• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کی رپورٹ کے مطابق 6 ماہ میں 1726 بے قصور انسان بارود کی خوراک بن گئے۔ یہ عظیم تعداد اپنے اس شہر قائد کی جبینِ ناز کا داغ ہے جس سے ہر صاحب استطاعت پاکستانی اپنی قدرت کے مطابق بیگانہ ہو چلا ہے۔ یہ بحث شاید وقت کا زیاں ٹھہرے کہ مذہبی و سیاسی رہنما کراچی میں قتل عام پر کیوں اپنے حجروں سے باہر نہیں آتے! یا وہ سیاسی جماعتیں جو روشن خیال معاشرے کی داعی ہیں خون انسان کی ارزانی پر کیوں ٹس سے مس نہیں ہوتیں! سوال البتہ یہ ہے کہ وہ اگر مخلص ہوتے تو کیا آج وہی ہوتا جو ہو رہا ہے!؟ اس کی وجہ ظاہر و باہر یہی ہے کہ رہنمایانِ ملت کہتے کچھ اور کرتے کچھ ہیں۔ قول و فعل کا یہی تضاد ہی تھا جس پر ابن آدم کے پہلے قتل کا شاہد نوحہ کناں تھا اور ظاہر باطن کا یہی فرق ہی ہے جو وسائل سے مالا مال اس زرخیز مملکت کو بانجھ بنائے ہوئے ہے۔ قابیل کے ہاتھوں ہابیل کے قتل پر اس جرم کے اولین شاہد کوّے نے یہی تو کہا تھا ”انسان زبان سے تو اللہ تعالیٰ کی محبت کا دم بھرتا ہے لیکن عمل سے اس کی نا فرمانی کرتا ہے اور شیطان سے زبانی اظہار نفرت کے باوجود عملی طور پر اس کی اطاعت میں سرگرم رہتا ہے۔ کتنی عجیب ہے یہ نوع بشر اور کتنا ناقابل فہم ہے اس کا فکری تضاد! “جس سورہ مائدہ میں ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ جس نے کسی ایک بے قصور انسان کا قتل کیا گویا اس نے پوری انسانیت کا قتل کیا اور جس نے کسی ایک انسان کی جان بچائی تو جیسے اس نے تمام انسانوں کی جان بچائی۔ اسی سورہ مبارکہ کی آیت نمبر 31 کی تشریح کے مطابق جب قابیل نے ہابیل کو قتل کیا تو خدائے بزرگ و برتر نے لاش چھپانے کیلئے ایک کوّے کو بھیجا تاکہ قابیل لاش دفنانے کا طریقہ جان لے۔
مصر کے مایہ ناز مصنف ڈاکٹر بہجت نے اپنی کتاب ”قصص الحیوان فی القرآن“ جس کا اردو ترجمہ غضنفر حسین بخاری (مرحوم) نے کیا ہے، میں جہاں اس واقعے کا ذکر ہے وہاں کوّے کی زبانی انسانی سرشت اور اس کے قول و فعل کے تضاد کو نہایت خوبصورت پیرائے میں بیان کیا گیا ہے۔ ”میں کوّا ہوں“ کے عنوان تلے کوّا اظہار فخر کرتے ہوئے کہتا ہے… ”جب قابیل اپنے بھائی ہابیل کو قتل کر کے اس کی لاش کندھے پر اٹھائے ٹھکانے لگانے میں ناکام رہا تو میں نے ہی با امر الٰہی اسے دفنانے کی ترکیب سکھائی تھی“۔