• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

عام طور پر سمجھا جاتا ہے کہ ہم سب کا اپنا اپنا ایک ہیرو ہوتا ہے مگر ایسا نہیں ہوتا۔ ہمارے ایک سے زیادہ ہیروز ہوتے ہیں، معاشرے کے منفی اور مثبت رویوں کی وجہ سے کچھ الفاظ معتبر نہیں سمجھے جاتے۔ وہ الفاظ اپنا اعتبار کھو بیٹھتے ہیں۔ کبھی کبھی ایسے الفاظ ذلت کے زمرے میں آ جاتے ہیں۔ تمسخر کا سبب بن جاتے ہیں۔بیوی کے بھائی کو انگریزی میں کہتے ہیں Brother in law، اس لفظ کا اردو میں نعم البدل ہے سالا، تیزی سے بدلتے ہوئے معاشرتی، سماجی، ثقافتی اور سیاسی حالات کے زیر اثر لفظ سالا اپنی ساکھ کھو بیٹھا ہے۔ اچھے معنوں میں استعمال نہیں ہوتا۔ ہم پرانے شہر کراچی کے پرانے باسی اب تک لفظ سالا کو گالی سمجھتے ہیں۔ ہمیں اگر کوئی سالا کہہ دے تو ہم آپے سے باہر ہو جاتے ہیں۔ مرنے مارنے پر اتر آتے ہیں۔ عین اسی طرح لفظ ہیرو، گو کہ خالصتاً انگریزی زبان کا لفظ ہے، ہمارے یہاں اپنی ساکھ کھو بیٹھا ہے۔ لفظ ہیرو کا مفہوم مجھے معلوم ہے مگر میں لفظ ہیرو کے لئے اردو میں ایک لفظ پر مشتمل نعم البدل سے واقف نہیں ہوں۔ اس لئے میں اکثر لفظ ہیرو کے ساتھ تاویل سے کام لیتا ہوں۔ یہ تمہید میں نے ضرورت کے تحت لکھی ہے۔ مجھے ایک غیرمعمولی شخص کے بارے میں لکھنا ہے۔ اختلاف رائے آپ کا بنیادی حق ہے مگر وہ شخص میرے لئے ہیرو ہے۔

ابتدا میں، میں نے عرض کیا تھا کہ ہم سب کے ایک سے زیادہ ہیروز ہوتے ہیں۔ ہیرو سے میری مراد ہے، پسندیدہ شخص، ایک ایسا شخص جس نے ہمیں متاثر کیا ، ایک ایسا شخص جو اپنے قول اور فعل میں بےمثال لگتا ہے۔ ایک ایسا شخص جو ہر لحاظ سے، سب سے الگ تھلگ یگانہ لگتا ہے، اس کا ہنسنا ہمیں اچھا لگتا ہے، اس کا رونا ہمیں اچھا لگتا ہے۔ اس کا بولنا ہمیں اچھا لگتا ہے۔ اس کا اٹھنا، بیٹھنا اور چلنا پھرنا ہمیں اچھا لگتا ہے، ہم اپنے ہیرو کو اس قدر انہماک سے پسند کرتے ہیں کہ اسکی خامیاں ہمیں دکھائی نہیں دیتیں، ہم اپنے ہیرو کی خوبیوں میں گم رہتے ہیں۔ وہ ہمارے دل و دماغ اور سوچ پر چھا جاتا ہے۔ یہ سب کچھ اچانک نہیں ہوتا۔ سنی سنائی حکایتوں پر کوئی شخص صحیح معانی میں آپ کا ہیرو نہیں بن سکتا۔ کسی شخص کو آپ اسلئے اپنا ہیرو سمجھتے ہیں، کیوں کہ وہ شخص آپ کے والد بلکہ آبائو اجداد کا ہیرو تھا۔ ایسا نہیں ہوتا۔ ہیرو ہمیں ورثے میں نہیں ملتے۔ کسی اور کی مثال دینے کی بجائے میں اپنی مثال دینا مناسب سمجھتا ہوں۔ اگر اپنا کاندھا ہو ،تو پھر دوسرے کسی کے کاندھے پر بندوق رکھ کر نہیںچلانی چاہئے۔ میرے ہیروز میں مہاتما گوتم بدھ شامل ہیں۔ گوتم بدھ میرے والدین کے ہیرو نہیں تھے۔ بےانتہا بااخلاق، نفیس، بےمثال وکٹ کیپر بیٹس مین امتیاز احمد میرے ہیرو ہیں۔ وہ میرے والدین کے ہیرو نہیں تھے۔ میرے والدین فٹبال اور والی بال کا کھیل پسند کرتے تھے۔

