• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
تین بڑی سیاسی پارٹیوں کی الیکشن کے بعد کی کارکردگی کا جائزہ لیں تو نظر آئے گا کہ سب ایک عبوری دور سے گزر رہی ہیں اور خوداعتمادی کی کمی ہے۔ ن لیگ اور میاں نواز شریف ابھی تک اپنی سمت اور پالیسی واضح نہیں کر سکے وہ لوگوں سے مل رہے ہیں اور اندازے لگانے کے مرحلے سے آگے نہیں بڑھے۔ فوج،ISI، بلوچستان لوڈشیڈنگ سب پر میٹنگ میٹنگ کھیل رہے ہیں کچھ پتہ نہیں بڑے چوروں کو پکڑنے کے بارے میں ان کی کیا پالیسی ہے۔ بڑے بڑے چور سب بھاگ رہے ہیں اور نیب کا ابھی تک کوئی سربراہ ہی نہیں۔ یوں تو یہ ایک پالیسی بھی ہو سکتی ہے۔ مشرف کا کیا ہو گا کچھ پتہ نہیں۔ 2 مئی کی رپورٹ یوں تو مارکیٹ میں آگئی ہے مگر سرکار کی پالیسی کا کچھ پتہ نہیں لگ رہا ہے حکومت ادھر سے ادھر اور ادھر سے ادھر ہچکولے کھا رہی ہے یعنی Drift کر رہی ہے یا تو صدر زرداری اور جنرل کیانی کے رخصت ہونے کا انتظار ہے یا پھر کچھ اور معاملہ ہے مگر ابھی تک قوم سے خطاب کا مرحلہ نہیں آیا تاکہ اہم موضوعات پر پالیسی واضح کی جائے۔ ہاں کچھ لوگ جلدی میں ضرور ہیں جو حکومت کے لئے کوئی اچھا پیغام نہیں دے رہے یعنی جس طرح IPPs کو 300 یا500 ارب روپے کھڑے کھڑے ادا کئے گئے (حالانکہ آئی پی پیز والوں کا موقف ہے کہ انہیں پانچ سال سے ادائیگیاں ہی نہیں کی گئیں اور یہ ان کا حق تھا)اس سے لگا یہ ایک فوری فیصلہ کرنا ضروری تھا گو لوڈشیڈنگ میں ابھی کوئی فرق نہیں پڑا یا چین کی کمپنی کو 35/ارب روپے زیادہ ادا کرنے کا فیصلہ اور اس کے بطن سے نکلتا ہوا نندی پور کا15/ارب روپے کا اسکینڈل ( وزیر اعظم اس معاملے کا پہلے ہی نوٹس لے چکے ہیں)یا PIA کے پہلے بورڈ کے اجلاس میں مطالبہ کہPIA کو فوراً نجی شعبے کو بیچ دیا جائے اور جب دو موجود ڈائریکٹرز نے اعتراض کیا تو کئی بڑے لوگوں کے ماتھے پر بل پڑ گئے۔یہ سب ٹھیک نہیں ہو رہا اسی طرح جناب سعد رفیق جو اب نئے غلام احمد بلور بن گئے ہیں (ن لیگ کے) ان کا کبھی چینی کمپنیوں کے خلاف بیان دینا اور کبھی حمایت میں کچھ سمجھ میں نہیں آیا۔ میں نے ان کو فون کر کے پوچھ ہی لیا کہ بھائی کیوں اتنے کنفیوزڈ لگ رہے ہیں انہوں نے بڑے معقول جواب دیئے اور یقین دلایا کوئی گڑ بڑ نہیں ہونے دیں گے مگر یہ نوکر شاہی ہر ایک کو شیشے میں اتارنے کا گر جانتی ہے تو سعد رفیق صاحب بھی ریلوے کے چیئرمین جو ہر اس گڑ بڑ میں شامل تھے جس نے غلام بلور کی گاڑی پٹڑی سے اتار دی ان کی تعریفیں کر رہے ہیں مگر اس بیان کے ساتھ کہ اب وہ میری بات سنیں گے، میں ان کی بات نہیں مگر یہی تو طریقہ ہے نوکر شاہی کی چالاکیوں کا۔ یعنی انہوں نے وزیر صاحب کو قائل کر لیا کہ چین سے آنے والے58 انجن امریکی ساخت کے ہیں گو کہ یہ بات ریلوے کے ریکارڈ پر موجود ہے کہ یہ انجن صرف ریلوے اسٹیشن پر Shunting کے کام تو آسکتے ہیں سیکڑوں اور ہزاروں میل گاڑیاں لے جانے کیلئے دنیا میں کہیں استعمال نہیں ہوتے۔ ابھی سعد رفیق سے بات چیت جاری رہے گی۔
