشل میڈیا پر فریاد بھی بےاثر ہو گئی ہے۔ 17مئی کو چار بہنوں کے اکلوتے بھائی کو اس کے اپنے رشتے دار دریائے جہلم پر لے گئے اور 30فٹ گہرے پانی میں ڈبو دیا۔ بدلہ اس بات کا لیا گیا کہ ملزمان 22سالہ توقیر عباس کی شادی زبردستی اس سے 15سال بڑی اپنی طلاق یافتہ بہن سے کروانا چاہتے تھے۔ انکار پر اس کی زندگی سے ہی کھیلنے کا فیصلہ کر لیا گیا۔ یہ ایف آئی آر کہہ رہی ہے۔

ماں باپ، چار چھوٹی بہنیں دریا کے کنارے خیمہ زن ہیں۔ نوجوان بیٹے کی آرزو میں۔ اطلاعات کے اس دَور میں جدید ٹیکنالوجی کی موجودگی میں پولیس نہ تو زندہ توقیر عباس کو ڈھونڈ سکی ہے اور نہ ہی اس کی لاش تلاش کر سکی ہے۔ ملزمان نامعلوم نہیں ہیں۔ بشارت وقار اکیلے ہی جگہ جگہ فریاد کررہے ہیں۔ ان کے پروفیسر، لیکچرر ساتھی بھی مجبور ہیں، خاموش ہیں۔ بہنیں پورے پاکستان سے سوال کررہی ہیں کہ ہمارا اکلوتا بھائی ہمیں کون واپس دلائے گا؟

توقیر عباس لاپتہ ہے۔ ادھر بلوچستان کے لاپتہ نوجوانوں کی سسکیاں بھی ہوائے دشت کو غمگین کررہی ہیں۔ وزیراعظم عمران خان اور آرمی چیف جنرل قمر باجوہ کے بلوچستان کے لئے پُرعزم بیانات نے کچھ امید دلائی ہے۔ پی پی پی نے آغاز حقوقِ بلوچستان کیا تھا مگر عملدرآمد کے لئے موثر اقدامات نہ کر سکی۔ عمران خان نے جمہوری وطن پارٹی کے نوابزادہ شاہ زین بگٹی کو اپنا معاونِ خصوصی برائے مصالحت و ہم آہنگی مقرر کیا ہے۔ بلوچستان سے ہم مسلسل بےوفائی کرتے آرہے ہیں۔ اپنی اس کتاب میں، میں نے 1969سے اب تک کی بےوفائیوں کی تفصیلات بیان کی ہیں۔ بلوچستان پاکستان کی جان ہے۔ مستقبل کی توانائی، خوشحالی کے سارے سر چشمے بلوچستان کے صحرائوں اور پہاڑوں میں انتظار کررہے ہیں۔ اب جب عمران حکومت کی میعاد میں 2سال رہ گئے ہیں، اس وقت اس اہم ترین مسئلے پر توجہ دی جارہی ہے۔ خدشہ یہی ہوتا ہے کہ یہ معاملہ بھی پی پی پی کے آغاز حقوقِ بلوچستان کی طرح معلّق نہ رہ جائے۔

اگست کا مہینہ آیا ہی چاہتا ہے۔ انگریز سے آزادی کا مہینہ، 1947کے آگ اور خون کے دریا بھی یاد آتے ہیں۔ کراچی یونیورسٹی کے شعبۂ ابلاغِ عامہ نے صحافت کے معلم، درد مند پاکستانی متین الرحمٰن مرتضیٰ کی یاد میں ایک تعزیتی نشست کا اہتمام کیا۔ ان کی ایک لازوال تصنیف ’میں نے پاکستان بنتے دیکھا‘ کی رونمائی بھی کی۔ مجھے تو اس رُوداد نے مسحور کردیا ہے۔ متین صاحب مرحوم اپنے بھائی معین کی معیت میں 7سال اور 5سال کی عمر میں اپنے والدین اور کسی قریبی رشتے دار کی عدم موجودگی میں 1947میں بٹھنڈہ سے لاہور کا سفر کررہے ہیں۔ اور وہ سارے بھیانک خوفناک مناظر دیکھ رہے ہیں جو کسی کو عمر کے کسی حصّے میں بھی دیکھنے پڑیں تو حواس جواب دے جائیں۔ یہ دونوں بھائی بچپن میں ان قیامتوں کا سامنا کئی ہفتوں تک کرتے رہے۔ مجھے دُکھ ہے کہ ان کی یہ تصنیف میں نے ان کی وفات حسرت آیات کے بعد پڑھی۔ ان کی زندگی میں ان کے بچپن کی اس قوت برداشت سے واقف ہوا ہوتا تو میں ان کے پاس بیٹھتا۔ سیکھنے کی کوشش کرتا کہ بچپن میں یہ آگ اور خون اپنی معصوم آنکھوں سے دیکھنے والوں کے دماغ کتنے مستحکم ہوں گے۔ اور اس جبر، اضطراب اور حادثات نے ان کی قوتِ فیصلہ کتنی مستحکم مرتب کی ہوگی۔ ان کے اہل خانہ سے ملوں گا اور اس نفسیاتی کیفیت کو جاننے کی کوشش کروں گا۔ کتنے متین، معین 1947میں ان جلتے صحرائوں اور خون کے دریائوں سے گزرے تو پاکستان کو اپنوں کی سازشوں اور دشمنوں کی جارحیت کے باوجود 75سال کی منازل طے کرنے کا حوصلہ ہوا۔ میں ایسے ہی مضبوط ذہنوں کی کیفیت سے آگاہ ہونے کے لئے بینک آف پنجاب کے ظفر مسعود سے بھی ملنا چاہتا ہوں کہ انہیں اللہ تعالیٰ نے نئی زندگی عطا کی۔ گزشتہ سال پی آئی اے کے فضائی حادثے میں وہ دو زندہ بچ جانے والوں میں سے ایک ہیں۔

ایسے ابتلا بھرے 75سال کسی بھی ملک کے لئے قابلِ فخر ہوتے ہیں۔ یہ ایک ایک لمحہ کس مشکل سے گزرا ہے۔ ہمارے بہت سے درد مندوں نے اپنی آپ بیتیوں میں مشکلات کی رُوداد قلمبند کی ہے۔ اس ہفتے پاکستان کی نصف صدی اہم ترین عہدوں پر خدمات انجام دینے والے سلمان فاروقی سے ملاقات ہوئی ۔ان کی خود نوشت آخری مراحل میں ہے۔ انگریزی اور اُردو میں شائع ہورہی ہے۔ بہت ہی حساس واقعات۔ فیصلہ کن لمحات کے عینی شاہد۔ ادھر جنرل(ر) معین الدین حیدر کی آپ بیتی بھی تیار ہے۔ مگر وہ ابھی اس ذہنی کشمکش میں ہیں کہ اسے منظر عام پر لائیں کہ نہیں۔ ان کے پاس بھی انتہائی قیمتی یادوں کا خزانہ ہے۔

مجھے آپ کو سب کو ایسے خواتین و حضرات سے با اصرار آپ بیتیاں لکھوانا چاہئیں تاکہ ہم اس آئینے میں اپنی حقیقی شکل دیکھ سکیں۔

تازہ ترین