• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

گزشتہ جمعرات کو کابل ایئرپورٹ پر خود کش دھماکے ہوئے ۔ افغانستان پر طالبان کے قبضے کے بعد یہ دہشت گردی کی پہلی اور سب سے بڑی کارروائی تھی ۔ ان خود کش دھماکوںنے اس مفروضے کا خاتمہ کردیا ہے کہ طالبان افغانستان کو کنٹرول کر سکتے ہیں ۔ کابل ایئرپورٹ کے واقعہ سے یہ امید بھی ختم ہو گئی کہ طالبان کی حکومت بننے سے افغانستان میں امن قائم ہو سکتا ہے ۔

یہ انتہائی تشویش ناک اور مایوس کن صورت حال ہے ۔ عالمی طاقتوں کی گریٹ گیم میں افغانستان اس مرحلے پر پہنچ گیا ہے کہ نہ صرف افغان عوام کو طالبان کی حکومت قبول کرنے پر مجبور کر دیاگیا ہے بلکہ بیرونی دنیا کے لئے بھی یہی آپشن رہ گیا ہے کہ وہ طالبان کو ایک سیاسی قوت تسلیم کرتے ہوئے ان سے بات کریں ۔ دنیا یہ بات سمجھ چکی ہے کہ امریکہ اور اس کے نیٹو کے اتحادی ممالک کی ہمارے خطے میں فوجی موجودگی کے لئے پہلے طالبان جواز مہیا کرتے رہے اور اب امریکہ نے افغانستان سے انخلا کے ذریعے ڈرامائی انداز میں طالبان کو افغانستان پر قبضہ کرنے کا مکمل موقع فراہم کیا ہے ۔ ایک رپورٹ کے مطابق امریکی 85ارب ڈالر کا سامان چھوڑ گئے ہیں ، جو طالبان کے ہاتھ آگیا ہے ۔ ان میں 75ہزار گاڑیاں ، 200سے زائد طیارے اور ہیلی کاپٹرز اور 6لاکھ سے زائد چھوٹے ہتھیار شامل ہیں ۔ رپورٹ کے مطابق طالبان کے پاس دنیا کے 85 فیصد ممالک سے زیادہ بلیک ہاک ہیلی کاپٹرز ہیں ۔ ہتھیاروں کے علاوہ ان کے پاس راتوں کو دیکھنے والے چشمے ، باڈی آمرز اور بائیو میٹرک ڈیوائسز بھی موجود ہیں ۔ یہ سب کیسے ہوا ؟ ہرایک جان چکا ہے۔ 20سال تک نیٹو افواج نے طالبان کے خلاف کام کیا اور 20سال بعد جیسے ہی یہ افواج افغانستان سے نکلنا شروع ہوئیں ، طالبان نے اندازوں سے بھی پہلے کابل کو فتح کر لیا ۔ 2001ءکے نائن الیون کے واقعہ کی طرح طالبان کی حالیہ فتوحات بھی ایک پوشیدہ راز یا پر اسرار ہیں۔ یہ بھید وقت کے ساتھ ساتھ کھلتے رہیں گے ۔

امریکہ کی عالمی بالادستی کو چیلنج کرنے والی قوتیں خصوصاً چین ، روس ، ایران اور ان کے دیگر اتحادی ممالک اس حقیقت کو سمجھنے کے باوجود طالبان سے مذاکرات کرنے کےلئے تیار ہیں تاکہ افغانستان میں استحکام پیدا ہو اور امریکہ کی اس خطے میں موجود گی کا جواز ختم ہو ۔ وہ یہ سمجھتے ہیں کہ افغانستان کو طالبان کے حوالے کرنے کی امریکی حکمت عملی کا مقصد چین کے ون بیلٹ ون روڈ منصوبے کو سبوتاژ کرنا ہے ۔ یہ مقصد خطے میں بدامنی سے ہی حاصل کیا جا سکتا ہے ۔ اس کے باوجود چین ، روس ، ایران وغیرہ نے طالبان سے بہتر تعلقات قائم کرنے کی پالیسی بنائی تاکہ خطے میں بدامنی پیدا کرنے کا امریکی مقصد حاصل نہ ہو سکے ۔

