• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

میں ان سوچوں میں گم ہوں کہ آخر ہمارے خان اعظم کو ہوکیا ہوگیا ہے کہ کچھ تاخیر سے لاہور تشریف لائے، میل ملاقاتیں کیں، راوی کنارے سب سے بڑے میاواکی جنگل کا افتتاح کیا، جنگلات کی افزائش بارے صحت افزا پیغام دیا، بہاولپور گئے‘ لال سوہانرا پارک میں شجر کاری مہم کے سلسلے میں نئے پودے لگائے، کسان کنونشن سے خطاب فرمایا، فردوس عاشق اعوان، عون چودھری کی وفاق کے بعد پنجاب سے بھی چھٹی ہوگئی،عاصم سلیم باجوہ سی پیک اتھارٹی چھوڑ کر چلے گئے، برطانوی عدالت نے بڑے میاں صاحب کی ویزا توسیع کی درخواست مسترد کرکے انہیں پاکستان واپسی کا ایک شریفانہ راستہ دکھایا، سیالکوٹ ضمنی انتخابات کا معرکہ تحریک انصاف کے امیدوار نے سر کرلیا، ملکی زرِمبادلہ کے ذخائر میں دھڑا دھڑ ڈالر آنے کے باوجود انہوں نے اپنے سیاسی مخالفین کو لتاڑا نہ ہی این آر او لینے دینے کی کوئی بات کی۔ معلوم نہیں خان اعظم کو کس کی نظر لگ گئی یا کس خیر خواہ نے انہیں یہ مشورہ دے دیا کہ چپ میں ہی سکھ ہے لیکن خان اعظم کی اس خاموشی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اگر بلاول بھٹو اچانک حکومت کو للکارنے لگیں، ڈنکے کی چوٹ پر وفاق اور پنجاب میں حکومتیں گرانے کے دعوے کریں، ن لیگ سے اختلافات کے باوجود آگے بڑھ کر تحریک عدم اعتماد میں ساتھ دینے کی ہلاشیری دیں اور بلوچستان کی سیاست میں سرگرم ہو کر کل کے شیروں کو آج کے جیالے بنانے میں کامیاب ہو جائیں، سپیکر بلوچستان اسمبلی عبدالقدوس بزنجو ‘وزیراعلیٰ بلوچستان جام کمال سے اپنی ناراضی کا اظہار کریں اور رات کے آخری پہر انہیں ٹیلی فون کال کرکے تسلی دیں کہ قدم بڑھاؤ ہم تمہارے ساتھ ہیں، اسی دوران پی ڈی ایم کے مردہ گھوڑے میں اچانک جان پڑ جائے، مریم نواز گھر میں بیٹھی رہ جائیں، شہباز شریف پی ڈی ایم کے اجلاس میں شرکت کرنے چلے جائیں اور خان اعظم پھر بھی خاموش رہیں‘سوچ تو آتی ہے کہ آخر یہ خاموشی کیوں؟ جب سے بلاول بھٹو امریکہ یاترا سے واپس آئے ہیں‘ پاکستان کی سیاست کا رُخ تیزی سے بدلتا نظر آرہا ہے۔ (ن) لیگی رہنماؤں کے بُرے دن ختم ضرور ہوئے ہیں لیکن انہیں پر کاٹ کر کھلی فضاؤں میںچھوڑ دیا گیا ہے کہ آپ جانیں اور آپ کا کام۔ اب مریم بی بی کریں گی گھر پر آرام، شہباز پکڑے گا اُونچی اُڑان اور بڑے میاں صاحب کا ہوگا لندن میںقیام۔ اس ساری کہانی کا پس منظر یہ ہے کہ افغانستان سے امریکی فوجی انخلاءکے بعد طالبان کی غیر متوقع مسلسل پیش قدمی نے دنیا کا سیاسی منظر نامہ بدل کر رکھ دیاہے‘ کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ طالبان کو مذاکرات کی میز پر لانے، انہیں افغان مسئلے کا سیاسی حل نکالنے کی طرف راغب کرنے والا ملک آج اس طرح سفارتی تنہائی کا شکار ہوگا کہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے افغانستان کے بارے میں اہم ترین اجلاس میں درخواست کے باوجود مدعو نہ کرنا اور سفارتی سطح پر تمام تر رابطے منقطع کرکے پاکستان پر مسلسل ڈو مور کا وزن ڈالے رکھنے کے پس پردہ کارفرما محرکات بارے جب سوچتے ہیں تو ایک ہی بات سمجھ آتی ہے کہ جب آپ اندرونی طور پر کمزور ہوں تو دشمن آپ کو اس حد تک لے جائے گا جہاں سانس لینا بھی دشوار ہوگا۔ خان اعظم کے دور اقتدار کے آغاز سے انتہا تک تضادات ہی تضادات نظر آتے ہیں۔ امریکہ سے تعلقات ہوں یا سعودی عرب سے، ترکی کے ساتھ مل کر نیا بلاک بنانے کی سوچ ہو یا وسط ایشیائی ریاستوں سے تعلقات کا معاملہ، ایران سے دوستی مستحکم کرنے کی سوچ ہو یا چین سے جڑے سی پیک، دفاعی ومعاشی مفادات، کہیں بھی خان اعظم کا ٹھوس مؤقف نظرنہیں آتا۔ رہی بات مسئلہ کشمیر کی بنیاد پر پاک بھارت تعلقات کی تو یہ معاملہ سلجھنے کی بجائے پہلے سے بھی زیادہ الجھ چکا ہے۔ افغانستان کی موجودہ صورت حال نے خان اعظم کی تمام ملکی و بین الاقوامی کمزوریوں کو ظاہر کرنے میں کسر نہیں چھوڑی۔ اس حقیقت کو کوئی تسلیم کرے یا نہ کرے، آج ریاست خان اعظم کی انہی کمزوریوں کا بوجھ اٹھا رہی ہے۔ خدشہ ہے کہ اگر بروقت ان حالات سے نکلنے کی کوئی سیاسی کوشش نہ کی گئی تو سنگین تر حالات کا سامنا بھی کرناپڑ سکتا ہے۔ حالات نے جو کروٹ بدلی ہے کہا جاسکتا ہے کہ اگر خان اعظم نے کوئی بڑی مہم جوئی نہ کی تو ہم اس مرحلے میں داخل ہورہے ہیں جسے ایک بار پھر تبدیلی کہا جائے گا۔ سیاسی جماعتوں میں توڑ پھوڑ کا عمل تیز ہوگا، وفاداریاں تبدیل ہوں گی، اگر بڑے میاں صاحب عملی سیاست سے دستبردار ہوتے ہیں تو (ن) لیگ کی نئے نظام میں گنجائش رکھی جائے گی۔ بلاول بھٹو تبدیلی کے اس عمل میں اہم ترین ہوتے جائیں گے، پہلی ترجیح اِن ہاؤس تبدیلی ہی ہے۔ ایسے میں خان اعظم قومی اسمبلی توڑ کر عام انتخابات کو ترجیح دینا پسند کریں گے۔ امپائر کی فکر مندی یہی ہے کہ اس کھیل میں حالات کی نزاکت کو سمجھا جائے۔ دھینگا مشتی کم سے کم ہو کہ حالات فوری عام انتخابات کی اجازت نہیں دیتے۔

تازہ ترین