• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

(گزشتہ سے پیوستہ)

انگریزوں نے ہر چھوٹے بڑے ریلوے اسٹیشن کے ساتھ کالونیاں بنائی تھیں۔ ہمارے ریلوے کے بعض افسروں اور مافیا نے ان 74برسوں میں ان ریلوے کالونیوں پر قبضے کروا دیے۔ جان بوجھ کر ریلوے کے سرکاری کوارٹروں کی مرمت اور دیکھ بھال نہ کرائی گئی تاکہ یہ کوارٹرز گر جائیں اور پھر ملی بھگت سے ریلوے کی اربوں روپے کی اراضی پر قبضہ کر لیا گیا۔ ہمیں اچھی طرح یاد ہے کہ ہم نے لاہور کے تمام چھوٹے اور دیہاتی ریلوے اسٹیشنوں پر ریلوے کالونیاں اور ریلوے کوارٹرز خود دیکھے تھے۔

لاہور میں ریلوے کے اعلیٰ افسروں کی بہترین رہائش گاہیں میو گارڈن میں ہیں، جو ایچی سن کالج (چیفس کالج) کے بالکل سامنے واقع ہے، اس سڑک کا نام سندرداس روڈ ہے۔ اس سڑک کو کبھی ٹھنڈی سڑک بھی کہا جاتا تھا، لاہور کی اصل ٹھنڈی سڑک سندرداس روڈ تھی۔ مال روڈ بالکل نہیں۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ ایچی سن کالج (چیفس کالج) کے اندر لمبے لمبے بانس لگے ہوئے تھے اور میو گارڈن کے اندر اور باہر سفیدے کے اونچے درخت ہوتے تھے یہ پوری سڑک درختوں کی گھنی چھائوں سے ڈھکی ہوئی تھی بلکہ دونوں طرف کے درخت ایک دوسرے سے ملے ہوتے تھے۔ اس سڑک پر دھوپ کی ایک کرن تک نہیں آتی تھی۔ ہم خود جب گورنمنٹ کالج لاہور میں زیرتعلیم تھے تو ٹھنڈی ہوا کھانے کے لئے اس سڑک پر موٹر سائیکل اور سائیکل چلایا کرتے تھے کیونکہ اس سڑک کے اختتام پر نہر ہے۔ پھر ایچی سن کالج کے ایک ناسمجھ پرنسپل نے سارے بانس کٹوا دیے اور یہاںکئی کوارٹرز بنا دیے جبکہ میو گارڈن کے باہر اور اندر کے کئی درخت کاٹ دیئے اور اب سڑک میں وہ بات نہیں رہی۔میو گارڈن میں رہنے والےبعض افسر ہر سال اپنی کوٹھیوں کی دیکھ بھال پر لاکھوں کروڑوں روپے خرچ کر تے ہیں لیکن جن لوگوںکو ریل کا پہیہ چلانا ہے، ان کی رہائش گاہوں کی کبھی مرمت نہیں کرائی گئی۔ اسٹیشن ماسٹروں کے کمروں کی چھتیں ٹپکتی ہیں، ان کے کوارٹرز خستہ حال قرار دیے جا چکے ہیں۔ گو میو گارڈن کی کوٹھیاں آج بھی بہترین حالت میں ہیں۔ دکھ اور افسوس کی بات یہ ہے کہ ریلوے کو تباہی کے دہانے پر ادارے کے ہی بعض افسروں نے پہنچایا اور وہ آج بھی ریلوے پر بوجھ ہیں۔ کبھی ان اعلیٰ افسروں نے سوچا کہ وہ خود تو ہر سہولت حاصل کر رہے ہیں اور اے سی کمروں میں بیٹھے ہیں اور جو پورے اسٹیشن کو چلاتا ہے وہ کس حال میں ہے؟ لاہور کے تمام اسٹیشنوں کو ہم نے جب چالیس/ پچاس برس پہلے دیکھا تھا تو ہر ریلوے اسٹیشن کمال کا تھا۔ مسافر ٹرینیں آ رہی ہیں، جا رہی ہیں۔ گوروں نے لاہور میں ریلوے ملازمین کیلئے دو بڑے اسپتال بنائے تھے، کیرن اسپتال گڑھی شاہو اور کیرن اسپتال مغل پورہ۔ گورے نے ریلوے کے ملازمین کے لئے جگہ جگہ ڈسپنسریاں بھی بنائی تھیں اور ہم نے سب کچھ ہی تباہ کر دیا۔سو جناب رائے ونڈ جنکشن ریلوے اسٹیشن پر آج بھی سو برس قدیم آلات، سگنل کا نظام، کانٹا تبدیلی کا نظام، ٹیلی فون کام کر رہے ہیں البتہ یہاں ایک بڑی خوبصورت تاریخی مشین، نیل بال ٹوکن نصب ہے جو کہ اب سے پندرہ برس قبل تک کام کر رہی تھی، اب بند ہو چکی ہے۔ یہ مشین ٹیلی فون کی لائنوں کے ذریعے کام کرتی ہے۔ ریلوے نے محکمہ ٹیلی فون کا بل نہ دیاتو انہوں نے اس مشین کی لائن کاٹ دی۔ البتہ شاہدرہ باغ ریلوے جنکشن ا سٹیشن پر یہ مشین پچھلے ایک سو برس سے پوری طرح کام کر رہی ہے۔اس مشین کے ذریعے لائن کلیئر کا ٹوکن جاری ہوتا ہے۔

