• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

18 ستمبر کو عالمی طاقت کے توازن میں ایک نئے باب کا اضافہ ہوا، جب ایشیا انڈو پیسیفک میں، جسے جنوب مشرقی ایشیا بھی کہا جاتا ہے، امریکا، برطانیہ اور آسٹریلیا کے درمیان ایک نیا سیکوریٹی معاہدہ طے پایا، جسے ’’آکوس معاہدہ‘‘ کہا جارہا ہے اور جو آسٹریلیا، برطانیہ اور امریکا کے ناموں کے حروف تہجّی، اے، یو کے، یو ایس پر مشتمل ہے۔ اِس معاہدے کے تحت امریکا اور برطانیہ، آسٹریلیا کو ایٹمی ایندھن سے لیس کم از کم بارہ آب دوزیں بنانے اور اُنہیں سمندر میں تعیّنات کرنے کی صلاحیت کی ٹیکنالوجی فراہم کریں گے۔

عالمی طاقت کی زبان میں اسے یوں بھی کہا جاسکتا ہے کہ اب آسٹریلیا بھی ایک ایٹمی طاقت بن جائے گا۔ کیا یہ عالمی سیاست میں دھماکا یا اچانک رُونما ہونے والا واقعہ ہے، جس کی کسی کو اُمید نہیں تھی؟ اِس سوال کا جواب ہے،’’ قطعاً نہیں۔‘‘ امریکا گزشتہ دس برسوں سے نہ صرف یہ کہ اِس کی تیاری کر رہا تھا، بلکہ باراک اوباما کے دوسرے صدارتی دَور میں باقاعدہ اعلان بھی کر دیا گیا تھا کہ اب امریکا کی توجّہ انڈو پیسیفک پر ہوگی اور اِس مقصد کے لیے وہ باقی ایشیا سے پیچھے ہٹ جائے گا۔

عراق سے امریکی فوج کی واپسی، شام کی خانہ جنگی میں اس کی سرد مہری،لیبیا کے بحران میں عدم دِل چسپی، سعودی عرب، ایران تنازعے سے پیچھے ہٹنا، ایران سے نیوکلیئر ڈیل اور افغانستان سے خاموش واپسی، جس میں پشیمانی کی کوئی جھلک نہیں ملتی، یہ سب اُسی پالیسی کا نتیجہ ہے۔ماہرین کے مطابق، آکوس کا مقصد انڈو پیسیفک میں چین کی بڑھتی طاقت کو روکنا ہے، اِسی لیے اس پر چین کی جانب سے شدید ردّ ِعمل آیا۔چین نے کہا کہ’’ یہ معاہدہ علاقائی استحکام کو بُری طرح متاثر کرے گا اور اسلحے کی دوڑ میں شدّت آئے گی۔‘‘

فرانس کی طرف سے بھی، جو مغربی دنیا کا حصّہ ہے، آکوس کے خلاف سخت بیانات آئے، یہاں تک کہ اُس نے آسٹریلیا اور امریکا سے اپنے سفیر بھی واپس بلا لیے۔فرانس نے کہا کہ ’’معاہدہ پیٹھ میں چُھرا گھونپنے کے مترادف ہے۔‘‘ فرانسیسی ردّ ِعمل کی وجہ یہ ہے کہ نئے اتحاد کے سبب اُس کا آسٹریلیا سے کیا گیا اربوں ڈالرز کی خریداری کا معاہدہ کھٹائی میں پڑ گیا ہے، تاہم یہ معاملہ صرف فرانس اور آسٹریلیا کی فوجی خریداری تک محدود نہیں، بلکہ اس سے عالمی سیکیوریٹی نظام کے توازن میں بڑی تبدیلی آئے گی۔اسی کے پس منظر میں’’ کواڈ فورم‘‘ کا بھی اجلاس ہوا، جس میں امریکا،بھارت، آسٹریلیا اور جاپان کے سربراہ شریک ہوئے۔

اہم سوال یہ ہے کہ کیا اب طاقت کا توازن انڈو پیسیفک کی جانب چلا جائے گا؟ ہمارے ہاں اِس ایشو پر نہ ہونے کے برابر غور کیا جا رہا ہے۔ہم اب تک اسی بات پر مُصر رہے ہیں کہ افغانستان اور وسط ایشیا دنیا میں اہم ترین ہیں اور چوں کہ ہم بھی اسی خطّے میں موجود ہیں،تو اِس لحاظ سے ہماری اہمیت بھی برقرار رہے گی۔تاہم، اب جو تبدیلی آئی ہے، وہ خارجہ پالیسی کی ترجیحات کو ازسرِنو مرتّب کرنے کی دعوت دے رہی ہے۔

پہلے آکوس معاہدے کے فوجی پہلو پر نظر ڈال لی جائے۔اِس معاہدے کی سب سے اہم بات ایٹمی آب دوزیں ہیں، جو آسٹریلیا کے شہر ایڈیلیڈ میں تیار کی جائیں گی، جب کہ تربیت، معلومات اور ٹیکنالوجی امریکا اور برطانیہ فراہم کریں گے کہ اُن دونوں کے پاس ایٹمی فیول سے چلنے والی اور ایٹمی ہتھیاروں سے لیس آب دوزیں موجود ہیں۔ معاہدے میں کروز میزائل کی فراہمی بھی شامل ہے۔ان ممالک کے درمیان کوانٹم ٹیکنالوجی، انٹیلی جینس اور دیگر شعبوں میں معلومات کا بھی تبادلہ ہوگا۔ماہرین کے مطابق ایٹمی آب دوز سمندری دفاع کی غیر معمولی صلاحیت رکھتی ہیں۔ ظاہر ہے، ان کے سمندر میں اُترنے کے علاقے پر گہرے اثرات مرتّب ہوں گے۔

اِس وقت دنیا کے صرف چھے ممالک کے پاس ایٹمی آب دوزیں ہیں، گو کہ اُن میں ایٹمی ہتھیار نصب نہیں، مگر اس کے باوجود ان آب دوزوں نے اُنھیں غیر معمولی بحری قوّت دی ہے۔اگر روایتی اور ایٹمی آب دوزوں کی صلاحیت کا موازنہ کیا جائے، تو پتا چلتا ہے کہ ایٹمی آب دوز بہت زیادہ فوجی طاقت اور صلاحیت کی حامل ہوتی ہے، اس کی کھوج لگانا بہت مشکل ہوتا ہے، یہ آسانی سے حرکت کرسکتی ہے اور خاموشی سے اپنے اہداف پورے کر لیتی ہے۔ یہ عام آب دوز کی نسبت زیادہ عرصے تک سمندر میں رہ سکتی ہے، اِس لیے اس سے زیادہ مؤثر طور پر میزائل داغے جا سکتے ہیں۔

بیان کے مطابق یہ آب دوزیں ایٹمی ہتھیاروں سے لیس نہیں ہوں گی، اِسی لیے آسٹریلیا کے وزیر اعظم کا کہنا ہے کہ’’ اُن کا مُلک ایٹمی ہتھیار یا سِول نیوکلیئر ٹیکنالوجی حاصل کرنے کی کوشش نہیں کر رہا۔‘‘امریکی صدر، جوبائیڈن نے کہا ہے کہ اس معاہدے پر عمل درآمد کے لیے اٹھارہ ماہ تک تینوں ممالک کی ٹیمز مشاورت کریں گی اور دیکھیں گی کہ ایٹمی عدم پھیلائو کو کس طرح یقینی بنایا جائے۔ امریکی ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ ایک انتہائی حسّاس ٹیکنالوجی ہے اور اسے امریکا نے صرف ایک مرتبہ1958 ء میں برطانیہ کے ساتھ شیئر کیا تھا۔ معاہدے سے ظاہر ہوتا ہے کہ امریکا اور برطانیہ انڈو پیسیفک کو کس قدر اہمیت دے رہے ہیں اور اس کے لیے وہ آسٹریلیا کو ایٹمی اسلحے سے لیس تک کرنے پر تیار ہیں۔

ماہرین کے مطابق، اس ایٹمی شراکت داری کی پہلی چوائس جاپان ہوسکتا تھا، خاص طور پر آئین کے آرٹیکل 9 میں ترمیم کے بعد تو ایسا ممکن بھی تھا، لیکن لگ یہ رہا تھا کہ ایٹم بم کے بھیانک سائے جاپانی رائے عامّہ کو اس معاہدے پر آمادہ نہیں کرسکیں گے، اِسی لیے آسٹریلیا کو معاہدے میں شامل کیا گیا، حالاں کہ انڈو پیسیفک میں امریکا کا سب سے طاقت وَر اور قریبی اتحادی جاپان ہے، جس کے پاس ہر قسم کی ٹیکنالوجی حاصل کرنے اور اسے ترقّی دینے کی غیر معمولی صلاحیت ہے اور اُس کی معیشت اس قسم کے بوجھ آسانی سے برداشت بھی کرسکتی ہے۔تاہم، وہ اسی خطّے کے اہم شراکت دار کے طور پر کواڈ فورم میں موجود ہے۔

