• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سید منور حسن کو ہم سے جدا ہوئے پورا ایک سال ہو گیا ہے، وقت اتنی تیزی سے گزر رہا ہے جیسے کل کی بات ہو۔ سید منور حسن کے گرد ایک ہالہ بنا ہوا ہے اور شرکائے محفل ان کی بزلہ سنجی اور شگفتہ بیانی سے لطف اندوز ہو رہے ہیں، مجھے معلوم نہیں انہوں نے کبھی کسی کو اس بات کا احساس دلایا ہو کہ وہ ملک کی سب سے منظم جماعت کے امیر ہیں جس طرح لوگ ان سے گفتگو کر رہے ہوتے وہ ان جیسے بن جاتے۔ مجھے پاکستان کی صفِ اول کی سیاسی قیادت سے ملاقاتوں اور انٹرویوز کے مواقع ملے ہیں لیکن سید منور حسن جیسے درویش صفت سیاست دان کم کم ہی دیکھے ۔ سید منورحسن سے میرا تعلق امیر جماعت اسلامی اور صحافی کا نہیں تھا بلکہ ان سے ذاتی سطح پر تعلقات قائم تھے۔ امیر جماعت اسلامی کے منصب پر فائز ہونے کے بعد ہفتہ عشرہ میں ’’شہر اقتدار‘‘ کے دورے کے دوران ملاقات ہو جایا کرتی تھی، ان کی نظریں تقریب میں مجھے تلاش کرتی رہتیں لیکن جب انہوں نے جماعت اسلامی کی امارت چھوڑ دی تو وہ کراچی کے ہی ہو کر رہ گئے مگر جب ان کا اسلام آباد کی طرف رخ ہوتا تو وہ شاہد شمسی اور عطا الرحمٰن کی وساطت سے بلوا لیتے۔ ان کے احباب کی مختصر فہرست تھی وہ کبھی کبھار میاں اسلم کے ’’دولت خانہ‘‘ پر قیام کر لیتے۔ عام طور پر جماعت اسلامی کے ’’غریب خانہ‘‘ کو ہی رونق بخش دیتے۔ درویش صفت انسان تھے جو مل گیا کھا لیا۔ میں نے ان کو ہمیشہ سفید لباس میں ہی دیکھا۔ ان سے سعود ساحر مرحوم، میاں منیر احمد، محسن رضا اور شکیل ترابی کے ہمراہ محفل آرائی ہوتی۔ وہ دور حاضر کے ولی تھے۔ انہوں نے اپنے ’’طرزِ کلام اور رکھ رکھائو‘‘ سے کبھی امیر جماعت ہونے کا احساس نہیں دلایا بلکہ امیر جماعت اسلامی کے منصب کے تقاضوں کو بالائے طاق رکھتے ہوئے خوب گپ شپ لگاتے۔ ہم بھی ان سے ’’بےتکلفی‘‘ کا فائدہ اٹھاتے۔ سید منور حسن کو اسکول جانے کے لئے روزانہ تین آنے جیب خرچ ملتا تھا۔ اسکول آنے جانے کے لئے انہیں چار آنے درکار ہوا کرتے تھے لیکن وہ اسکول آنے جانے کا کچھ راستہ پیدل چل کر ایک آنہ بچا لیتے تھے۔ وہ یہ پیسے اسکول میں کسی ضرورت مند دوست کو قرض حسنہ دے دیتے لیکن وہ اس قرض حسنہ کو واپس نہیں لیتے۔ کمیونزم کے لٹریچر سے متاثر ہو کر بائیں بازو کی طلبہ کی تنظیم نیشنل اسٹوڈنٹس فیڈریشن کے روح رواں بن گئے لیکن اکتوبر، نومبر 1960کی بات ہے کہ ان کی زندگی میں انقلاب برپا ہو گیا۔ سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ کی کتب کے مطالعہ نے ان کی زندگی بدل دی۔ اسلامی جمعیت طلبہ میں کیا شامل ہوئے مہینوں میں اس کے سربراہ بن گئے۔ جماعت اسلامی کے رکن بنے تو پھر اس کے امیر کے منصب پر فائز ہوئے۔ میدانِ سیاست میں بارہا انہیں پابندِ سلاسل کیا گیا۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ سید منورحسن 1977کے متنازعہ انتخابات میں کراچی سے سب سے زیادہ ووٹ لے کر قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہو گئے چونکہ پاکستان قومی اتحاد نے 1977کے انتخابات کے نتیجے میں قائم ہونے والی قومی اسمبلی کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا لہٰذا پی این اے کے کسی رہنما نے قومی اسمبلی کے رکن کی حیثیت سے حلف نہیں اٹھایا بعد ازاں ان کی اہلیہ عائشہ منور کو قومی اسمبلی کی خاتون رکن منتخب ہونے کا اعزاز حاصل ہوا۔ ایک بار جو بات کہہ دی پھر نتائج کی پروا کئے بغیر ڈٹ جانا ان کا طرۂ امتیاز تھا۔ وہ 4اپریل 1993کو جماعت اسلامی پاکستان کے سیکریٹری جنرل بنے اور3اپریل 2009تک 16سال سیکریٹری جنرل کے عہدہ پر فائز رہے۔ 1967میں جماعت اسلامی پاکستان کے رکن بنے۔ 1977اور پھر 42سال بعد اس جماعت کے سربراہ منتخب ہوئے انہوں نے قاضی حسین احمد کے امارت سے الگ ہونے کے بعد جماعت اسلامی کی قیادت کی وہ بوجوہ علالت دوسری بار امارت کے قضیے میں نہیں پڑنا چاہتے تھے لیکن ان کا نام بھی امیدواران امارت میں شامل کر دیا گیا۔ پہلی بار ایک سٹنگ امیر کو شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ انہوں نے جماعت اسلامی کو کسی ’’ادارے‘‘ کا تابع محمل نہیں بنایا بلکہ انہوں نے جماعت اسلامی کے کارکنوں کو سر اٹھا کر جینے کا سلیقہ سکھایا انہوں نے اپنی پوری زندگی5مرلے کے مکان میں گزار دی۔ وہ ایک بہادر سیاست دان تھے۔ ہمیشہ کلمۂ حق کہا اور اس بات کی پروا نہیں کی ان کی بات سے کوئی ’’طاقتور‘‘ ناراض ہو جائے گا۔ ہمیشہ جبر کی قوتوں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کی۔ میاں طفیل محمد بھی ایک درویش صفت رہنما تھے۔ ان کی سادہ زندگی کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا کہ جب انہوں نے امیر جماعت اسلامی بننے کے بعد پہلی بار مری کا دورہ کیا تو ان کے قیام کے لئے کسی بڑے ہوٹل میں کمرہ بک کرانے کی بجائے ممتاز سماجی شخصیت شفا ء الحق کی رہائش گاہ کا انتخاب کیا گیا۔ جب انہوں نے میاں طفیل محمد کی پیوند لگی شیروانی دیکھی اور اپنے جوتے خود پالش کرتے دیکھا تو ان کی زندگی میں انقلاب برپا ہو گیا۔ سید منور حسن بھی ماضی کے تلخ تجربات کے باعث مسلم لیگ (ن) سے بہت دور ہو گئے یہی وجہ ہے انہوں نے اپنے دور امارت میں جماعت اسلامی کو ہمیشہ مسلم لیگ (ن) سے دور رکھنے کی کوشش کی۔ میں جماعت اسلامی راولپنڈی کے ایک ذمہ دار کے بارے میں جانتا ہوں جو جماعت اسلامی کے فنڈز سے منگوائی جانے والی روٹی سے پیٹ بھرنے کی بجائے تندور سے باسی روٹی سستے داموں خرید کر اپنے اہلِ خانہ کے لئے لے کر جاتے تھے۔ جب میں کچھ عرصہ قبل کراچی گیا تو انہوں نے اپنے دفتر ادارہ معارف اسلامی میں ظہرانے کا اہتمام کیا ان سے ملکی سیاست پر کھل کر باتیں ہوتی رہیں، جب میں جانے لگا تو مجھے گاڑی تک الوداع کہنے آئے میرے منع کرنے کے باجود انہوں نے کہا کہ’’ یہ ممکن نہیں آپ مجھ سے ملاقات کے لئے آئیں اور میں آپ کو الوداع کہنے گاڑی تک بھی نہ آئوں‘‘ انہیں علم ہوتا تھا کہ وہ کیا بات کہہ رہے ہیں‘ لفظوں کا چنائو بہت سوچ سمجھ کر کرتے تھے‘ سید منور حسن جیسا شعلہ بیان مقرر اب کہاں ملے گا؟ وہ صادق و امین بننے کے لئے دستور پاکستان اور سپریم کورٹ کی گواہی کے محتاج نہیں تھے بلکہ ان کے معیار کا صادق اور امین بدر میں ملتا ہے‘ احد میں نظر آتا تھا‘ وہ ایک بااخلاق انسان تھے‘ پوری زندگی اقامت دین کی جدوجہد میں گزاردی۔ سید منور حسن ایک عظیم قائد اور حق گوئی و بے باکی کی عملی تصویر تھے وہ پاکستان کی سیاست میں نظریاتی وابستگی اور جد و جہد کی علامت تھے۔

تازہ ترین