مخصوص معاشرتی ،سماجی اور سیاسی پس منظر میں ہیرو ابھر آتے ہیں۔ پاکستان بننے کے چھ سات ماہ بعد دنیا کے اعلیٰ کرکٹ کھلاڑیوں پر مشتمل ورلڈ ٹیم، عالمی ٹیم کو ہندوستان کے وزیراعظم جواہر لعل نہرو نے خاص دعوت دیکر بلایا تھا۔ موقع تھا بمبئی اب ممبئی کے بریبون کرکٹ اسٹیڈیم کی سلور جوبلی تقریبات کا، ورلڈ الیون کو پرائم منسٹر الیون کے خلاف چار روزہ میچ کھیلنا تھا۔ ہندوستان کے وزیراعظم جواہر لعل نہرو نے پاکستان کے وزیراعظم لیاقت علی خان سے درخواست کی کہ امتیاز احمد کو ان کی ٹیم کی طرف سے ورلڈ الیون کی ٹیم کے خلاف کھیلنے کیلئے ہندوستان بھیجیں۔ وزیراعظم جواہر لعل نہرو کی ٹیم میں برصغیر کی تاریخ کے نامور کھلاڑی ونو منکڈ، وجے مرچنٹ ،وجے ہزارے، لالا امر ناتھ، مشتاق علی شامل تھے۔ میں تب کراچی کے این جے وی ہائی اسکول میں پڑھتا تھا۔ کرکٹ سے عشق کی ابتداہو چکی تھی۔ امتیاز احمد نے دنیا کے تیز ترین بالرز کے چھکے چھڑا دیے تھے۔ ڈان اخبار نے پہلے صفحے پر امتیاز احمد کی بڑی تصویر شائع کی تھی۔ لکھا تھا Imtiaz Scores 300 Not Out In One Day،مطلب امتیاز احمد نے ایک دن میں تین سو رنز بنائے اور ناٹ آئوٹ رہے۔ تب امتیاز احمد میری زندگی میں ہیرو بن کر ابھرے۔ میرا تجسس ان کی ذات سے وابستہ ہو گیا۔ پتہ چلا کہ دوسری جنگ عظیم نے جس طرح بہت کچھ دنیا میں تہس نہس کر دیا تھا، اسی طرح بےشمار غیر معمولی لوگوں کی فطری صلاحیت اور خداداد جوہر کو دنیا کے سامنے ابھر کر آنے نہیں دیا تھا۔ ان غیرمعمولی باصلاحیت لوگوں میں جہاں آسٹریلیا کے ڈان بریڈ مین تھے، وہاں برصغیر کے بٹوارے سے پہلے امتیاز احمد بھی تھے۔ باصلاحیت لوگوں کیلئے چھ سالہ دوسری عالمی جنگ کی ہیبت ناکیاں جیسے کم تھیں کہ برصغیر کے بٹوارے کے نتیجے میں دنیا کو موت جیسے سکتے میں ڈالنے والے وحشی فسادات نے برصغیر کو تباہ، برباد اور پامال کر دیا۔ شکستہ حال برصغیر میں بےشمار غیر معمولی لوگ برباد ہو گئے۔ گمنامی میں گم ہو گئے۔ فرقہ وارانہ فسادات کی آگ ایسی بھڑک اٹھی کہ آج تک برصغیر میں سلگتی رہتی ہے۔ وحشی فسادات سے دور ،امتیاز احمد تب اگر آسٹریلیا، انگلینڈ، یا ویسٹ انڈیز میں ہوتے تو آج وہ بریڈ مین، لین ہٹن، وارل، ویکس، والکاٹ اور کیتھ ملر کی صف میں شمار ہوتے۔ امتیاز احمد کے بارے میں تفصیل سے پھر کبھی لکھوں گا۔آج مجھ اپنے دوسرے ہیرو، دلیپ کمار کے بارے میں آپ سے باتیں کرنی تھیں۔ کالم کی گنجائش ربڑ نہیں ہے، کھینچ کر میں لمبا نہیں کر سکتا۔ آنے والے منگل کے روز میں دلیپ کمار کے بارے میں آپ سے باتیں کروں گا۔ دلیپ کمار کو میں نے سدا حیات ناول کی طرح پڑھا ہے۔ کہتے ہیں کہ بنگالی ادب کے عظیم لکھاری مسرت چندر چیٹر جی کا ناول دیوداس جب شائع ہوا تھا، تب اسی سال 1922میں دلیپ کمار کا جنم ہوا تھا۔ میں نے ناول دیو داس کئی بار پڑھا ہے۔ ناول دیو داس پر مبنی دلیپ کی فلم دیو داس میں نے کئی مرتبہ دیکھی ہے۔ میرا یقین ہے، اعتقاد ہےکہ دلیپ نے دیو داس بننے کے لئے جنم لیا تھا یا پھر مسرت چندر نے ناول دیو داس دلیپ کیلئے لکھا تھا۔

تازہ ترین