• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
,

74 سالوں میں کھیل کے شعبے میں خوشیاں کم، دکھ زیادہ

کھیل کے میدان میں آزادی کے74برسوں کے دوران ہماری خوشیاں کم اور دکھ زیادہ ہیں، جس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ہم آج تک اپنے ملک میں کھیلوں کا مضبوط اور عالمی معیار کے مطابق ڈھانچہ نہیں بناسکے، ہماری کامیاں اور فتوحات وقتی ثابت ہوئیں جس کی وجہ سے ٹوکیو اولمپکس میں ہم بغیر میڈلز کے واپس آئے، پاکستان نے 1948کے اپنے پہلے لندن اولمپکس گیمز میں سات کھیلوں ایتھلیکٹک ہاکی،باکسنگ، سائیکلنگ،سوئمنگ،ویٹ لفٹنگ اور ریسلنگ کے ایونٹ میں حصہ لیا۔

پاکستان کے دستے میں39کھلاڑی شامل تھے،پاکستان کا سب سے بڑا 62رکنی دستہ 1956ملبورن کے اولمپکس میں شریک ہوا تھا، اس وقت ہمارے پاس سہولتیں کم تھیں مگر ہماری نیت اور ارادے ٹھیک تھے، مگر پھر اختلافات، نیت میں فتور، میرٹ کو نظر انداز کرنے اور اقربا پروری نے ہمیں کھیل کے میدان میں رسواء کردیا،2016کے اولمپکس گیمز میں ہمارا صرف سات رکنی دستہ شریک ہوئے اور2020کے ٹوکیو اولمپکس میں ہمارے صرف دس کھلاڑی شریک ہوئے۔

اس بات سے انکار نہیں کیا جاسکتا ہے کہ ان 74سالوں کے دوران ایک دور ایسا بھی تھا جب ہاکی میں ہماری حکمرانی تھی، اسکواش میں ہماری بادشاہت تھی، اسنوکر کے ہم عالمی چیمپئن تھے، کر کٹ میں عالمی اعزاز ہماری گرفت میں تھا،مگر پھر ناقص منصوبہ بندی سے ہماری جھولی میں سوارخ ہوگیا، تمام عالمی اور ایشیائی اعزازت ہم سے چھن گئے ،وہ ممالک جو پاکستانی کھلاڑیوں سے خوف کھاتے تھے، ہمارے کھلاڑی ان سے ڈرنے لگے،۔پاکستان کی نسیم حمید نے 2010 کے سائوتھ ایشن گیمز میں تیز ترین خاتون کھلاڑی کا اعزاز حاصل کیا۔

پاکستان نے کر کٹ میں حنیف محمد ،مشتاق محمد، انتخاب عالم، آصف اقبال،ماجد خان ،خان محمد ،فضل محمود، سرفراز نواز،ظہیر عباس، جاوید میاں داد،عمران خان، وسیم اکرم، وسیم باری،وقار یونس، جلال الدین،عاقب جاوید، شعیب اختر، شاہد آفریدی، انضمام ا لحق، مصباح الحق،یونس خان اور کئی ان گنت نامور کھلاڑیوں کو جنم دیا، ہاکی میں تنویر ڈار، حبیب الرحمن کڈی،لطیف الرحمان،سمیع اللہ، اصلاح الدین، حسن سردار،منطور جونیئر جیسے ہیرے تراشے مگر اب ہم کر کٹ کے علاوہ ہر کھیل میں اس پوزیشن پر پہنچ گئے ہیں کہ اس کھیل کی قومی ٹیم کے کپتان کے نام سے بھی آشنا نہیں ہیں، یہ سب کچھ ہماری غلط حکمت عملی کا نتیجہ ہے۔

