• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
اگلے روز میر خلیل الرحمن میموریل سوسائٹی کے سیمینار میں ملک کے دو معروف ماہر امراض معدہ و جگر پروفیسر ڈاکٹر انوار اے خان اور پروفیسر ڈاکٹر غیاث النبی طیب نے کہا کہ اگر پاکستان میں حکومت اور اداروں نے ہیپاٹائٹس بی/سی پر کنٹرول نہ کیا تو صورت حال انتہائی خطرناک ہو جائے گی اور 15 برس بعد ہر گھر میں ایک یا دو افراد کی موت ہیپاٹائٹس بی ، سی سے ہو جائے گی۔
پتہ نہیں ہمارے حکمران، سول سوسائٹی اور صحت کے دیگر ادارے کیوں اس وقت تک خاموش رہتے ہیں، جب تک کوئی بڑا واقعہ یا حادثہ نہیں ہو جاتا۔ آپ ان گھرانوں سے معلوم کریں جن کے گھروں میں اس وقت ہیپاٹائٹس بی، سی کا کوئی مریض، مریضہ یا بچہ ہے۔ پوچھیں ان پر کیا گزری رہی ہو گی؟ علاج اتنا مہنگا ہے کہ غریب آدمی تو کرانے کا سوچ بھی نہیں سکتا، ہم کئی ایسے افراد کو ملے ہیں جن کو اس بیماری سے علاج کے لئے اپنا گھر بار کو فروخت کرنا پڑا۔
اس بیماری کی شدت میں جگر بالکل تباہ ہو جاتا اور اس صورت میں جگر کی پیوند کاری کرنا پڑتی ہے، ہمارے ملک میں جگر کی پیوند کاری کون سی سستی ہے، تیس سے چالیس لاکھ روپے روپے درکار ہوتے ہیں۔ پھر پاکستان میں صرف دو سرکاری اداروں میں جگر کی پیوندی کاری ہو رہی تھی اور وہ بھی اب کچھ عرصہ سے نہیں ہو رہی۔ پرائیویٹ سیکٹر میں جگر کی پیوندکاری کے اخراجات ہر کوئی افورڈ نہیں کر سکتا۔ جگر کی پیوند کاری کے بعد تا عمر ماہانہ 30 سے 40 ہزار روپے کی ادویات کھانا پڑتی ہیں۔
پاکستان کو بنے ہوئے 65 برس ہو چکے ہیں، آج تک ہم نے صحت کے شعبے میں کوئی انقلابی قدم نہیں اٹھایا، ہیلتھ کیئر کمیشن بھی بنا لیا، پھر بھی جعلی ڈاکٹرز، جعلی حکیم اور غیر معیاری لیبارٹریز کام کر رہی ہیں جو لوگوں کی صحت سے کھیل رہی ہیں، آپ لاہور سے پشاور تک چلے جائیں جگہ جگہ اپٓ کو ہیپاٹائٹس بی اور اسی کا علاج کرنے والے جعلی حکیم، عطائی ڈاکٹر اور پیر نظر آئیں گے۔ آج تک ہماری حکومت نے ان جعلی حکیموں اور عطائی ڈاکٹروں کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی۔ ان کی تعداد میں روز بروز اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ کتنی دلچسپ حقیقت ہے کہ پاکستان میں رجسٹرڈ ڈاکٹروں کی تعداد دو لاکھ سے زائد اور عطائی ڈاکٹروں کی تعداد چار لاکھ سے زائد ہے اور اب جعلی پیروں کی تعداد بھی روز بروز بڑھتی جا رہی ہے جو سادہ لوح عوام کو اب میڈیکل علاج کے نام پر لوٹ رہے ہیں۔
دنیا بھر میں میڈیکل ٹوازم فروغ پا رہا ہے اور ہمارے ملک میں جنتر منتر کرنے والے بڑھ رہے ہیں، ایک اشتہار آج کل (بلکہ بہت سارے اشتہارات شائع ہو رہے ہیں) 72 بلاؤں کے عامل، اب کوئی ان بابا جی سے پوچھے کہ پاکستان میں غربت، مہنگائی، لوڈشیڈنگ، پٹرول اور بیماریوں سے بڑی بھی کوئی بڑی بلائیں ہیں۔
