• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
رات کے نو بجے تھے، اندرونِ شہر گھپ اندھیرا تھا، میں نے اپنے ایک دوست کے مکان کا دروازہ کھٹکھٹایا تو مکان کی چھت پر سے ایک بچے نے جھانکا، اس نے قمیص اتاری ہوئی تھی۔
”ماموں گھر پر نہیں ہیں، وہ کہہ گئے تھے کہ جب بجلی آئے گی میں آؤں گا“ یہ سن کر میں نے موٹر سائیکل سامنے واقع پان سگریٹ کی دکان پر کھڑا کیا اور سیٹ پر بیٹھ کر سگریٹ سلگانے لگا۔
عام حالات میں ٹیوب لائٹوں سے جگمگ کرتی یہ دکان اس وقت اندھیرے میں ڈوبی ہوئی تھی، یہاں صرف ایک موم بتی روشن تھی جس کی روشنی میں دکاندار دکان بند کرنے کے لئے اپنی چیزیں سمیٹنے میں مشغول تھا دکان کے چاروں کونوں میں لگے آئینوں میں اس کا عکس ایک ڈراؤنی تصویر کی طرح تھا، گاہک تو اس وقت ایک ادھ ہی تھا، البتہ بجلی بند ہونے کی وجہ سے شدید گرمی نے لوگوں کو ان کے گھروں سے نکال باہر کیا تھا اور اس وقت وہ دکان کے قریب کھڑے ”جلا وطنی“ کی زندگی بسر کر رہے تھے۔
ان میں ایک پچیس چھبیس سالہ نوجوان تھا جس نے لیٹسٹ ڈیزائن کی داڑھی رکھی ہوئی تھی اور کڑھائی والا کرتا پہن رکھا تھا۔ اس کے برابر میں ایک سفید ریش بزرگ تھے جنہوں نے قمیص اتار کر کاندھوں پر رکھی تھی۔ ہاتھ میں کھجور کا پنکھا تھا جسے وہ اس انداز سے جھل رہے تھے کہ ہوا دوسروں تک بھی پہنچے۔
ایک ملنگ بھی یہاں موجود تھا، جس نے ”میکسی“ پہنی ہوئی تھی، ایک چالیس پنتالیس سالہ پہلوان نما شخص دھوتی کو ”منی“ اسکرٹ بنائے یہاں کھڑا تھا، سفید ریش بزرگ سمیت سبھی واپڈا والوں کے عزیز و اقارب کے بارے میں شدید قسم کی گستاخیاں کر رہے تھے۔
ایک میکسی والا ملنگ تھا، جو منہ سے کچھ نہیں کہتا تھا، بس واپڈا کا ذکر آنے پر میکسی کے آخری سرے سے پنکھا جھلنے لگتا تھا، میں ایک جگہ بیٹھے بیٹھے اور اپنے ”ہمسایوں“ کی زبان سے دوچار مخصوص گالیوں کو ”رپیٹ“ ہوتے دیکھ کر بور ہو گیا اور موٹر سائیکل سے اتر کر سڑک پر چہل قدمی کرنے لگا، اندھیروں سے آلودہ سڑک پر گھروں سے بے گھر ہوئے لوگ سخت اضطراب کے عالم میں اِدھر اُدھر ٹہل رہے تھے۔ ایک کتا آسمان کی طرف منہ کر کے فریاد کر رہا تھا، اور انسان بے زبانوں کی طرح اس کے قریب سے گزر رہے تھے، ذرا آگے سڑک کنارے قطار اندر قطار چارپائیاں بچھی تھیں، جن پر اِن گھروں کے مکین سو رہے تھے جن کے پاس کمرہ ایک اور ”مرد ماں بسیار“ ہیں، عورتیں اس ایک کمرے میں جل بھن رہی تھیں، اور مرد باہر گرمی کی شدت سے قمیص اتارے ننگی چارپائی پر بے چینی سے کروٹیں بدل رہے تھے ان میں سے بعض ایک اٹھ کر بیٹھ گئے تھے، اور سرہانے پڑے پنکھے سے ہوا کے مصنوعی جھونکوں کی لہر پیدا کرنے کی کوشش کر رہے تھے۔
برابر کے گھر سے بچوں کے رونے کی آواز آ رہی تھی، اس کے ساتھ ان کی ماں کی بددعاؤں کی آواز بھی شامل تھی، جو بچوں کو چپ کرانے کی کوششوں میں ناکامی کے بعد اس کے ہونٹوں سے نکل رہی تھیں، دل سے نہیں!
