• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

میں نے پچھلے کالم میں لکھاتھا کہ حر تحریک کے قائد پیر پگارا پیر صبغت ﷲ شاہ راشدی کو انگریز سامراج کے احکامات کے تحت پھانسی دینے کے بعد ان کی لاش گم کردی گئی مگر 2002 میں سندھ کے ایک محقق محمد عمر چنڈ کی تحقیقی کتاب ’’حر تحریک‘‘ میں پیر صبغت ﷲ شاہ راشدی شہید کی ایک ایسی تصویر شائع کی گئی جس کو دیکھنے کے بعد ہر آدمی انتہائی دکھی ہوجاتا ہوگا، اس تصویر میں پیر پگارا کی لاش کو ایک کمرے میںصوفے پر زندہ انسان کے طور پر بٹھاکر ان کے چند خلیفوں کو بلاکر لاش کے سامنے کھڑا کرکےتاثر دیا گیا کہ پیر صاحب کو پھانسی نہیں دی گئی بلکہ وہ ابھی زندہ ہیں۔ تصویر کے نیچے جو کیپشن دیا گیا ہے اس کے الفاظ ہیں کہ ’’حضرت شہید بادشاہ کے جسد خاکی کو کرسی پر بٹھاکر ان کے کچھ خلیفوں کو بلاکر پیر صاحب کا دیدار کرایا گیا تاکہ وہ اس بات پر یقین نہ کریں کہ پیر صاحب کو قتل کردیا گیا ہے۔ انگریزوں کے ظلم کی انتہا یہ ہے کہ پھانسی دینے اور شہادت کے بعد ان کے جسدِ خاکی کو چارپائی یا اسٹریچر پر رکھنے کے بجائے کرسی پر بٹھایا گیا‘‘۔ اس مرحلے پر میں یہ بات بھی ریکارڈ پر لاتا چلوں کہ پیر پگارا کو اس طرح پھانسی دینے اور حروں پر بے پناہ مظالم کے لئے ان کو سندھ میں مارشل لا لگانا پڑا مگر ان حرکتوں کے باوجود نہ حروں کی تحریک تھم سکی اور نہ سندھ میں انگریز سامراج کے خلاف نفرت میں کوئی کمی آئی لہٰذا انگریز سامراج کو نہ صرف سندھ بلکہ سارے ہندوستان سے نکلنا پڑا اور دو آزاد ملک پاکستان اور ہندوستان وجود میں آئے۔ انگریز کو گئے ہوئے زمانہ گزر گیا مگر آج تک شہید پیر پگارا کی قبر کی نشاندہی نہ کی گئی۔ اس ایشو پر میں نے دو کالم لکھے۔ ایک کالم فوج کے موجودہ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کے دور میں لکھا گیا جبکہ ایسا ہی ایک کالم سابق آرمی چیف جنرل راحیل شریف کے دور میں لکھا گیا۔ دونوں کالموں کا موضوع ایک ہی تھا یعنی انگریز سامراج کی طرف سے دی گئی پھانسی کے بعد نہ شہید پیر پگارا کی لاش ان کے خاندان کے حوالے کی گئی اور نہ آج تک یہ پتہ چل سکا کہ پیر صاحب کو دفن کہاں کیا گیا، میں نےدونوں فوجی سربراہوں سے انتہائی احترام سے عرض کیا کہ یہ بہت ضروری ہے کہ پیر صبغت ﷲ شاہ راشدی شہید کی قبر تلاش کرکے ظاہر کی جائے تاکہ ان کے خاندان کے لوگ،پیر صاحب کے مرید اورسندھ کے لوگ وہاں جاکر ان کو خراج تحسین پیش کرسکیں مگر اب تک اس سلسلے میں کوئی نمایاں پیش رفت نہیں ہوئی۔ یہ بات بھی ریکارڈ پر لانی چاہئے کہ اگر حروں نے انگریز سامراج کے خلاف اپنی جدوجہد ترک نہیں کی تو دوسری طرف انگریز سامراج نے بھی مظالم کی حد کردی،ایک طرف ہزاروں حروں کو مع ان کی خواتین اور بچوں کے حراستی کیمپوں میں رکھا گیا تو دوسری طرف سندھ کے ایسے کئی علاقوں پر بمباری بھی کی گئی جہاں ان کی اطلاعات کے مطابق حر کافی تعداد میں رہتے تھے۔ اس سلسلے میں ایک قصہ قارئین کو پیش کرنا چاہوں گا۔ یہ80 یا 90 کی دہائی کا زمانہ تھا، میں ایک اخبار کے ساتھ رپورٹر کی حیثیت سے منسلک تھااورزیادہ تر سندھ کے آبپاشی کے مسائل کے بارے میں رپورٹنگ کرتا تھا۔ اس دور میں سندھ کے محکمہ آبپاشی میں ایک سینئر افسر کے ساتھ میری اکثر ملاقاتیں ہوتی تھیں۔ ایک بار پتہ نہیں کیسے حر تحریک کا ذکر نکلا تو وہ پہلے میری جانب دیکھنے لگا‘ پھر کرسی سے اٹھ کر اس نے آفس کا دروازہ بند کیا اور کہنے لگا کہ میں پگارو کے گائوں ’’پیر جو گوٹھ‘‘ کا ہوں۔ اس نے بتایا کہ اس زمانے میں ان کے علاقے میں ابھی بجلی نہیں آئی تھی لہٰذا طلبا گھروں میں لالٹین کی روشنی میں پڑھتے تھے، ایک دن کافی گرمی تھی، وہ گھر کے دالان میں لالٹین کی روشنی میں پڑھ رہا تھا ، اچانک ان کے گھر کے دروازے پر کسی نے زور سے دستک دی،وہ کتاب چھوڑ کر باہر نکل آیا ، باہر ایک گورا کھڑا تھا،وہ اسے دیکھ کر پریشان ہوگیا مگر گورا تھوڑی بہت سندھی زبان میں بھی بات کررہا تھا اس نے انتہائی محبت سے پوچھا کہ اس وقت گھر میں روشنی کیسی ہے اور کیوں ہے؟اس نےگورےکو بتایا کہ وہ طالب علم ہے اور گھر میں پڑھ کر دوسرے دن کی تیاری کررہا ہے۔ یہ سن کر وہ شخص حیران ہوگیا اور پوچھا کیا تم طالب علم ہو؟ اس نے جواب دیا، ہاں میں طالب علم ہوں، اس پر گورےنے مزید حیرت سے پوچھا کہ کہاں پڑھتے ہو؟ اس نے کہا کہ گائوں کے اسکول میں۔تو گورے نے حیرانی سے پوچھا کہ کیا اور بچے بھی اسکول میں پڑھتے ہیں۔ اس نے کہا کہ جی ہاں گائوں کے کافی بچے اسکول میں پڑھتے ہیں، یہ سب کچھ سن کر گورے نے افسوس ظاہر کیا اور کہا کہ اسے بتایاگیا تھا کہ اس گائوں میں فقط ڈاکو اور لٹیرے رہتے ہیں لہٰذا اس گائوں پر بم گراکر تباہ کردو۔(جاری ہے)

تازہ ترین