ماہ اگست جہاں ہماری آزادی اور جشن کا مہینہ ہے، اگر اس ماہ کو ہم اپنے احتساب کے طور پر منائیں تو ہمیں اگلے برسوں میں پاکستان کی ترقی، خوشحالی، استحکام کے حوالے سے اپنی پالیسی بنانے میں مدد مل سکے گی،آزادی کے بعد سے پاکستان جن مشکل اور گمبھیر حالات سے گزرا ہے شاید ہی دنیا کا کوئی ملک اس قسم کے حالات سے دوچار ہوا ہو، ہمارے پڑوسی ملک بھارت نے کبھی ہمیں دل سے تسلیم نہیں کیا جبکہ پاکستان ایک حقیقت ہے جسے تسلیم کرنا خود اس کے مفاد میں ہے۔پاکستان نے 74برس کے دوران بھارت سےجنگ اور اس کی سازشوں کا جس کامیابی سے مقابلہ کیا وہ قابل ستائش ہے،ہم نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میںجو قر بانیاں دیں وہ کسی دوسرے ملک نے نہیں دیں، افواج پاکستان اور عوام کی محنت اور بے پناہ مالی وجانی قربانیوں سے ہم اس امید کے ساتھ مشکل دور سے نکل رہے ہیں کہ اگلے چند سال میں اچھے دور میں داخل ہونے والے ہیں،تاہم اس بات سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا کہ پچھلے74برسوں میں ہم ہر سال 14اگست کے دن اپنی آزادی مناتے ہیں،21توپوں کی سلامی دیتے ہیں،تقاریر کرتے ہیں مگر کبھی اس دن ہم اپنی غلطیوں، خامیوں کا تجزیہ نہیں کرتے ،پاکستان سے ملنے والی اپنی شہرت، عزت، دولت کا اعتراف نہیں کرتے آخر کیوں؟ زندہ قومیں اسی وقت ترقی کرتی ہیں جب وہ اپنا احتساب کرتی ہیں۔ہم آزادی کے وقت جس اسلام کو بچا کر لائے تھے اس کو فرقوں میں قید کر دیاہم مسلمان ہوکر بھی فرقوں میں بٹے رہے،لسانیت کا پرچار کرتے رہے،ہم سب سے پہلے پاکستانی نہ بن سکے،مشرقی پاکستان کی علیحدگی سے بھی سبق حاصل نہ کرسکے، ہم اپنے ملک میں موجود معد نی ذخائر سے فائدہ نہ اٹھاسکے،کراچی کے سمندر سے درست انداز میں فائدہ نہ لے سکے، جمہوریت کے نام پر چہرے بدلتے رہے مگر ملک کو مضبوط بنانے کے لئے ایک پالیسی اور راہ کا تعین نہ کرسکے، آخر کیوں؟ ہم دو قومی نظریہ کی بناء پر معروض وجود میں آنے والے پاکستان اور انگریزوں سے آزادی کا جشن موٹر سائیکلوں کے سائلینسر اتار کر ، باجے بجاکر اور گانوں پر رقص کر کے مناتے ہیں لیکن غالباً ہم قیامِ پاکستان اور تحریک پاکستان کی اصل روح کو بھول چکے ہیں ۔ آج کس کس کو یاد ہے کہ آزادی کی جدوجہد کے دوران کس طرح ہماری ماؤں، بہنوں اور بیٹیوں کی عزتوں کو پامال کیا گیا، لاکھوں نوجوانوں کے سینوں میں نیزے گھونپے گئے کس طرح بزرگوں کی تمام عمر کی جمع پونجی ہتھیا لی گئی اور کس طرح بچوں کو لاوارث کر دیا گیا، پاکستان نعمتِ خداوندی ہے جو رمضان المبارک کی 27ویں شب کو معرض وجود میں آیا، پاکستان وہ عظیم ملک ہے جس کو اللہ تعالیٰ نے اپنی ہر نعمت سے نوازاہے جس میں دلکش موسم ، بلندو بالا پہاڑ ،دریا ،سمندر ، ریگستان ، قدرتی آبشاریں، ندیاں و چشمے ، ہیرے وجواہرات کے ذخائر، نمک و کوئلے کی کانیں ، کھیتی باڑی کے لئے زرعی و زرخیز زمین ،سونے کی کانیں موجود ہیں جن کی مدد سے ہم اپنےملک کی معیشت مستحکم کر سکتے ہیں مگر ہم نے کیا کیا ؟ ہم نے اپنے قیمتی اثاثے گروی رکھ دئیے،ملکی خزانے کو لوٹا، عوام کو بنیادی سہولتوں سے محروم رکھا،ڈیمز نہ بناکر پانی کو ضائع کیا، درخت کاٹ کر قوم کو بیماریوں میں مبتلا کیا، بجلی اور گیس کے بحران کو دور کرنے کے لئے کوئی قدم نہیں اٹھایا،قرض پر قرض لئے، ملک کے دفاعی اداروں اور اعلیٰ عدالتوں کو تنقید کا نشانہ بنایا، میڈیا پر قدغن لگائی، آزادی رائے کو پابند سلاسل کیا،،پاکستان کے حکمراں بھول گئے کہ ریگستان کو کیسے استعمال میں لانا ہے، سمندر سے کیا فوائد لئے جا سکتے ہیں، کیسے ڈیمز بنا کر پانی کو ضائع ہونے سے بچانا ہے ، کوئی بھی قوم اپنے ماضی کو بھلا کر زندہ نہیں رہ سکتی،ہمیں اپنی نئی نسل کو قیامِ پاکستان کے حقائق سے آگاہ کرنا ضروری ہے،ہم نےڈاکٹر عبد القدیر جیسی عظیم شخصیت کی قدر نہیں کی، ملک میں ہر شعبہ زوال کا شکار ہے، معیشت ، تعلیم، صحت، ٹرانسپورٹ، کھیل، فن و ثقافت تمام شعبوں میں ہماری کار کردگی آزادی کے چند سال تک تو درست رہی مگر پھر آہستہ آہستہ بتدریج ہم زوال کی جانب گامزن ہوگئے،آزادی کی قدر و قیمت ان کشمیری ماؤں، بہنوں اور بچوں سے پوچھیں جوپچھلے 74سال سے بھارت کا ظلم اور جبر سہہ رہے ہیں۔ اگست کا مہینہ شروع ہوتے ہی ملک میں شاہراہوں اور سرکاری عمارتوں کو جھنڈیوں اور برقی قمقموں سے سجایا جاتا ہے۔ اسی طرح اس دن کی مناسبت سے لوگ گھروں اور گلیوں کو بھی جھنڈیوں سے سجا تے ہیں۔ زندہ قومیں اپنی آزادی کو اسی طرح مناتی ہیں۔ بچے بڑے اس دن نئے اور سبز رنگ کے کپڑے پہن کر آزادی کے دن کو چار چاند لگاتے ہیں مگر ہمیں اپنی نئی نسل کو تحریک پاکستان کے مقاصد اور جذبوں کے بارے میں بتانا ہوگا، بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کے پاکستان کو ان کے خوابوں کے مطابق مستحکم کرنا ہوگا اپنے اندر اتحاد اور تنظیم کو اجاگر کرنا ہوگا،اپنی آزادی کی قدر کرنا ہوگی تب ہی ہم دشمنوں کی سازشوں کو ناکام بناکر وطن عزیز کو فولاد بناسکتے ہیں جس کے لئے ضروری ہے کہ ہم احتساب کے عمل کو ہر سطح پر اپنی زندگی کا حصہ بنائیں۔