میں ایک بار پھر واپس موٹر سائیکل کی نشست پر آ کر بیٹھ گیا، دکاندار شدید جھنجلاہٹ کے عالم میں دکان بند کر رہا تھا، اور ساتھ ساتھ کچھ بڑبڑاتا جاتا تھا۔ یہ بڑبڑاہٹ میں نے سن لی تھی اور واضح طور پر واپڈا والوں کے حسب نسب کے بارے میں تھی۔ سفید ریش بزرگ لیٹسٹ ڈیزائن کی داڑھی والا نوجوان اور منی دھوتی والا پہلوان یہاں سے رخصت تھے، بس وہی ملنگ کھڑا تھا جو پور ے خشوع خضوع کے ساتھ میکسی سے پنکھا جھلنے میں مشغول تھا۔
اتنے میں سڑک پر روشنی کی ایک لہر ابھری اور اس کے ساتھ ہی سکوٹر کی آواز سنائی دی، یہ روشنی سکوٹر کی تھی اور یہ سکوٹر میرے اسی دوست کا تھا، جس کے انتظار میں، میں بیٹھا تھا، اس نے سکوٹر میرے قریب لا کھڑا کیا، اور واپڈا کے بارے میں کچھ اسی قسم کی گفتگو کرنے لگا جسے سن سن کر میرے کان پک گئے تھے۔
”میں مقررہ پروگرام سے کچھ جلد ہی واپس آ گیا ہوں“ دوست نے کہا… ”کیونکہ میں جس دوست کے پاس گیا تھا اس کے ہاں بھی بتی گئی ہوئی تھی اور وہ دوست بھی گھر پر نہیں تھا، اِدھر اُدھر کے دوچار پھیرے لگانے کے بعد میں نے سوچا، گھر چلا جائے“
”یہ تو اچھا ہوا“ میں نے کہا ”ورنہ تم سے ملاقات نہہوتی، کیونکہ میں بھی اب جانے ہی کو تھا۔“
لیکن تم آئے کیسے تھے؟“ دوست نے رومال سے پسینہ پونچھتے ہوئے کہا۔ ”ایک تو تم سے ملاقات کو جی چاہتا تھا۔ ”میں نے موٹر سائیکل سٹارٹ کرتے ہوئے کہا ”اور دوسرے گزشتہ کئی گھنٹوں سے میرے علاقے کی بجلی بھی بند ہے!“ ”تو پھر کیا کیا جائے؟“ دوست نے پوچھا
”کچھ نہیں، بس تم اپنا موٹر سائیکل یہاں کھڑا کرو اور میرے موٹر سائیکل پر آ کر بیٹھ جاؤ!“
دوست نے میرے ”حکم“ کی تعمیل کی اور میں نے موٹر سائیکل اسٹارٹ کر دیا، اس روز میں خلاف معمول اوور اسپیڈ نگ کر رہا تھا اس کی وجہ شاید میرے اندر کا غصہ تھا، میں نے شہر کے دو تین بڑے کلبوں کے چکر کاٹے جن کے باہر بیسیوں نہایت مہنگی گاڑیاں کھڑی تھیں اور ان کاروں میں سے زرق برق لباس میں ملبوس مردوزن ڈنر کے لئے روشنیوں سے جگمگ جگمگ کرتے کلب میں داخل ہو رہے تھے۔ میں نے اسے روشنیوں سے بقہ نور بنے ہوئے چیف منسٹر ہاؤس اور گورنر ہاؤس کا نظارہ کرایا، پھر میں فائیو اسٹار ہوٹلوں کے سامنے سے گزرا یہاں بھی اندھیروں کا کوئی دخل نہیں تھا۔ میں نے ایک چکر شہر کی امیر کالونیوں کا بھی لگایا، یہاں ہر گھر روشن تھا، اس کے بعد میں اسے واپس اس کے محلے میں لے آیا، جہاں اندھیروں کا مکمل راج تھا!
دوست نے پوچھا ”تم نے کس خوشی میں مجھے موٹر سائیکل کے اتنے ”جھونٹے“ دیئے؟“
”میں نے جواب دیا میں تم اور ہم سب لوگ بلاوجہ لوڈ شیڈنگ کے خلاف بک بک کرتے رہتے ہیں۔ “
دوست نے مجھے درمیان ہی میں ٹوک دیا ”یہ بک بک کا لفظ درمیان سے نکالو، اور جو کہنا ہے مہذب اور شائستہ زباں میں کہو“
میں نے کہا ”ٹھیک ہے۔ جناب والا، یہ حقیر پر تقصیر دراصل یہ گزارش کرنے کی ایک سعئی لاحاصل کر رہا تھا کہ ملک میں لوڈ شیڈنگ کا پراپیگنڈہ دراصل امریکی سازش ہے آپ خود ہی غور فرمائیں کہ جن مقامات پر میں حضور فیض گنجور کو لے کر گیا ہوں۔ کیا وہاں آپ کو اندھیرے کی ذرا سی بھی رمق نظر آئی؟“
دوست نے جواب دیا ”نہیں، مگر ان تمام مقامات پر تو بڑے بڑے جنریٹر لگے ہوئے تھے“
میں نے کہا ”آپ نے بجا فرمایا۔ تو بجلی فراہم کرنے والے اداروں کو گالی گلوچ کرنے کی بجائے کیا یہ امر زیادہ قرین انصاف نہیں ہو گا کہ ہم سب لوگ پاکستان کو بدنام کرنے کی امریکی سازش کو ناکام بنانے کے لئے اپنے گھروں کو جنریٹرز سے بقہ نور بنا دیں!“
میری اس مہذب انداز اور شائستہ زبان میں کی گئی گفتگو کے اختتام پر دوست نے کہا ”بکواس بند کرو!“ اور مجھ سے ہاتھ ملائے بغیر اپنے گھر میں داخل ہو گیا!
تازہ ترین