ادھر عمران خان کی پی ٹی آئی جس دور سے گزر رہی ہے وہ بھی سیاست کا عجیب دور ہے۔ خان صاحب کہتے ہیں کوئی لیڈر دو عہدے نہیں رکھ سکتا مگر ان کے وزیراعلیٰ فرماتے ہیں مجھے ووٹ ملے ہیں اور میں نہ مانوں، زیادہ شوق ہے تو خان صاحب ان کی CEC میں ووٹنگ کروالیں یعنی پی ٹی آئی میں کوئی مروجہ دنیا کا اصول نہیں مانا جائے گا اگرCEC کے جتنے بھی ممبر ہیں ان کی 51 فیصد اکثریت ووٹ دے دے۔ یہ تو ایک مذاق ہو گا خان صاحب کو ذرا پارٹی کے اندر کنٹرول بڑھانا پڑے گا کہ اگر اصولوں کی سیاست کرنی ہے تو پھر پارٹی میں جمہوریت کے نام پر اصولوں کا مذاق نہ اڑایا جائے۔ خان صاحب نے KPK کو ماڈل صوبہ بنانے کا اعلان تو کیا ہے مگر کیا وزیراعلیٰ خٹک صاحب ہمارا نیا ماڈل ہیں وہ ہیلی کوپٹر لے کر دوست کے گھر چلے جاتے ہیں اور پھر جب ڈانٹ پڑتی ہے تو معافی بھی نہیں مانگتے، کیا یہ رول ماڈل کا نیا ماڈل ہے یعنی 2013 ماڈل، تو پھر حمزہ شہباز کیوں برے بن رہے ہیں۔ عمران خان کو KPK میں فوری اور بہتر قیادت لانے کے لئے جلدی کچھ کرنا ہو گا یہ موجودہ لیڈر کسی کو انسائپر نہیں کرسکے نہ کر سکتے ہیں۔ ابھی PTI کا اپوزیشن کا رول بھی کھل کر سامنے نہیں آیا مگر ایک بات تو عمران خان ٹھیک کہہ رہے ہیں کہ نواز شریف، جنرل کیانی اور وہ کسی ٹھنڈی جگہ بغیر کسی اور کی مداخلت کے کچھ گھنٹے بیٹھیں تاکہ ایک دوسرے کو سچ بول کر اعتماد میں لیا جا سکے۔ اگر بڑے پیمانے پر ایک سچ بولنے کا کمیشن نہیں بن سکتا کیونکہ ہمارے لیڈروں اور خواص میں سچ بولنے اور سننے کی صلاحیت ذرا کم ہے تو کم از کم نتھیا گلی کے کسی ریسٹ ہاؤس میں جسے خفیہ کیمروں یا مائیک لگا کرBug نہ کیا گیا ہو تین بڑے یعنی نواز شریف، جنرل کیانی اور عمران خان بیٹھ جائیں اور ایک دوسرے کو اپنی مجبوریاں اور دکھڑے سنا دیں۔ ہو سکتا ہے اس کے بعد تینوں ایک ایسی پالیسی بنا سکیں جو حقیقت سے زیادہ قریب ہو اور اس پر عمل بھی ممکن ہو ورنہ شک وشبہات کی دلدل میں کوئی پالیسی نہیں چلے گی۔