اللہ تعالیٰ تمام لوگوں کو بیماریوں سے محفوظ رکھ، کینسر کے مریضوں کو روزانہ کی ہزاروں روپے کی ادویات اور ہزاروں روپے کے روزانہ کے ٹیسٹ کرانے پڑتے ہیں۔ حکمران ذرا انمول، میو ہسپتال اور جناح ہسپتال کے کینسر وارڈ میں جا کر تو دیکھیں کہ حالات کیا ہیں؟ انمول پاکستان اٹامک انرجی کا ایک سنٹر ہے جہاں پر سرطان کے مریضوں کا علاج کیا جاتا ہے، کتنی دردناک اور تلخ حقیقت ہے کہ انمول وہ واحد سرکاری ہسپتال ہے یہاں پر کوئی آئی سی یو نہیں جہاں پر کوئی ایمرجنسی نہیں، کوئی وینٹی لیٹر نہیں،۔ انمول میں رات کو جب کسی مریض کی حالت زیادہ بگڑتی ہے تو اس کو جناح ہسپتال یا پھر شیخ زید ہسپتال کی ایمرجنسی میں لے جایا جاتا ہے۔ ایک تو سرطان کا مریض، دوسرے حالت بگڑنے پر اس کو دوسرے ہسپتال منتقل کرنے کی تکلیف اور وہاں جا کر بھی ضروری نہیں کہ وہ اس کو داخل کریں۔ پنجاب کے وزیر صحت خلیل طاہر سندھو سے اس بارے میں درخواست ہے کہ وہ ان مسائل پر نظر رکھیں اب چونکہ پنجاب اور وفاق میں دونوں جگہ ن لیگ کی حکومت ہے تو انمول جو کہ وفاق کے زیر انتظام ادارہ ہے، اس کو پنجاب حکومت کے ساتھ مل کر اس کے اندر سہولیات پیدا کی جائیں جس ہسپتال میں وینٹی لیٹر ہی نہیں ہو گا، وہاں پر بھلا مریض کیا بچے گا؟ اس میں انمول ہسپتال کی انتظامیہ کا قصور نہیں، بلکہ یہ تو پالیسی سازوں کا قصور ہے، ان بڑے بڑے بیورو کریٹس کا قصور ہے جو اپنے آپ کو جیک آف آل ٹریڈرز کہلاتے ہیں۔
یقین کر لیں اس ملک میں سرطان کے مریض بڑی اذیت میں مبتلا ہیں، ایک تو بیماری کے ہاتھوں دوسرے انتہائی مہنگا ترین علاج، پھر سرطان کے مریض کے بچنے کے امکانات بہت کم ہوتے ہیں، خون کے سرطان میں مبتلا مریضوں کے لئے ہڈیوں کے گودے کو تبدیل کرنا ہوتا ہے۔ اس وقت پورے ملک میں کوئی باقاعدہ سنٹر نہیں، لوگ کہاں جائیں، شعبہ صحت میں بہت کام کرنے کی ضرورت ہے۔ آج کئی طرح کی بیماریاں سامنے آ چکی ہیں جبکہ ہمارے ہاں آج بھی علاج اور تشخیص کے طریقوں میں جدت نہیں آ سکی۔ہیپاٹائٹس کی روک تھام اور لوگوں کو سرطان سے بچانے کے لئے شعور و آگاہی کی اشد ضرورت ہے جس طرح کی خوراک، رنگ، مٹھائیاں، مشروبات، ولایتی مرغی اور دودھ استعمال کیا جا رہا ہے، یہ سب سرطان کو پیدا کر رہے ہیں، کوئی فوڈ اتھارٹی اور کوئی فوڈ کو چیک کرنے والے ادارے، کوئی بھی اپنی ڈیوٹی سرانجام نہیں دے رہے۔ آج جتنی بھی بیماریاں بڑھ رہی ہیں، اس میں ہمارے ان اداروں کی ذمہ داری ہے جو فوڈ کو چیک کرتے ہیں۔ چلتے چلتے آپ کو رنگ برنگ کے پیروں کی ایک اور بات سنا دیں، ایک دوست نے ایک اشتہاری پیر کو فون کیا کہ میرا انعامی بانڈ کا انعام آ جائے۔ پیر نے کہا کہ ساڑھے بارہ ہزار روپے تم ایزی لوڈ کے ذریعے بھیج دو تمہارا کام ہو جائے گا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ان اشتہاری پیروں نے بڑے بڑے عجیب عجیب اپنے پتے لکھے ہوئے ہیں، جہاں ہر کوئی موجود ہی نہیں ہوتا، مثلاً کوٹ، ملتان، کوٹ لاہور یہ کوئی پتہ نہیں۔ قارئین اپنے آپ کو ایزی لوڈ بابوں سے بچائیں۔ یہ خواتین کو بڑی تعداد میں لوٹ رہے ہیں، حکومت تب کچھ کرے گی جب یہ سارے جادو ٹونے کرنے والے بنگالی بابے، مسیح بابے، بنگالن جادو گرنیاں کوئی بڑا کام دکھا جائیں گے۔ آخر میں حکومت کو یہ آگاہ کرتے چلیں کہ اس وقت سرکاری ہسپتالوں میں وینٹی لیٹرز کی شدید ترین کمی ہے اس کو دور کرنے کے لئے ہنگامی بنیادوں پر کام کریں، ہیپاٹائٹس اور سرطان کے مریضوں کے لئے خصوصی فنڈز درکار ہیں، ان میں خاطر خواہ اضافہ کیا جائے۔
تازہ ترین