• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

(گزشتہ سے پیوستہ)

جیابگا ریلوے اسٹیشن کے علاوہ بھی کئی دیہاتی اور پہاڑی ریلوے اسٹیشنوں پر سانپ کے کاٹے کے علاج کی ادویات انگریز کے دور میں لازمی رکھی جاتی تھیںجن علاقوں میں سانپ زیادہ ہوتے تھے وہاں کے اسٹیشن ماسٹر اور اسسٹنٹ اسٹیشن ماسٹر کی یہ ذمہ داری تھی کہ وہ اپنے پاس ادویات اور فرسٹ ایڈ بکس لازمی رکھیں۔ اب کون پوچھتا ہے، اب ریلوے اپنی پٹریاں، تیل کے لیمپ ،پرانے کالے رنگ کے ٹیلی فون سیٹ اور جس جس چیزمیں لوہا ہے فروخت کر رہا ہے۔ ریلوے کو تباہ باہر کے لوگوں نے نہیں اُس کےاپنے ملازمین نے کیا ہے۔

25سے زائد ٹرینیں جو مختلف شہروں کو جایا کرتی تھیں، ٹرانسپورٹ مافیا نے ریلوے کے کرپٹ افسروں اورریلوے کے بعض کرپٹ وزراکے ساتھ ملکر بند کرا دی تھیں۔ ٹرینوں کو جان بوجھ کر لیٹ کیا جاتا تھا، انجنوں کی دیکھ بھال نہیں کی جاتی تھی تاکہ وہ راستے میں خراب ہو جائیں۔ ریلوے لائنوں کی کبھی دیکھ بھال نہیں کی جاتی تھی ،لوگ مجبوراً بسوں پر سفر کرنےلگے۔ ریلوے نے بسوں، ویگنوں اور چنگ چی کے مقابلے میں کم کرایہ رکھا۔ لاہور اسٹیشن سے آپ ٹرین پر واہگہ ریلوے اسٹیشن صرف تیس روپے میں پہنچ جاتے تھے جبکہ چنگ چی میں آپ کم از کم سو/ ڈیڑھ سوروپے میں پہنچتے ہیں پھرراستے میں کسی اسٹیشن پر اتر سکتے ہیں۔مگر ریلوے کے بعض انتہائی بدترین اور کرپٹ ترین افسروں نے منافع میں چلنے والے ادارے کو بدترین بحران سے دوچار کر دیا۔

بھارت میں آج بھی بے شمار ریلوے اسٹیشنوں پر بڑے بڑے بورڈز پر لکھا ہوتا ہے کہ یہاں سانپ کے کاٹے کی دوائی ملتی ہے۔ جیابگا میں آج تو سانپ نکل رہے ہیں، کچھ سال بعد یہاں سانپ تو دور کی بات کوئی کیڑا مکوڑا بھی نظر نہیں آتھا تھا۔ پلاٹ اور پلازہ مافیا جیابگا پہنچ چکا ہے، ہم نے جب گائوں کے نواحیعلاقے دیکھے تو جگہ جگہ بورڈ نظر آئے کہ10لاکھ روپے مرلہ زمین حاصل کریں۔یہ خوبصورت ریلوے اسٹیشن جلد ہی مکانوں اور پلازوں کے درمیان گھر جائے گا پھر ایک ایسا اسٹیشن بن جائے گا جہاں کوئی نہیں آئے گا۔ بس ٹرینیں برق رفتاری سے گزر جائیں گی۔ ہم نے کئی ریلوے اسٹیشن دیکھے ہیں۔ یقین کریں لاہور کے مغل پورہ اور جیابگا کے ریلوے اسٹیشنوں جیسے خوبصورت اسٹیشنز ہم نے پہلے کبھی نہیں دیکھے تھے۔ چالیس سال پہلے ان ریلوے اسٹیشنوں کی کیا بات تھی۔ مغلپورہ ریلوے اسٹیشن پر تو کئی پاکستانی فلموں کی شوٹنگ ہوتی تھی اور فی شوٹنگ کرایہ صرف دو ہزار روپے تھا وہ بھی بعض فلم سازوں نے آج تک نہیں دیا۔ جیابگا ریلوے اسٹیشن پر نصب تمام آلات جو 1912 میں نصب کئے گئے تھے آج بھی مکمل چالو حالت میںہیں بلکہ ریلوے اسٹیشن کے نزدیک کیبن روم میں کانٹا تبدیل کرنے کے تمام لیورز بھی پوری طرح کام کر رہے ہیں۔ دیکھتے ہیں کتنے روز یہ ریلوے اسٹیشن ریلوے کے کرپٹ مافیا سے محفوظ رہتا ہے؟

