پچھلے دنوں رحیم یار خان میں جنونیوں کے ایک ہجوم نے ایک قدیم مندر پر حملہ کر کے مندر کی املاک کو نقصان پہنچایا۔ چیف جسٹس آف پاکستان گلزار احمد نے جب اس واقعہ کا نوٹس لیا تو فوری طور پر وزیر اعلیٰ اور وزیر اعظم اس واقعے کی مذمت کرنے لگے اور اس کے ساتھ ساتھ بادشاہی مسجد کے امام نے رحیم یار خان جا کر ہندو برادری سے اظہار یکجہتی بھی کیا۔اس سے پہلے انسانی حقوق کی تنظیم ایچ آر سی پی بار بارہندوئوں کے حالات زندگی کے بارے میں رپورٹیں شائع کرتی رہی ہے ۔ ان رپورٹس میں یہ شکایت بار بار منظر عام پر لائی گئی کہ علاقے کے جاگیردار اور بااثر افرادانکی کم عمر لڑکیوں کو اغوا کرتے ہیں جس کی وجہ سے یہ لوگ مسلسل خوف و ہراس کی زندگی گزار رہے ہیں۔ اقلیتوں کے ساتھ یہ ناروا سلوک صرف وسیب تک محدود نہیں بلکہ چند سال پہلے کرک کے علاقے میں ایک مندر کو بھی کئی سال تک بند رکھا گیا اورجب سپریم کورٹ کے حکم کے بعد اسکی مرمت کروا کر اسے بحال کیا گیا تو ایک جنونی ہجوم نے پھر اس پر حملہ کر دیا۔ ایسی ہی ایک صورتحال چکوال کے ایک مندر کے ساتھ بھی پیش آئی۔ سندھ میں مندروں پر حملوں کی خبریں عام ہیں ۔اس کے ساتھ ساتھ اقلیتی رہنما کہتے ہیں کہ انکی لڑکیوں کی زبردستی شادی اور مذہب کی تبدیلی کروائی جاتی ہے۔
پاکستان کی 74سالہ تاریخ کا مطالعہ کیا جائے تو یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ پاکستان میں برسراقتدار حکومتوں نے اقلیتوں کے مسائل حل کرنے کیلئے کبھی کوئی سنجیدہ پالیسی نہیں بنائی بلکہ وقت گزارنے کیلئے بیان بازی کی ۔جس کے نتیجے میں ان اقلیتوں پر حملوں اور انکی عبادت گاہوں کو نقصان پہنچانے کے واقعات ہوئے۔ پاکستان بننے کے بعد یہ بات ریاستی دانشوروں کو واضح کر دینی چاہئے تھی کہ تحریک پاکستان جن بنیادوں اور نظریات پر چلائی گئی تھی انکی ضرورت پاکستان کی تشکیل کے بعد نہیں رہی تھی کیونکہ پاکستان میں ہر مذہب ، ذات، فرقہ اور مختلف قوموں اور نسلوں کے لوگ آباد ہیں، جس کا اظہارقائد اعظم نے اپنی 11اگست 1947ء کی تقریر میں واضح کر دیا تھا۔بلکہ انہوں نے ابتدائی دور میں ہی کوشش کی کہ بیوروکریسی ، فوج اور دوسرے اداروں میں اقلیتوں کو مساوی بنیادوں پر شریک کیا جائے اور اسی بنیاد پر انہوں نے اپنی پہلی کابینہ میں اقلیتوں کے اراکین کومناسب وزارتیں بھی تجویز کیں کیونکہ قائد اعظم محمد علی جناح کا ایک واضح موقف تھا کہ ایک قوم کی تشکیل اسی وقت ہو سکتی ہے کہ جب اس قوم کے ہر شہری کو برابر کے حقوق حاصل ہوں۔تاریخ گواہ ہے کہ جن معاشروں میں قومی ریاست کے وجود میں آنے کے بعد جب بھی ایک قوم بنی ہے ، تو وہاں لازمی طور پر معاشرے کی بکھری ہوئی قوتیں ایک جگہ جمع ہو گئیں اور یوں اسکے نتیجے میں ملکوں نے ترقی کی لیکن جن ملکوں میں اکثریت ، اقلیت کو انکے حقوق دے کر ایک قوم میں شامل نہ کر سکی، وہاں یہ قومیں آج بھی زوال پذیر ہیں ۔