ایک وقت ایسا تھا جب اسکواش میں جہانگیر خان اور جان شیر خان سے مقابلے کا مطلب ہی حریف کی شکست تصور کیا جاتا تھا،طویل کامرانی کے بعد جب جہانگیر خان کو 1986میں اپنے حریف نیوزی لینڈ کے راس نارمن کے ہاتھوں شکست کا سامنا کرنا پڑا تو ان کی ہار کی خبر عالمی میڈیا کی بریکننگ نیوز بن گئی،انہوں نے چھ مرتبہ ورلڈ اوپن، دس بار برٹش اوپن جیتنے کا اعزاز حاصل کیا، ان کے ریکارڈ پر555میچوں میں لگاتار کامیابی بھی ہے جو آج تک کوئی کھلاڑی نہ توڑ سکا، ان کے بعد جان شیر خان نے پاکستان اسکواش کا سنبھالا دیا، انہوں نے چھ مرتبہ برٹش اوپن اور آٹھ بار عالمی چیمپئن شپ جیتی، ان کی ریٹائر منٹ کے بعد پاکستان اسکوش کی عالمی افق پر50سالہ حکمرانی کا سورج غروب ہوگیا، اور آج اس کھیل میں کوئی بھی اعزاز ہمارے پاس نہیں ہے۔

ہاکی میں ایک دور ایسا تھا جب تمام بڑے ٹائٹل ہمارےہاتھوں کا کمال تھے اولمپکس گیمز، ایشین گیمز، چیمپئینز ٹرافی جیسے بڑے اعزاز کے ہم بلا شرکت غیر مالک تھے،ہم نے اولمپکس گیمز میں 1960 (روم) 1968 (میکسیکو) اور 1984( لاس اینجلس) میں گولڈ میڈلز جیتا، جبکہ 1956 ,1964 ,1972میں سلور جبکہ 1976,1992کے اولمپکس میں برانز میڈلز حاصل کئے،ایشن گیمز میں پاکستان نے8,3,3 گولڈ، سلور اور برانز میڈلز جیتے، مگر اس کے بعد ہماری ہاکی زوال کا شکار ہوگئی۔

ہمارے کھلاڑیوں میں سینے پر تمغہ سجانے کا جوش اور جذبہ ناپید ہوگیا اور صورت حال یہ ہوگئی کہ ہم 2016اور2020کے اولمپکس گیمز میں رسائی بھی حاصل نہ کرسکے، ہماری خواتین ہاکی بھی ایک دور میں اچھی پوزیشن پر تھی مگر بعد میں وہ بھی زوال کا شکار ہوگئی،اسنوکر میں محمد یوسف ہماری شان اور پہچان بنے جب انہوں نے1994میں عالمی اسنوکر چیمپئن شپ کا ٹائٹل اپنے نام کیا،انہوں نے2006میں ورلڈ ماسٹراسنوکر چیمپئن شپ جیتی،اسنوکر میں صالح محمد نے بھی 1988سے2006تک عالمی اور ایشائی سطح پر پاکستان کے نام کو روشن رکھا،مگر بعد میں انہوں نے افغانستان کی شہریت حاصل کر لی اور پاکستان چھوڑ گئے۔ 

والی بال میں بھی ہم ایشیا میں چوتھے نمبر تک گئے مگر بعد میں اس کھیل میں بھی ہماری ناکامیوں کا سلسلہ شروع ہوگیا،ایتھلیکٹس میں ایک زمانہ میں پاکستان بام عروج پر تھا کامن ویلتھ گیمز میں عبدالحق نے 200 میٹر میں گولڈ میڈل جیتااس کے علاوہ ایشین گیمز میں عبدالرزاق نے 4 مرتبہ 110 میٹرہرڈلزمیں 4 مرتبہ گولڈ میڈل جیتا،محمداقبال نے ہمرتھرو میں گولڈ ، یعقوب نے 400 میٹر ہرڈلز، جلال اور ایم نواز نے جیولین تھرو میں ، وادی خان نے پول والٹ ، نورخان نے ہمیرتھرو، ایوب نے ڈسکس تھرو، محمدصوفی نے میراتھن ،مبارک شاہ نے 5000 اور 10000 میٹر، محمدرمضان نے لانگ جمپ، ایم نورانی اور محمدیوسف نے ہمیرتھرو، محمدیونس نے 800 اور 1500 میٹرمیں، مرزا خان نے 400 ہرڈلزمیں گولڈمیڈل جیتا۔ 