لاہور میں کبھی کئی فلیگ اسٹیشن ہوا کرتے تھے، فلیگ اسٹیشن پر صرف مسافر ٹرینیں ایک منٹ کے لئے ٹھہرتی ہیں، فلیگ اسٹیشن پر اسسٹنٹ اسٹیشن ماسٹر، دیگر عملہ اور تمام آلات بھرپور طریقے سے کام کرتے ہیں اب تویہ فلیگ اسٹیشن بھوت بنگلے بن چکے ہیں۔ ہم انگریزوں کو بہت برا بھلا کہتے ہیں اگر جائزہ لیا جائے تو انہوں نے 1860 اور 1912کے درمیان لاہور کے مختلف دیہات میں کئی ریلوے اسٹیشن بنائے تھے تاکہ لاہور کے دیہاتی شہر لاہور تک آسانی سے آ سکیں۔ جیابگا ریلوے اسٹیشن سے 2009 تک روزانہ دو سو کے قریب دیہاتی کوٹ لکھپت، والٹن، میاں میر، لاہور اسٹیشن، بادامی باغ اور شاہدرہ باغ جنکشن اسٹیشن آیا کرتے تھے، یہاں 2008 تک الیکٹرک ٹرین بھی ایک منٹ کے لئے جیابگا اسٹیشن پر رکتی تھی۔ اب تو الیکٹرک ٹرین کے صرف کھمبے (پول) رہ گئے ہیں۔ وہ بھی کسی روز کوئی چوری کرلے گا۔ الیکٹرک ٹرین کی کروڑوں روپے مالیت کے تار و دیگر آلات اور سامان چوری کر لیا گیا۔

یقین کریں جیابگا ریلوے اسٹیشن انتہائی خوبصورت تفریح گاہ ہے۔ اگر یہاں کچے ڈھابے (ریسٹورنٹس) بنا دیئے جائیں تو لاہوریوں کی اچھی خاصی تعداد یہاں تفریح کرنے آئے گی۔ جیابگا کے ریلوے اسٹیشن کے بعد ہم کوٹ لکھپت ریلوے اسٹیشن چلے گئے۔ جب ہم نے یہ ریلوے اسٹیشن دیکھا تھا اس وقت اس کی عمارت خاصی قدیم اور پرانے فن تعمیر کی عکاسی کرتی تھی۔ 1971کی پاک بھارت جنگ میں اس ریلوے اسٹیشن پر بھارتی فضائیہ نے بمباری کی تھی جس کی وجہ سے اس ریلوے اسٹیشن کی اصل عمارت تباہ ہو گئی تھی جبکہ نئی عمارت انتہائی بدنما ہے۔ اس اسٹیشن کے لوہے کے پل کا فرش اور سیڑھیاں تک چور اکھاڑ کر لے گئے ہیں۔ اب ایک ڈھانچہ کھڑا ہے جو کسی بھی روز کسی ٹرین پر گرسکتا ہے۔ کوٹ لکھپت اسٹیشن پر جانے کے لئے آپ کو چار لائنیں کراس کرکے جانا پڑتا ہے جو کہ بڑا خطرناک کام ہے، جب ہم اسٹیشن پر پہنچے اور وہاں پر موجود اسٹیشن ماسٹر سے کہا کہ ہمیں وہ جگہ اور کمرہ دکھا دیں جہاں پر بمباری ہوئی تھی، اس کمرے کا کچھ حصہ کہیں پر موجود ہے مگر وہ اسٹیشن ماسٹر صاحب ریلوے کی طرح خاصے بیزار اور ڈیپریس تھے۔

عزیز قارئین ! لاہور کے پانچ مزید تاریخی ریلوے اسٹیشن رہ گئے ہیں جن کا ذکر ہم آئندہ کریں گے، خیر کوٹ لکھپت ریلوے اسٹیشن میں ہمیں کوئی دلچسپ بات نظر نہ آئی ، ہمیں تو اس کی تاریخی عمارت سے دلچسپی تھی۔ چنانچہ جب تاریخی عمارت ہی نہ رہی تو ہم بھی صرف چند منٹ وہاں رک کر آگے چل دیئے ہمیں اس تہہ خانے کی تلاش تھی جو بمباری سے تباہ ہوا تھا۔ تہہ خانہ تو مل گیا مگر اسٹیشن ماسٹر ہمیں اس تہہ خانے میں لے جانے کو تیار نہیں تھا۔ ہم نے بھی اصرار نہ کیا اور وہاں سے رائے ونڈ اور کاہنہ کاچھا ریلوے اسٹیشن کا رُخ کیا۔ (جاری ہے)

تازہ ترین