ان تینوں بڑے لیڈروں کو کراچی کی صورتحال پر بھی کھل کر بات کرنی چاہئے۔ جو نظر آرہا ہے وہ اچھا نہیں۔ جیسے ہی لندن میں مقدمات آگے بڑھتے ہیں کراچی میں حالات بگڑتے جائیں گے۔ سنا ہے اب ستمبر کا آخر وہ وقت ہے جب بڑے بڑے بت گرنا شروع ہونگے کراچی ظاہر ہے ہر بری خبر پر ردعمل دکھائے گا اور یہ بات نواز شریف اور جنرل کیانی یا ان کے جانشین کیلئے باعث پریشانی ہو گی۔ مگر عمران خان کی پارٹی کیلئے نئے مواقع ابھر کر سامنے آگئے ہیں جو خلا متحدہ کی قیادت کی مشکلات کی وجہ سے پیدا ہو گا اس کو کوئی دوسری پارٹی کیش نہیں کر سکتی سوائے پی ٹی آئی کے۔ حیران کن بات ہے کہ 11 مئی کے الیکشن میں PTI نے متحدہ کے مقابلے میں لاکھوں ووٹ لئے حالانکہ ان کے امیدوار ایک سے زیادہ سیٹ نہیں جیت سکے مگر کراچی والوں نے بتا دیا کہ اب پی ٹی آئی ہی ان کی دوسری پارٹی ہے مگر عمران خان نے ابھی تک کراچی میں اپنی پارٹی کو تیار نہیں کیا کہ وہ متحدہ کی جگہ کیسے لیں گے۔ چاہئے تو یہ تھا کہ پی ٹی آئی والے ایک کراچی کی قیادت کیلئے صاف ستھری اور اچھی ٹیم سامنے لاتے۔ جن لاکھوں لوگوں نے پی ٹی آئی کو بغیر پولنگ ایجنٹ اور انتخابی مہم کے ووٹ دیئے ان کو موبیلائز اور ایکٹیو کرتے، خود عمران خان کراچی میں زیادہ وقت دیتے اور ایک متبادل قیادت سامنے لاتے تاکہ وہ سیاسی خلا جو متحدہ کی وجہ سے پیدا ہو گا وہ پی ٹی آئی پر کر سکے۔ پی ٹی آئی کو آنے والے بلدیاتی الیکشن میں بھرپور حصہ لینا ہے اور کراچی میں اپنا سیاسی رول ادا کرنا ہے۔ خود متحدہ کے اچھے لوگ بھی پی ٹی آئی میں شامل ہو سکتے ہیں اور کراچی کا سیاسی کلچر اور منظر نامہ دوبارہ ایک خوف اور گولی اور بوری اور بندوق سے بدل کر ایک پڑھے لکھے شہر کی ماڈرن اور نئے دور کی سیاست کی طرف واپس آسکتا ہے۔ عمران خان کیلئے جتنا بڑا اب موقع ہے کراچی کو ٹیک اوور کرنے کا پھر کبھی نہیں ملے گا اور سوچیں آج کی 40 سیٹوں میں اگر کراچی کی 25 یا 30 اور ملا دیں تو پی ٹی آئی اگلے الیکشن میں سب سے بڑی پارٹی بننے کو تیار نظر آئے گی صرف پنجاب میں تھوڑی بہتر کارکردگی دکھانی ہو گی جو مشکل نہیں اس لئے عمران خان کو کے پی کے میں خٹک صاحب کے مزاج درست کر کے فوراً کراچی کا رخ کرنا چاہئے۔ اب رہ گئیPPP تو یہ بے چارے اربوں کھربوں کے مالک اب صرف جان اور مال کی حفاظت کی دوڑ میں ہی مشغول ہیں اور رہیں گے۔ صدر زرداری تو وقت سے پہلے یعنی دو ہفتے بعد ہی6/اگست کو Lame Duck یعنی لنگڑی بطخ ہو جائیں گے۔ وہ تو شاید واپس بھی نہ آئیں کیونکہ بلال شیخ کے بعد وہ بے بس، بے یارومددگار سے نظر آتے ہیں باقی لیڈروں کو تو کوئی پوچھتا ہی نہیں وہ لسٹ جس میں جگری یار اور مال بناؤ پارٹی شامل تھی، اب بکھر چکی ہے۔ ہر اسکینڈل میں اشارے نیچے سے اوپر ہی کی طرف جا رہے ہیں مگر کچھ عجیب بیانات بھی سامنے آئے ہیں مثلاً دو وزیراعظم کہتے ہیں ان کے وزیر اور مشیر کرپشن میں ملوث تھے وہ خود نہیں۔ ہیں کیا وزیر بڑا ہوتا ہے یا وزیر اعظم اور اس کے اوپر تو پھر خدا ہے یا ایوان صدارت۔
تازہ ترین