باکسنگ میں بھی پاکستان ایک زمانے میں ٹاپ پوزیشن پر تھا2008 کے بعد اس کھیل میں ہمارا زوال شروع ہوگیا،ا یشین گیمز میں آخری گولڈ میڈل 2002، بوسان کے گیمز میں مہراللہ نے جیتا تھا، پاکستان کے لیے ایشین گیمز میں حولدار محمدصفدرلائٹ ہیوی ویٹ1962، کیپٹن برکت علی ہیوی ویٹ1962، اقبال محمودلائٹ ہیوی ویٹ1978، امتیازمحمود ہیوی ویٹ 1978،ابرارحسین ولیٹرویٹ 1990ساؤتھ ایشین گیمز میں پاکستان کی جانب سے کئی باکسرز نے گولڈمیڈل جیتے1985 ، 1989 اور 1991 کے ساؤتھ ایشین گیمز میں پاکستان نے باکسنگ کے تمام ایونٹ میں گولڈ ،سلوراوربرائنزمیڈل بھی حاصل کئے جو ریکارڈ ہیں۔ساؤتھ ایشین گیمز 2010 میں نعمت اللہ نے پاکستان کے لیے آخری مرتبہ گولڈمیڈل جیتا، ایشین چیمپین شپ میں 1963 سے 2005 تک پاکستان نے 17 گولڈ، 9 سلوراور16 برائنزمیڈل جیتے ہیں۔

مانچسٹرکے 2002 کے کامن ویلتھ گیم میں حیدرعلی ہزارہ پاکستان کے لیے گولڈمیڈل جتنے میں کامیاب ہوئے تھے۔حسین شاہ نے1988اولمپکس گیمز جنوبی کوریا میںمڈل ویٹ میں پاکستان کے لئے برانز میڈل جیتا، ٹینس میں پاکستان کے کھلاڑی ہارون رحیم نے1980 کی دہائی میں ومبلڈن کے سیمی فائنل تک رسائی حاصل کرنے میں کامیاب رہے،سعید حئی نے تمام گرینڈ سلیم ٹور نامنٹ میں حصہ لیا۔

منیر پیرزادہ، سعید میر نے ٹینس کے عالمی مقابلوں میں اچھی کار کردگی کامظاہرہ کیا،ندا وسیم نے جونیئر ومبلڈن میں پاکستان کی نمائندگی کی، اعصام الھق اور عقیل خان اس وقت عالمی سر کٹ میں پاکستان کی پہچان بنے ہوئے ہیں، پاکستان ٹینس مشکلات کے باوجود اس وقت عالمی ٹینس کے ٹاپ سرکٹ کی ٹیموں میں شامل ہے جو 17سے39درجہ کی ٹیموں پر مشتمل ہے، تاہم ٹینس میں اس وقت بھی ہمیں بہتر تبدیلی لانے کی ضرورت ہے تاکہ ہمارے کھلاڑی اولمپکس گیمز کا حسہ بھی بن سکیں، ٹیبل ٹینس میں عارف خان نے پاکستان کے لئے دو سائوتھ ایشین گیمز 1984 ,1987میں پاکستان کے لئے گولڈ میڈل جیتا، مگر مجموعی طور پر اس کھیل میں ہمارا ریکارڈ بہت اچھا نہیں ہے، کوئی بڑی کامیابی عالمی اور ایشیائی سطح پر ہمارے نصیب کا حسہ نہیں ہے،فٹبال میںماضی کے مقابلے میں ہم اب تباہی کے دہانے پر ہیں،فٹبال کا کھیل آج بھی اس ملک میں ٹھوکرے کھارہا ہے۔ 

دیگر کھیلوں میں بھی ہمارا برا حال ہے، اس وقت ٹوکیو اولمپکس گیمز کے بعد ملک میں کھیلوں کی بہتری کا بیڑا اٹھایا گیا ہے ، ایک بار پھر حکومت اورپی او اے کے درمیان جنگ کا آغاز ہوچکا ہے،ایک پیچ پر نہ رہنے والوں کے درمیان خلیج بڑھ رہی ہے جس کا انجام کیا ہوگا یہ سب کچھ دنوں میں سامنے آجائے گا۔ اس وقت ہمیں ماضی کی طرح نچلی سطح پر کھیلوں کو فروغ دینے کی ضرورت ہے،کیونکہ اصل ٹیلنٹ تعللمی اداروں سےہی ابھرتا ہے جو آگے جاکر نگینہ بن جاتا ہے۔