کوّا مزید کہتا ہے ”لوگ کہتے ہیں کہ کوّے کے پروں پر کبھی بڑھاپا نہیں آتا! میں کہتا ہوں کہ ابن آدم کے قتل کا جو نظارہ میں نے دیکھا ہے اگر کوئی اس طرح دیکھ کر اپنے ہوش و حواس قائم رکھ سکے تو پھر کوئی بڑی سے بڑی مصیبت بھی اسے بوڑھا نہیں کر سکتی! دنیا والے اپنی سیہ بختی کے دنوں کو کوّے کے پروں کے رنگ سے تشبیہ دیتے ہیں اور ہمارے رنگ کی سیاہی ان کے ذہنوں پر اتنی گراں گزرتی ہے کہ وہ اس سے بد شگونی لیتے ہیں لیکن جب خود انسان کا دل سیاہ ہو جاتا ہے تو اس کے سامنے کوّے کے جسم کے سیاہ ترین پروں کی سیاہی بھی ماند پڑ جاتی ہے! یہیں پر بس نہیں کہ کوّے کی چال تک کا مذاق اڑایا جاتا ہے کہ وہ پھدکتا اور ایک ٹانگ پر ایسے اچک اچک کر چلتا ہے جس طرح کوئی دیوانہ دہکتے ہوئے کوئلوں پر چلتا ہے۔ میں مانتا ہوں کہ ہماری چال غیر متوازن ہے لیکن کیا کوئی متنفس مخلوق انسان کے ہاتھوں اپنے ہی بھائی پر توڑے جانے والے مظالم کا تماشا دیکھ کر بھی سیدھی اور ہموار چال چلنے کے قابل رہ سکتی ہے! دنیا میں انسانوں کی آمد سے پہلے ہم اپنے اسی رنگ کے ساتھ شاہانہ وقار کے ساتھ اترا اترا کر چلا کرتے تھے لیکن جب ہم نے اشرف المخلوقات کے ہاتھوں اپنے بھائی کے وحشیانہ قتل کا ہولناک منظر دیکھا تو دہشت و ہیبت سے ہماری چال ہی بگڑ گئی!“
آگے چل کر کوّا حضرت انسان کی دو عملی کی مزید نقاب کشائی کرتا ہے۔ ”انسانوں کا عقیدہ ہے کہ کوّے کی آواز منحوس ہوتی ہے۔ میں (کوّا) کہتا ہوں کہ بعض اوقات انسان خود کسی نا مبارک منصوبہ بندی میں مصروف ہوتا ہے، جب کوّے کی آواز اس کے کانوں میں پڑ جاتی ہے تو وہ اس وقت اپنے کرتوت بھول جاتا ہے اور اس کے نتائج بد کو کوّے کی آواز کی نحوست قرار دیتا ہے۔ یہ بنی آدم کا پرانا حیلہ ہے اور اپنے جرم کو دوسروں کے سر تھوپ دینا ان کی قدیم عادت ہے۔ دراصل دنیا میں ایسی کوئی مخلوق موجود نہیں جو انسانوں کی طرح اپنی ذات کو فریب دیتی ہو! ہم پر الزام ہے کہ ہم صابن کی ٹکیہ اور سرمہ دانیاں اچک لے جاتے ہیں۔ ہمیں ان سے کیا سروکار۔ ہم انسان تو نہیں ہیں کہ ان کا استعمال کر کے اپنے ظاہر و باطن میں فرق پیدا کر لیں! ہم پر مادر پدر آزادی کی تہمت بھی لگائی جاتی ہے۔ ہمارے جسم کی بد رنگی اور کثافت انسانوں میں ضرب المثل بنی ہوئی ہے۔ اسی طرح ان کے خیال میں ہماری سیہ فکری بھی امکان کی آخری حدوں کو چھو رہی ہے لیکن انسان تو بزعم خود اپنے بدن کی گندگی اور ناپاکی کو صابن کی مدد سے دور کر لیتے ہیں لیکن ہم…! ہم میں اشرف المخلوقات کے شریفانہ اور مثالی اخلاق کے تماشے دیکھنے کے بعد ایسی شدھ بدھ ہی کہاں باقی رہی ہے کہ اپنے بد باطن کو ظاہریت کے سرپوش سے چھپا سکیں۔