کابل ایئرپورٹ پر دہشت گردی کی کارروائی نے اب معاملات کا رخ بدل دیا ہے۔ اس کارروائی کی ذمہ داری داعش (خراسان ) نے قبول کی ہے ۔ اب افغانستان کے منظر نامے پر ایک اور طاقتور فریق سامنے آگیا ہے ، جس نے بتا دیا ہے کہ معاملہ طالبان کی حکومت کے قیام کے ساتھ ختم نہیں ہو گا ۔ طالبان نے اگرچہ افغانستان کو اسلامی جمہوریہ کی بجائے امارت اسلامی افغانستان بنانے کا اعلان کیا ہے ، جس کا مطلب یہ ہےکہ افغانستان میں امیر المومنین بلا شرکت غیرے حکمران ہو گا اور جمہوری عمل کی گنجائش نہیں ہو گی لیکن دنیا یہ توقع کر رہی تھی کہ طالبان کے غلبے والی حکومت میں افغانستان کی دیگر سیاسی قوتوں خصوصاً شمالی افغانستان کی غیر پختون سیاسی قوتوں کو بھی شامل کیا جائے گا اور یہ مخلوط حکومت آگے چل کر افغانستان کیلئے کسی جمہوری راستے کا تعین کرے گی ۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ افغانستان میں امن قائم ہو گا اور اس کے نتیجے میں خطے میں استحکام پیدا ہو گا لیکن اب ایسا نہیں لگ رہا ۔

داعش خراسان دراصل داعش کے عالمی نیٹ ورک کا حصہ ہے۔امریکہ لاکھ یہ باور کراتا رہے کہ وہ طالبان ،داعش ، بوکوحرام ، القاعدہ اور اس جیسی دیگر تنظیموں کے خلاف ہے لیکن شام میں داعش کو امریکی حمایت کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔ اس مرحلے پر امریکی وزارت دفاع پینٹا گون کی ایک رپورٹ یاد آ رہی ہے ، جس میں کہا گیا تھا کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ آئندہ 20سال تک جاری رہے گی کیونکہ القاعدہ اور طالبان کے بعد اگلے مرحلے میں داعش دنیا کےلئے خطرہ ہو گی ۔

جو طاقتیں افغانستان سمیت اس خطے میں امن کی خواہاں ہیں ، انہیں اندازہ ہو گیا ہو گا کہ افغانستان میں نیا کھیل کھیلا جا رہا ہے۔ انہیں ایک ایسا وقفہ ملا ہے ، جس میں وہ افغانستان کی تمام نمائندہ سیاسی قوتوں کو متحرک کرکے ایک مشمولہ حکومت قائم کرنے کی کوشش کر سکتی ہیں ۔ افغانستان کی صورت حال بہت زیادہ خراب ہے ۔ داعش کی کارروائیوں میں اضافے سے معاملات کو سدھارنے اور افغانستان میں قیام امن کی کوششوں میں شدید رکاوٹیں پیدا ہو سکتی ہیں ۔ افغانستان مزید تباہی کی طرف جا سکتا ہے اور اس سے ہمارے خطے کا امن اور ترقی کا عمل بھی سبوتاژ ہو سکتا ہے ۔ 1973ء میں افغانستان میں بادشاہت ختم ہوئی اور یہ ملک ری پبلک بن گیا ۔ 1978 ء میں ثور انقلاب کے بعد افغانستان ڈیمو کریٹک ری پبلک بن گیا لیکن پھر واپسی کا عمل شروع ہوا ۔ افغانستان امارت اسلامی سے اسلامک ری پبلک بنا ۔ پھر امارت اسلامی میں تبدیل ہو گیا ہے اور اب داعش یہاں خلافت کا نظام نافذ کرنا چاہتی ہے ۔ افغانستان اور اس خطے کو مزید تباہی و بربادی سے بچانے کے لئے خطے کے ممالک افغان عوام کا ساتھ دیں اور اپنی کوششوں کو تیز کرکے افغانستان میں وسیع تر حکومت کے قیام کو جلد از جلد ممکن بنائیں ۔ طالبان کی ناکامی کا انتظار نہ کریں ۔ کابل کے خود کش بم دھماکوں میں 170سے زائد بے گناہ لوگوں کے ساتھ قیام امن کی امید کا بھی قتل ہوا ہے۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین