• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پنجاب حکومت نے گریڈ 17 اور اس سے اوپر کے تمام افسران کے تبادلوں پر 3 ماہ تک کے لئے پابندی عائد کرکے بڑی دیر بعد ایک اچھا فیصلہ کیا ہے۔ اس فیصلے کی تکنیکی اور انتظامی وجوہات ہیں۔ تکنیکی وجہ یہ ہے کہ حکومت نے بجٹ 2021-22 میں 560 ارب روپے ترقیاتی کاموں کے لئے مختص کئے ہیں جس کے تحت صوبہ بھر میں اسکیمیں بن رہی ہیں۔ میری اطلاع کے مطابق ڈپٹی کمشنروں کی ڈسٹرکٹ ڈویلپمنٹ کمیٹیوں کو ترقیاتی اسکیموںکی تفصیلات مکمل کرنے کی آخری تاریخ 21 جولائی جبکہ کمشنروں کی سربراہی میں ڈویژنل ڈویلپمنٹ ورکنگ پارٹیوں کو ترقیاتی اسکیموں کو حتمی شکل دینے کی آخری تاریخ 31 جولائی مقرر کی گئی ہے۔ اسی طرح صوبے کے تمام انتظامی سیکرٹریوں کو بھی اپنے محکموں کی ا سکیمیں 31جولائی تک دینا ہوںگی۔ تبادلوں پر پابندیوں کے حکومتی فیصلے سے ایک ایس ڈی او سےلے کرچیف انجینئر، ڈپٹی کمشنر اور کمشنر سمیت دیگر ذمہ داران اسکیموں کی منظوری سے پہلے اور بعد میں ان کی تکمیل میں پوری طرح مشغول ہو جائیں گے۔ یہاں اہم بات یہ ہے کہ حکومت اگر افسران کو موبلائز کرنے میں ناکام ہوئی تو 560 ارب روپے کا ترقیاتی بجٹ خرچ نہیں ہوسکے گا۔ حکومت کو ترقیاتی کاموں کے لئے افسروں کی سخت مانیٹرنگ کرنا پڑے گی۔ اب ذرا تقرر و تبادلوں پر پابندی کے فیصلے کو انتظامی نظر سے بھی دیکھتے ہیں۔ پنجاب حکومت پر ایک بڑا الزام تھا جو بہرحال صحیح بھی تھا کہ آئےروز افسران کے تقرر و تبادلوں کی بھرمار کر دی جاتی ہے۔ تعیناتیوں کی میعاد کا عرصہ اتنا کم تھا کہ پی ٹی آئی کی پنجاب میں 21 اگست 2018 کو بننے والی حکومت نے گزشتہ تقریباً 3سال میں گوجرانوالہ ڈویژن کے 6، ملتان ڈویژن کے 5، راولپنڈی ڈویژن کے 5کمشنر تبدیل کئے جبکہ لاہور کے سابق کمشنر احمد مجتبیٰ پراچہ کے تبادلے کےبعد یہاں بھی لائن لگ گئی اور ایک کے بعد دوسرا کمشنر آتا رہا۔ اس حساب سے دیکھا جائے تو پنجاب کی اہم ترین ان ڈویژنوں میں تعینات ہونے والے کمشنروں کی تعیناتی کی اوسط مدت 6 ماہ کےلگ بھگ ہی بنتی ہے۔ آئے روز کے تقرر و تبادلوں کو بری گورننس نہیں کہیں گے تو اور کیا کہیں گے؟ سچ پوچھیں تو اب حکومت کو تقرر و تبادلوں پر 3 ماہ کی بجائے کم از کم ایک سال تک پابندی عائد کرنا چاہئے تھی۔ بیورو کریسی میں تو اس حکومتی فیصلے سے اطمینان کی لہر دوڑگئی ہے، ایک اور اچھی بات یہ ہے کہ صوبے میںاب معاشی سرگرمیاںبھی بڑھیں گی۔ جس کمشنر اور ڈپٹی کمشنر کو یہ پتہ ہے کہ اب کم از کم 3 ماہ تک اس کا تبادلہ نہیں ہوگا اسے ترقیاتی کام بھی کروانا پڑیں گے۔ پنجاب حکومت پر ایک الزام یہ بھی ہے کہ یہ افسروں کی ٹرانسفریا پوسٹنگ کے پیسے لیتی ہے۔ وزیر اعلیٰ کے پرنسپل سیکرٹری طاہر خورشید (ٹی کے) پر تو اس طرح کے الزامات زبان زدعام ہیں۔ مجھے ان الزامات کے جھوٹ یاسچ ہونے پر یہاں بحث نہیں کرنی البتہ ایک چیز سامنے ضرور آتی ہے کہ الزامات لگانے والے سینکڑوں لوگوں میں سے ایک بھی کچھ ثابت نہیں کرپایا۔ مجھے طاہر خورشید کے بارے کچھ زیادہ علم نہیں لیکن ایک واقعہ میرے سامنے پیش آیا جس کا ذکر میں یہاں ضروری سمجھتا ہوں۔ میں ایک دفعہ ایک دوست کے ساتھ طاہر خورشید سےملنے گیا۔ میرے دوست نے انہیں یہ نہیںبتایا تھا کہ میں صحافی ہوں۔ وہاں ایک غریب سائل اپنی درخواست لے کر آیا اور طاہر خورشید سے مخاطب ہو کر بولا کہ بڑی مشکل سے ان تک پہنچ پایا ہے۔ اس شخص نے اپنی بپتا سنائی تو ٹی کے نے فوری طور پر کسی افسر کو فون کرکے اس کا کام کروا دیا۔ میرے دوست نے ٹی کے سے پوچھا کہ یہاں سفارش اور ریفرنس کے بغیر کسی کا کام نہیں ہوتا لیکن آپ نے اس ماڑے بندے کا کام فوری کردیا ،تو ٹی کے نے جواب دیا کہ جب وہ سی ایس ایس کرکےسول سروس میں آیاتو ان کے والد، جو ہائیکورٹ کے ریٹائرڈ جج تھے، نے انہیں بلایا اور کہا کہ آج سے ایک بات یاد رکھنا، تمہارے پاس اگر زندگی میں کوئی سائل آئے اور اس کی کوئی سفارش نہ ہو تو سمجھنا تمہارا باپ اس کا سفارشی ہے۔ ٹی کے نے میرے دوست سے کہا کہ اس کے بعد جو کوئی بھی غریب یا ایسا شخص جس کی کوئی سفارش نہ تھی تو میں نے سمجھا میرا باپ اس کے ساتھ چل کر آیا ہے۔ بات لمبی ہوگئی ہے، کہنے کا مقصد یہ ہے کہ تقرر و تبادلوں پر پابندی سے حکومت وقتی طور پر ان الزامات سے بھی بری الذمہ ہو جائے گی کہ ان کاموں کیلئے پیسے لئے جاتےہیں۔ پنجاب حکومت کے ڈسٹرکٹ ڈویلپمنٹ پلان بنانے میں چیئرمین پلاننگ اینڈ ڈویلپمنٹ عبداللہ سنبل کا کردار بھی لائق تحسین ہے۔ جس طرح صوبوں کے درمیان محرومیوں کو ختم کرنے کے لئے حکومتِ پاکستان نے 2010 میں این ایف سی ایوارڈ شروع کیا، اسی طرح پنجاب کا ڈسٹرکٹ ڈویلپمنٹ پلان بھی ایک بہترین منصوبہ ہے۔ اس سے صوبے کے تمام اضلاع میں سارے ترقیاتی منصوبے شروع کرنے اور علاقائی محرومیاں ختم کرنے میں مدد ملے گی۔ پنجاب کی بیوروکریسی کی سفارشات کے مطابق بنائے گئے اس منصوبے میں ہر ضلع کی بنیادی ضروریات کے مطابق وہاں فنڈز خرچ کئے جائیں گے۔ پنجاب کی تاریخ میں پہلی مرتبہ ڈسٹرکٹ ڈویلپمنٹ پلان بنایا گیا ہے۔ اس سے قبل سارا بجٹ چند مخصوص اضلاع میں خرچ ہوتا تھا جس سے کئی اضلاع میں پسماندگی کی شرح میں اضافہ ہوا۔ فیلڈ افسران کے کاموں کی مانیٹرنگ کو موثر بنانے کیلئے ایڈیشنل چیف سیکرٹری پنجاب نے پہلی مرتبہ فیلڈ میں کام کرنیوالے اسسٹنٹ کمشنروں سے بذریعہ ویڈیو لنک میٹنگ کا سلسلہ شروع کیا چیف سیکرٹری پنجاب جواد رفیق ملک نے سروس ڈلیوری میں بہتری لانے کیلئے کئی اقدامات کئے ہیں۔ پنجاب حکومت کی ہدایت پر سینئر ممبربورڈ آف ریونیو بابر حیات تارڑ نے 30 ہزار ایکڑ سرکاری زمین جس کی مالیت 27 ارب روپے سے زائد بنتی ہے، کو قبضہ گروپس اور ناجائز قابضین سے چھڑوانے کیلئے بلاامتیاز کارروائیاں کیں۔ یہ سب کرنے کےبعد بھی ابھی بہت کچھ کرنا باقی ہے لیکن ٹرانسفر وپوسٹنگ پر پابندی عائد کرنا بہرحال ایک مستحسن فیصلہ ہے۔

تازہ ترین