سپریم کورٹ کے سابق چیف جسٹس تصدق جیلانی نے S.M.C No.1 of 2014کے سوموٹو کیس میں اقلیتوں کے معاملات میں ایک معرکۃالآرا فیصلہ دیا تھا جس پرکافی سال گزرنے کے بعد بھی حکمران عمل پیرا نہ ہو پائے ۔اس کیس کی سماعت کے دوران عدالت کو اس وقت بڑی حیرانی ہوئی (جس کا ذکر فیصلے کے صفحہ نمبر 13پر درج ہے) کہ جب فاضل ایڈوکیٹ جنرل سندھ نے عدالت کے استفسار پر بتایا کہ ا قلیتی عبادت گاہوں کی بے حرمتی تعزیرات پاکستان کے تحت نہ تو بے حرمتی ہے اور نہ ہی ایک جرم ہے لیکن جب عدالت نے تعزیرات پاکستان کی دفعہ 295کے بارے میں سوال کیا تو فاضل ایڈوکیٹ جنرل کو یہ بات ماننا پڑی کہ عبادت گاہوں کی بے حرمتی چاہے غیر مسلموں کی ہی کیوں نہ ہو، تعزیرات پاکستان کے تحت ایک جرم ہے جس سے اس بات کا اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ حکمران طبقے میں اقلیتوں کے حقوق کے بارے میں آگاہی کاشدید فقدان ہے۔ اس فیصلے میںکہا گیا ہے کہ اقلیتوں کے حقوق کے متعلق تمام شقوں میں سے آرٹیکل 20کو مثالی اہمیت حاصل ہے اور یہ کہ اس شق کا باریکی سے مطالعہ کریں تو پتا چلتا ہے کہ مذہب پر عمل کی آزادی اور مذہبی اداروں کے انتظام کے بارے میں یہ شق کثیر الجہتی معانی متعارف کرواتی ہے۔عدالت نے اپنے فیصلے میں لکھا کہ وفاقی حکومت مذہبی رواداری کے قیام کیلئے ایک ٹاسک فورس کی تشکیل کرے ، ایسا نصاب تشکیل دے جو مذہبی اور سماجی رواداری کی ثقافت کو فروغ دے اور جو اقوام متحدہ کی 1981کی قرارداد برائے خاتمہ عدم برداشت اور تعصب سے استفادہ کرے، سوشل میڈیا پر نفرت انگیز مواد کا تدارک کرے ، قومی کونسل برائے اقلیتی حقوق کو اس طرح تشکیل دیا جائے کہ وہ اقلیتوں کے حقوق کو یقینی بنانے کیلئے پالیسی سفارشات مرتب کرے، اقلیتوں کی عبادت گاہوں کے تحفظ کیلئے پیشہ ورانہ اور تربیت یافتہ مخصوص پولیس فورس تشکیل دی جائے اور اقلیتوں کے کوٹے کے نفاذ کو یقینی بنایا جائے۔ سابق آئی جی شعیب سڈل کی سربراہی میں ایک رکنی کمیشن نے بھی اسی فیصلے کی روح کے مطابق سفارشات مرتب کیں لیکن وہ بھی اربابِ اختیار کو اقلیتوں کو تحفظ دینے پر مائل نہ کر سکیں۔ ان حالات میں ضروری ہےکہ جسٹس تصدق جیلانی کے اس فیصلے کو پارلیمنٹ میں پیش کر کے اس پر عمل درآمد کیلئے لائحہ عمل تشکیل دیا جائے اور ایسے قوانین بنائے جائیں جن سے اقلیتوں کو دائمی تحفظ حاصل ہو تاکہ پاکستان بھی اکیسویں صدی میں دوسری قوموں کی طرح ایک قوم بن کر ترقی کی راہ پر گامزن ہو سکے۔