• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

شعروں کے انتخاب نے رسوا کیا مجھے ’’والا قصہ پرانا ہو چکا‘‘،کبھی شعروں کا انتخاب فرد کی سوچ، نظریاتی وابستگی اور رویوں کی جھلک دکھاتا تھا اب ٹویٹر پر لکھی گئی عبارت، تبصرے اور خاموشی سب کچھ عیاں کر دیتی ہے کیونکہ کسی بھی صورتحال میں فوری ردِعمل کا اظہار انسان کی شخصیت کی عمدہ ترجمانی کرتا ہے۔ یوں ادیبوں، فنکاروں، کالم نگاروں، صحافیوں اور دانش وروں کی تمام ہنر وری ٹویٹر پر بکھری پڑی ہے۔ سیاستدانوں کے حوالے سے یہ کسی چینل سے بھی بڑا میڈیم ہے، اس لئے کہ دنیا بھر کے حکومتی اور حزبِ اختلاف کے نمائندوں کی ٹویٹس پریس کانفرنس سے زیادہ اہمیت کی حامل ہو گئی ہیں۔ بعض اوقات انہیں بریکنگ نیوز کی حیثیت حاصل ہو تی ہے۔ مونس الٰہی سے بھی میرا تفصیلی رابطہ ٹویٹر کے ذریعے ہی ہوا۔ میں اس کے سیاسی شعور اور سماجی دانش سے متاثر ہوتی گئی۔جب چودھری شجاعت حسین کی کتاب کی تقریب رونمائی میں مونس الٰہی کو دیکھا تو اندازہ نہ ہوا کہ وہ کافی پختہ نظریات کا حامل ہے۔وہ نہ صرف ہوٹل کے برآمدے میں لوگوں کا استقبال کر رہا تھا بلکہ تقریب کے خاتمے کے بعد سب مہمانوں کو گاڑیوں تک چھوڑ کر بھی آ رہا تھا۔صاف نظر آرہا تھا کہ وضع داری، مہمان نوازی اوراحترام جو اس خاندان کی علامت ہے وہ اس نوجوان میں بدرجہ اتم موجود ہے۔ ٹویٹر پر اک مختلف مونس سے ملاقات ہوئی جو ملک کو درپیش آبی مسائل کا بخوبی ادراک رکھتا ہے۔ آبی مسائل کے تناظر میں اس کی پِن ٹویٹ اب بھی ٹویٹر پر موجود ہے جو اس کی ترجیح اور معاملات کے ادراک کو ظاہر کرتی ہے۔ جب وفاقی حکومت نے اسے آبی وسائل کی وزارت کی ذمہ داریاں تفویض کیں تو خوشی ہوئی کہ حکومت نے اس ولولے سے بھرے نوجوان کی صلاحیتوں کو اظہار کا اشارہ کردیا ہے۔خواب دیکھنے،تعبیر ڈھونڈنے اور واقعتاً کچھ بہتر کرنے کا عزم رکھنے والا فرد ’’نچلا ‘‘نہیں بیٹھ سکتا۔ کام کی لگن اور ڈلیور کرنے کی تمنا اسے بے چین رکھتی ہے۔یہی معاملہ مونس کا بھی ہے۔اگر آپ کسی کو وہ فریضہ سونپیں جس کا وہ ادراک بھی رکھتا ہو اور دلچسپی بھی تو اس کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کے لئے وہ اپنی تمام صلاحیتوں کو بروئے کار لاتا اور شب و روز جدوجہد کرکے ناممکنات کو ممکن بناتا ہے۔ اس لیے وزیراعظم نے مونس الٰہی پر اعتماد کر کے نوجوان نسل کی حوصلہ افزائی کی ہے۔ نوجوانوں میں کام کرنے کی زیادہ جستجو اور لگن ہوتی ہے۔انہیں چیلنج قبول کرنا اور مشکلات سے لڑنا بھلا لگتا ہے۔ یہی خوبی کامیابی کی ضمانت بن جاتی ہے۔ اس وقت پاکستان پانی کی شدید قلت کی طرف بڑھ رہا ہے۔کشمیر سے نکلنے والے دریاؤں کا کنٹرول بھارت کے پاس ہے۔اس لئے پانی کے بہاؤ میں مسلسل کمی ہوتی جارہی ہے۔ وہ دریاؤں پر ڈیم اور بیراج بنا کر پانی کا بہاؤ اپنی سمت موڑ کر 1960ء کے سندھ طاس معاہدہ کی خلاف ورزی کررہاہے جس کے باعث مستقبل میں پاکستان پانی کے ایسے شدید بحران کا شکار ہوسکتا ہے جس سے ہر فرد متاثر ہو گا کیونکہ پانی سے زندگی کا درخت سرسبز رہتا ہے۔فصلیں،درخت،پھل پھول اسی کے مرہونِ منت ہیں۔انسان کے تنفس کی ڈور بھی اسی آکسیجن سے بندھی ہے جو درختوں کی دین ہے۔ دنیا اس وقت شدید قسم کی عالمی موسمیاتی تبدیلی کی زد میں ہےکہ بارشوں کا توازن بگڑ چکا ہے،کٹائی کے موسم میں طوفانی بارشیں اور ژالہ باری فصلوں کو شدید نقصان پہنچاتے ہیں، گرمی اور سردی کے موسموں کی شدت سے انسانی حیات اور اجناس مفاہمت نہیں کر پا رہے۔پاکستان جیسے زرعی ملک میں آبپاشی کا شعبہ بنیادی اہمیت کا حامل ہے۔ ہم دنیا کا سب سے بڑا نہری نظام رکھتے ہیں اور پانی ذخیرہ کرنے کے لئے ہمارے پاس تربیلا اور منگلا جیسے بڑے ڈیموں کے علاوہ کئی چھوٹے ڈیم بھی موجود ہیں لیکن پھر بھی ہم خطرناک حد تک آبی مسائل کا شکار کیوں ہیں؟اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ نہری نظام جس پر ہم فخر کرتے ہیں اب کافی بوسیدہ ہو چکا ہے۔ کچی نہروں سے رسنے والا پانی مسلسل سیم اور تھور کا باعث بن رہا ہے۔ ڈیموں میں پہاڑوں کی مٹی بھرنے سے ایک تو ڈیموں کا حجم کم ہوا وہیں یہ مٹی زمینوں کی زرخیزی کا وسیلہ بھی نہ بن سکی۔

ٹیکنالوجی نے وقت کی جھولی میں کئی گنا زیادہ افادیت کی حامل جدتیں رکھیں لیکن ہم اپنے نظام کو اپ ڈیٹ کرنا بھول گئے۔ صدیوں پرانے نظام آبپاشی پرانحصار کے باعث ہماری پیداواری صلاحیت دنیا سے بہت کم ہے۔ ترقی یافتہ زرعی دنیا آبپاشی کے جدید نظام کی بدولت کم پانی کے استعمال سے حیرت انگیز کامیابیاں سمیٹ رہی ہے۔

اگر ہمیں اپنے ملک کے آبی وسائل سے بھرپور فائدہ اٹھانا ہے اور پاکستان کو حقیقی معنوں میں زرعی ملک بنانا ہے تو آبپاشی کے جدیدنظام کو اپنانا ہوگا۔

تازہ ترین