آگے سنیے… ”کوؤں میں تو میں قاضی ہوں اور یہ کردار میں نے غیر جانبداری سے انجام دیا لیکن جب شاہد بن کر انسانی دنیا میں آیا تو بنی آدم کے تصرفات دیکھ کر میرے ہوش و حواس جواب دے گئے اور اس محرومی پر میں نے چیخ چیخ کر اپنی آواز بگاڑ لی۔
ہمارے ہاں اگر کوئی کوّا کسی کی مادہ کو بھگا لے، تو پکڑنے پر تمام کوّے ٹھونگیں مار مار کر مجرم کو ہلاک کر دیتے ہیں۔ ایسے ہی ایک اغوا کے کیس میں جب مجرم کو ٹھونگے مار مار کر رجم کر دیا گیا تو میں اس کی لاش ٹھکانے لگانے کیلئے چل نکلا۔ میں قابیل کے ہاتھوں ہابیل کے قتل کا واقعہ دیکھ چکا تھا، جب میں مردہ کوّے کو چونچ میں پکڑے دفن گاہ کی جانب اڑ رہا تھا تو مجھے محسوس ہوا کہ کوئی مخفی طاقت مجھے ہابیل کی طرف ہانکے لے جا رہی ہے۔ مجھے قابیل سے نفرت تھی۔ میں اس کی طرف نہیں جانا چاہتا تھا لیکن میں غیر ارادی طور پر اپنے بوجھ سمیت قابیل کے سامنے اتر گیا۔ کوّے کی لاش کو زمین پر رکھ کر میں نے اپنے پنجوں اور چونچ سے زمین کھودی۔ پھر کوّے کی لاش کے برابر سے وسیع کیا، پھر اسے لحد میں رکھ دیا اور دو مختصر اور الوداعی چیخوں کے بعد میں نے اس پر مٹی ڈال کے زمین کو برابر کر دیا۔ پھر میں نے ابن آدم کی طرف ہو کر نظروں ہی نظروں میں کہا ! ہم نے اس کوّے کو عدل کے تقاضوں کے مطابق موت کی سزا دی اور مجرم ثابت ہونے کے باوجود اس کی لاش کے احترام کو ملحوظ رکھا۔ لیکن اے نا خلف قابیل، تم انسانیت کی روشن پیشانی پر جس کی نمائندگی پر آدم اور اجراء پر ہابیل مامور تھے، بدنما داغ ہو“ اور مت بھولو کہ اگر مشیت ایزدی کو لاش کی حرمت ملحوظ نہ ہوتی اور اس کے ذریعے ابن آدم کیلئے دستور کی تشریح مقصود نہ ہوتی تو تم قیامت تک اپنے قبیح جرم کے اس بوجھ کو لئے لئے پھرتے… پھر میں نے جی بھر کر اپنی زبان میں اس پر لعنت کی اور پرواز کر گیا۔
اس دوران میں نے دور سے قابیل کی ندامت بھری فریاد سنی، وہ کہہ رہا تھا ”افسوس میں اس کوّے جیسا بھی نہ ہو سکا کہ اپنے بھائی کی لاش چھپا سکوں“۔ (سورہ مائدہ آیت نمبر 31) پچھتاوے کے شدید احساس سے بوجھل یہ فریاد سن کر میں نے پوری طرح محسوس کیا کہ وہ ذہنی عذاب کی آگ میں جل رہا ہے لیکن میری سمجھ میں نہ آ سکا کہ اس ندامت کا منبع کیا ہے! میں ابن آدم کے اعمال کا شاہد بھی رہا ہوں اور کچھ وقت کیلئے اس کا استاد بھی لیکن پھر بھی معرفت میرا منصب نہیں اور نہ ہی راز آفرنشین کا مجھے کچھ علم ہے، شاید انسان کو اس کا علم ہو…!
تازہ ترین