اولمپکس میں صرف دس میڈلز

پاکستان نے اولمپک گیمز میں اب تک 10 میڈلز حاصل کئے ہیں جس میں سے 8 میڈلز قومی ہاکی ٹیم نے جبکہ ایک ریسلر محمد بشیر اور ایک باکسر حسین شاہ نے حاصل کئے ہیں پاکستان نے 1960،1968اور 1984 گیمز کے ہاکی مقابلے میں گولڈجبکہ 1956 ، 1964 اور 1972 میں سلور، 1976 اور 1992میں برانزمیڈل جیتے جبکہ 1960 کے روم اولمپک میں ریسلنگ کے 73 کے جی میں محمدبشیر نے برانزاور حسین شاہ نے 1988 میں برانزمیڈل جیتا۔

پاکستان نے ایشن گیمز کی میزبانی واپس کردی

پاکستان میں کھیل کے شعبے میں تو اختلافات معمول ہیں مگر ایک وقت ایسا بھی آیا جب حکومتی عہدے داروں کی لڑائی کی وجہ سے پاکستان نے 1978 کے ایشین گیمز کی میزبانی سے انکار کرتے ہوئے اسے واپس کردیا، انٹر نیشنل قومی ایتھلیٹ کوچ محمد طالب نے جنگ سے بات چیت میں انکشاف کیا کہ اولمپکس کونسل آف ایشیا نے پاکستان کو 1978 کے ایشین گیمز کی میزبانی دی مگر اس وقت کے پنجاب کے وزیر اعلی معراج خالد اور وفاقی وزیر کھیل عبد الحفیظ پیرزادہ کے درمیان اس بات پر اختلافات پیدا ہوگئے کہ ایشین گیمز کے مقابلے کراچی یا لاہور میں ہوں گے، اختلافات اس حد تک بڑھ گئے کہ وزیر اعظم ذولفقار علی بھٹو نے پاکستان میں مقابلوں کے انعقاد سے منع کردیا اور پاکستان اولمپکس حکام نے1976 میں ایشیائی حکام کو میزبانی سے انکار کے فیصلے سے آگاہ کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان یہ مقابلے نہین کراسکتا ہے جس کے بعد بنکاک کو میزبانی دی گئی۔

باپ بیٹے اولمپئینز

پاکستان کی جانب سے اب تک سات باپ بیٹوں کو اولمپکس گیمز میں پاکستان کی نمائندگی کا اعزاز حاسل ہے اس میں پانچ کا تعلق ہاکی اور ایک کا باکسنگ سے ہے،ہاکی میں (شیخ محمودالحسن 1952 ،ایازمحمود1982)،(چوہدری غلام رسول1956، اختررسول1972-76)،(سعیدانور1964-1972 ، انجم سعید 1992)،(خواجہ اسلم1952 ، خواجہ جنید1992)،(کرنل ظفرعلی ظفری1960، عامرظفر1988)،اولمپکس میں گولڈمیڈل جیتنے والے با پ بیٹے (منیرڈار1960، توقیرڈار1984) جبکہ باکسنگ میں حسین شاہ( 1988) اور شاہ حسین شاہ(2016اور2020) شامل ہیں۔

ساؤتھ ایشن گیمز، حسین شاہ کا منفرد ریکارڈ

پاکستانی باکسر حسین شاہ کے پاس ساؤتھ ایشن گیمز کا منفرد ریکارڈ ہے، انہوں نے1984سے1991تک لگاتار پانچ سیف گیمز میں گولڈ میڈل جیتا یہ ریکارڈ آج تک قائم ہے، اس زمانے میں یہ مقابلے سیف گیمز کے نام سے ہوتے تھے۔

تازہ ترین
تازہ ترین