• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

موٹاپا... غذا اور طرزِ زندگی میں تبدیلی ناگزیر ہے

حفصہ بتول

موٹاپا، جسے انگریزی میں Obesity کہا جاتا ہے، متعدّد امراض کی جڑ ہے۔ اِن امراض میں ذیابطیس، بُلند فشارِخون، امراضِ قلب، فالج اور سرطان کی چند اقسام شامل ہیں۔ موٹاپا اس وقت ایک عالمی مسئلہ بن چکا ہے،جس سے ہمارا مُلک بھی متاثر ہے۔ اس کی عمومی وجوہ میں سرِفہرست بسیار خوری، نامناسب طرزِ زندگی اور ورزش نہ کرنا شامل ہیں۔ آج کل روزمرّہ معمولات میں جسمانی مشقّت کم ہونے، جیسے دفتر میں یا کاروباری مراکز میں بیٹھے رہنے کا معمول اور ذرا سے فاصلے کے لیے پیدل چلنے کی بجائے ٹرانسپورٹ کا استعمال موٹاپے کے رجحان کو تقویت دے رہا ہے۔ 

یہی وجہ ہے کہ کھانے کی صُورت میں جو کیلوریز استعمال کی جاتی ہیں، وہ بطورتوانائی خارج نہیں ہوتیں اور جسم میں چربی کی صُورت ذخیرہ ہوتی رہتی ہے، نتیجتاً وزن بڑھ جاتا ہے۔ علاوہ ازیں، فاسٹ فوڈز بھی فربہی کی وجہ بن رہے ہیں۔واضح رہے،گزشتہ چار دہائیوں کے دوران فاسٹ فوڈز کا استعمال بے تحاشا بڑھ گیا ہے اور اگر اب بھی اس پر قابو نہ پایا گیا توآئندہ چند برسوں میں فربہی کی وجہ سے دیگر امراض کی شرح بھی بہت بڑھ جائے گی۔

موٹاپا کم کرنے کے لیے بہتر تو یہی ہے کہ کسی ماہر معالج سے رابطہ کیا جائے۔تاہم، عمومی طور پر طرزِ زندگی اور غذائی عادات میں تبدیلی کے ذریعے بھی وزن میں کمی لائی جاسکتی ہے۔ مثلاً ایسی غذا ئیںاستعمال کی جائیں کہ جن میں کیلوریز کم ہوں۔ تازہ پھل، سبزیاں زیادہ سے زیادہ کھائیں۔ نیز، روزمرّہ خوراک میں اناج، دالیں، مچھلی، گوشت، انڈے ،پھلیاں اور دودھ شامل کریں، لیکن چکنائی والی غذائوں کے استعمال میں احتیاط برتیں کہ یہ دِل اور اس سے منسلک کئی بیماریوں کا بنیادی سبب ہیں۔ فاسٹ فوڈز، پروسیسڈ فوڈز اور کولڈ ڈرنکس کا استعمال ترک کردیں۔اس ضمن میں کسی مستند ماہرِ اغذیہ سے روزمرّہ خوراک کے لیے ایک شیڈول بھی مرتّب کروایا جاسکتا ہے۔

علاوہ ازیں، کھانے پینے کی اشیاءمیں کتنی کیلوریز پائی جاتی ہیں، اس سے متعلق بھی معلومات ہونی چاہئیں، تاکہ کیلوریز مخصوص مقدار ہی میں استعمال کی جاسکیں۔ بعض ریستوران، کیفے اور فاسٹ فوڈ آؤٹ لیٹس وغیرہ اس حوالے سے معلومات، مینیو کارڈ میں بھی درج کرتے ہیں۔ باہر کا کھانا جس قدر ممکن ہو، اعتدال میں کھائیں کہ اس کے اثرات موٹاپے کی صُورت ظاہر ہوتے ہیں۔ اگر آپ متوازن غذا استعمال کررہے ہیں، لیکن ورزش نہیں کرتے، تو بھی خاطر خواہ نتائج حاصل نہیں ہوں گے۔ 

جسمانی ورزش، صحت برقرار رکھنے کے لیے لازم ہے۔ نیز، یہ کئی امراض کے امکانات بھی معدوم کردیتی ہے۔ مثلاً ذیابطیس ٹائپ ٹو لاحق ہونے کے امکانات 40فی صد کم ہوجاتے ہیں۔ماہرِ اغذیہ کے مطابق ایک بالغ فرد کو ایک ہفتے میں کم سے کم 150منٹ ورزش کرنی چاہیے-یعنی ہفتے میں 30 منٹ ورزش کے 5 سیشنز۔اگر یہ ممکن نہ ہو تو روزانہ صرف 10منٹ ہی کے لیے ورزش کر لی جائے، جیسے تیز قدمی اور سائیکلنگ وغیرہ۔ 

یہ بھی ضروری ہے کہ بے مقصد گھومنے پھرنے میں وقت ضایع نہ کیا جائے، بلکہ مثبت جسمانی سرگرمیاں انجام دینے پر فوکس رکھا جائے۔ نوجوانوں کو ایک دِن میں کم از کم 60منٹ کی خُوب مشقّت والی ورزش کرنی چاہیے، جیسے فٹ بال، والی بال وغیرہ کھیلا جائے۔اس کے علاوہ ٹیلی ویژن دیکھنے اور کمپیوٹر گیمز کھیلنے جیسی سرگرمیوں پر کم سے کم وقت صرف کیا جائے-

آج کل موٹاپا، بڑوں ہی نہیں، بچّوں میں بھی عام ہوتا جا رہا ہے۔ تو فربہی مائل بچّوں کا علاج بھی غذا اور طرزِ زندگی میں تبدیلی ہی کے ذریعے ممکن ہے، کیوں کہ عام طور پر بچّوں کے لیےBariatric Surgery تجویز نہیں کی جاتی۔ ویسے بچّوں کے موٹاپے کے علاج کے لیے بہتر یہی ہے کہ کسی ماہرِ امراضِ اطفال سے رجوع کیا جائے، کیوں کہ بچپن کا موٹاپا، نوجوانی اور بڑھاپے میں متعدّد طبّی مسائل کا سبب بن سکتا ہے۔ علاوہ ازیں،بچّوں کو ابتدا ہی سے ورزش کی عادت ڈالیں اور حتی الامکان صحت بخش غذائیں کھلائیں۔ تاہم، بچّوں میں روزانہ کتنی کیلوریز کا استعمال فائدہ مندثابت ہوتا ہے، اس کا انحصار ان کی عُمر اور قد پر ہے۔ سو، اس ضمن میں بہتر ہے کہ ماہرِ امراضِ اطفال سے مشورہ کرلیا جائے۔

تازہ ترین