رائے ونڈ اور شاہدرہ باغ ریلوے ا سٹیشن جا کر خوشی اور حیرت ہوئی کہ دونوں کے ٹکٹ گھر پر لوگ لائن میں کھڑے ٹکٹ خرید رہے تھے۔ افسوس اس بات کا ہوا کہ رائے ونڈ ریلوے اسٹیشن کی قدیم خوبصورت اکانومی کلاس کا ویٹنگ روم اور بکنگ آفس اب زمین میں آدھا دھنس چکا تھا۔ رائے ونڈ ریلوے اسٹیشن کی پرانی عمارت جو کہ پچھلے سو برس سے بالکل اچھی حالت میں ہے ، اس کے اندر ریلوے اسٹیشن میں عملے کے تمام ارکان کے دفاتر ہیں، نئی عمارت بنانے کی بالکل ضرورت نہ تھی۔رائے ونڈ ریلوے اسٹیشن کے بعد ہم لاہور کے تین مختلف ریلوے اسٹیشنوں کو دیکھنے کے لئے گئے، بادامی باغ ریلوے اسٹیشن، شاہدرہ باغ جنکشن ریلوے اسٹیشن اور پھر گرین ٹائون ہالٹ ریلوے اسٹیشن۔

1859 میں لاہور میں ریلوے نے مختلف پرزے اور آلات بنانے کے لئے کارخانے بنائے تھے، جو اب تباہی کے دہانے پر ہیں۔ 1860میں پہلی مرتبہ ٹرین لاہور سے امرتسر گئی تھی۔ پھر لاہور ریلوے اسٹیشن سے وزیرآباد کے ریلوے اسٹیشن تک لائن بچھائی گئی، جس کی وجہ سے بادامی باغ کی بہت ساری زمین ریلوے لائن اور ریلوے اسٹیشن نے حاصل کر لی۔ کسی زمانے میں بادامی باغ کا نام کمپنی باغ بھی رہا ہے۔ ویسے ایک کمپنی باغ مری میں بھی ہے۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ بادامی باغ میں شہزادی گل بادام کا مقبرہ ہوتا تھا جو سکھوں نے تباہ کر دیا۔ قیامِ پاکستان کے وقت بادامی باغ ریلوے اسٹیشن کے قریب باداموں کے درخت بھی ہوا کرتے تھے۔ اب نہ گل بادام کا مقبرہ رہا اور نہ باداموں کے درخت۔اب تو لاہور میں وہ سڑک بھی نہیں رہی جس کو کیلوں والی سڑک کہتے تھے جہاں کیلوں کے بے شمار درخت ہوا کرتے تھے۔ہمیں یاد ہے کہ لاہور لاری اڈہ (جسے لاہور جنرل بس اسٹینڈ بھی کہتے ہیں) سے دور سے بادامی باغ کا خوبصورت اور تاریخی ریلوے اسٹیشن نظر آتا تھا اور ہم جب منٹو پارک بیڈ منٹن کھیلنے اور حکیم نیر واسطی کے مطب پر ترکی زبان سیکھنے جاتے تھے تو یہ اسٹیشن دور سے واضح نظر آتا تھا۔ ہم مگر جس مشکل اور تلاش کے بعد بادامی باغ ریلوے اسٹیشن پہنچے! اس کا ذکر آئندہ کریں گے۔ (جاری ہے)

تازہ ترین