• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

یہ دنیا کیا ہے؟ کن اصولوں پر قائم ہے؟ زندگی کیا ہے؟ انسان یہاں کیا کر رہا ہے اور اُسے شعور کی یہ آنکھ کیوںکر عطا ہوئی؟ خوشی اور غم پہنچانے والی چیزیں کیا ہیں اور کیوں ہمیں بار بار اُن سے واسطہ پڑتا ہے؟

تخلیق کی یہ کہانی کیسے شروع ہوئی؟ 13ارب سال پہلے کی بات ہے، ایک دھماکے کے نتیجے میں ہائیڈروجن گیس پیدا ہوئی۔ اس ہائیڈروجن گیس سے سورج بنے، جن میں سے ایک ہمارا سورج بھی ہے۔ یہ سورج ہمیں بہت بڑا اور روز صبح کے وقت مشرق سے طلوع ہوتا ہوا نظر آتا ہے جبکہ دوسرے سورج بہت دور ہیں اور اس فاصلے کی وجہ سے چھوٹے اور ٹمٹماتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ ہم انہیں ستارے کہتے ہیں۔ ایکطویل عرصہ تک انسان کو یہ بھی معلوم نہیں تھا کہ آسمان پر جو ٹمٹماتے ہوئے ستارے نظر آتے ہیں، ان میں سے ہر ایک بھی اپنی جگہ پر ایک مکمل سورج ہے۔ ان کے گرد بھی زمینیں اسی طرح گھوم رہی ہیں، جیسا کہ ہمارے سورج کے گرد۔ان سورجوں کے اندر ہائیڈروجن گیس کو بطور خام مال استعمال کرتے ہوئے دوسرے عناصر پیدا ہونا شروع ہوئے۔ ان عناصر کی کل تعداد 92تھی۔ ان 92عناصر میں سے ایک کا نام لوہا ہے۔ ان میں سے ایک کا نام آکسیجن ہے اور ایک کا کیلشیم۔ جب یہ 92عناصر ایک دوسرے سے ملے تو ان کے ملنے سے عجیب و غریب چیزیں بنیں۔ دو چیزیں جو جلنے والی ہوتیں، ان کے ملنے سے بجھانے والی چیز بن گئی۔ ہائیڈروجن گیس دھماکے سے جلتی ہے، آکسیجن جلنے میں مدد دیتی ہے۔ ان دونوں کے ملنے سے پانی بن گیا، جو بجھاتا ہے۔ اسی طرح آکسیجن جب ایک عنصر کے ساتھ ملی تو اسے کچھ بنا دیا، دوسرے عنصر کے ساتھ ملی تو اسے کچھ سے کچھ کر دیا۔ یوں یہ 92عناصر زمین و آسمان کی ہر وہ چیز بناتےگئے اور بنا رہے ہیں جو ہم دیکھ سکتے ہیں۔

یہ زندہ چیزیں کرۂ ارض کے علاوہ کسی اور سیارے،یا ان کے کسی چاند پر بھی دریافت نہیں ہو سکیں۔ وہاں لوہا پڑا ہوگا، کاربن ہوگا، ہائیڈروجن ہوگی لیکن یہ سب مل کر زندہ چیزیں نہیں بنا سکے۔ زندہ اشیا جوڑوں کی شکل میں پیدا ہوئیں ، جیسے انسانوں میں مرد اور عورت۔ ان میں اپنی نسل کو آگے بڑھانے اور اس کی حفاظت کی خواہش تھی۔ یہ جاندار چیزیں اس قدر زیادہ تعدا د میں تھیں کہ ان کی درست تعداد گنی بھی نہیں جا سکتی۔ ایک اندازہ یہ ہے کہ اس وقت 87لاکھ قسم کی مخلوقات زمین پرزندگی گزار رہی ہیں۔ فاسلز کا ریکارڈ دیکھا جائے اور اِس حوالے سے ڈیٹا سپر کمپیوٹرز میں ڈالا گیا تو اس سے ایک اندازہ یہ قائم کیا گیا کہ ماضی میں 5ارب قسم کی مخلوقات اس زمین پر زندگی گزار چکی ہیں۔ ماضی کی ان پانچ ارب اور حال کی ان 87لاکھ مخلوقات میں سے ایک، صرف ایک کا نام انسان ہے۔ یہ الگ بات کہ آج انسانوں کی تعداد بھی آٹھ ارب کے قریب ہو چکی۔

یہ سات ارب سے زیادہ انسان اسی زمین سے اگنے والی گندم، چاول، پھل اور سبزیاں کھاتے ہیں۔ اسی زمین پر پیدا ہونے والے جانوروں کو ذبح کر کے کھاتے ہیں۔ انسان تو خیر عقلمند ہے۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ باقی 87لاکھ قسم کی مخلوقات کی ضروریات بھی پوری ہو رہی ہیں۔ چاہے وہ گلی میں پھرتا آوارہ کتا ہے یا پھر گٹر میں جنم لینے والا ایک گندا کیڑا۔ حیرتوں کی حیرت یہ کہ حال کے یہ 87لاکھ اور ماضی کی ان 5ارب قسم کی مخلوقات میں سے صرف اور صرف ایک یعنی کہ انسان نے وہ کام کیے، جو اس سے پہلے کبھی کسی نے نہیں کیے تھے۔ اس نے لباس پہننا شروع کیا، آگ استعمال کرنا شروع کی، فصلیں اگائیں، مردے دفنائے، خدا کے وجود پر بحث کی۔ اس نے ایٹم توڑ کر اس سے پیدا ہونے والی توانائی سے تباہی پھیلائی اور بجلی پید اکی۔ اس نے ہر قسم کے پیچیدہ اوزار بنائے۔ اس نے لوہے سے انجن بنایا، اس انجن میں تیل جلاکر پیدا ہونے والی توانائی سے گاڑی کو دوڑایا۔ اس نے ٹریفک کے قوانین بنائے۔

صرف اور صرف اس ایک مخلوق نے عبادت گاہیں بنائیں۔ قربانی سمیت، اس نے مذہبی تہوار منانے شروع کیے۔ اس نے خلا کا سفر کیا۔ اس ایک مخلوق نے اس قدر ترقی کی کہ نظامِ شمسی کے سب سے دور والے سیاروں پر بھی اپنے آلات بھیج دئیے؛حتیٰ کہ ایک سیٹلائٹ نظامِ شمسی کی حدود سے، اپنے اس سورج کی حدود سے بھی باہر بھیج دیا۔ اب آپ اندازہ لگائیں کہ زمین کے اندر موجود لوہے سے میزائل بنانا، زمین کے اندر سے توانائی کے ذخائر نکال کر میزائل میں ان کو جلانا، زمین کی کششِ ثقل کو توڑ کر خلا تک پہنچنا اور پھر کمپیوٹر کی مدد سے سمت کا تعین کرتے ہوئے سب سے دور دراز والے سیاروں پر اپنے آلات اتار دینا۔ 5ارب میں سے ایک مخلوق یہ سب کر رہی تھی۔ باقی چار ارب 99کروڑ 99لاکھ 99ہزار 9سو 99میں سے دوسری کوئی بھی نہیں۔ آپ سوچیں کہ یہ کس قدر حیرت ناک ماجرا ہے؟ اس کے باوجود انسانوں میں سے کچھ کا خیال ہے کہ خدا نہیں ہے۔ ا ن کا کہنا یہ ہے کہ یہ سب کچھ اتفاق سے ہو رہا ہے۔ ان کا خیال یہ ہے کہ ایک دن ہم دوبارہ زندہ نہیں کیے جائیں گے اور ہمارا حساب نہیں ہوگا۔ خیر وہ وقت آنے والا ہے، جب ہمارے اور ان لوگوں کے درمیان اس تنازعے کا فیصلہ کیا جائے گا اور وہ وقت اب بہت قریب ہے۔

تازہ ترین