درحقیقت، آکوس معاہدہ امریکا کے اُن اقدامات کا حصّہ ہے، جس کے تحت وہ انڈو چائنا کو اپنا محور بنا چُکا ہے۔اس طرح جہاں امریکا اپنے اثرات بڑھانا چاہتا ہے، وہیں خطّے میں چین کی بڑھتی پیش رفت روکنا بھی مقصود ہے۔اسے چین کے خلاف ایک دفاعی قدم کے طور پر بھی لیا جاسکتا ہے۔ امریکا کی موجودہ خارجہ پالیسی میں، جس کے خدّوخال جی سیون ممالک کے اجلاس میں کُھل کر بیان کر دیے گئے ہیں، چین کی بڑھتی طاقت اور اس سے امریکا، مغرب کو درپیش خطرات کا بار بار ذکر ہے۔دوسری جانب، مغربی ممالک کے چین کی قوّت سے متعلق لگائے جانے والے الزمات بھی اہم ہیں،حالاں کہ چین نے اب تک کوئی بھی تنازع میدانِ جنگ میں طے نہیں کیا۔ 

وہ تجارت اور اقتصادی قوّت کو ہر چیز پر فوقیت دیتا ہے، لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ چین نے کسی بھی قوّت کا مقابلہ کرنے کے لیے اپنی دفاعی صلاحیت میں بے پناہ اضافہ کیا ہے اور وہ کسی سے ڈرتا بھی نہیں ہے۔اِسی لیے صدر شی جن پنگ نے جی سیون کے الزامات کے جواب میں کہا تھا کہ’’ جو چین سے ٹکرائے گا، وہ گریٹ وال سے ٹکرا کر پاش پاش ہوجائے گا۔‘‘چین نے آکوس پر شدید ردّعمل کا اظہار تو کیا، تاہم وہ جنوب مشرقی ایشیا کے تجارتی معاہدے میں باقاعدہ طور پر شامل ہونے جا رہا ہے، جس کے ذریعے وہ خطّے میں اپنے اقتصادی اثرات مزید مضبوط کرنے کا خواہش مند ہے۔

اُس کے پیشِ نظر یہ بات بھی ہے کہ امریکا اس خطّے میں موجود ممالک کے ساتھ شراکت داری کے لیے بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری کر رہا ہے۔ان ممالک میں بھارت، جاپان، جنوبی کوریا، تھائی لینڈ اور ویت نام شامل ہیں۔بھارت سے سِول نیوکلیئر ٹیکنالوجی کے معاہدے اور اس کی کواڈ فورم میں شرکت اسی تناظر میں سمجھی جاسکتی ہے۔ اب اگر اسی پس منظر میں امریکا کی افغانستان سے پسپائی یا واپسی کا جائزہ لیں، تو وہ بھی اسی انڈو چائنا منصوبے کا ایک حصّہ ہے۔امریکا نے افغانستان میں اٹھارہ سال لگائے اور ایک خطیر رقم خرچ کی۔

اس معاملے پر بحث جاری رہے گی کہ امریکا نے اس خطّے میں کیا پایا، کیا کھویا؟ لیکن یہ طے ہے کہ اس کی پسپائی ایک گریٹر منصوبے کا حصّہ ہے۔ قبل ازیں، اس نے مشرقِ وسطیٰ میں بھی ایسا ہی کیا تھا اور صدر اوباما نے شدید تنقید کے باوجود شام کا میدان روس کے لیے چھوڑ دیا تھا، جس پر شامی اپوزیشن، عرب ممالک اور تُرکی بھی حیران تھے۔اِسی طرح امریکا اور اس کے اتحادیوں نے افغانستان بھی چین اور روس کے لیے چھوڑ دیا ہے۔ نیز، پاکستان پر بھی زور ڈالا جا رہا ہے کہ وہ افغانستان کے معاملے میں خطّے کے ممالک سے تعاون کرے۔ کس قدر عجیب بات ہے کہ امریکا چند مہینے پہلے تک کابل کا بنیادی شراکت دار تھا اور آج حالات سے صرفِ نظر والا رویّہ اختیار کرچُکا ہے۔

گویا وہ افغانستان میں تمام مسائل کی دیکھ بھال کی ذمّے داری خطّے کے ممالک روس، چین، پاکستان، ایران، وسط ایشیائی ممالک اور بھارت کے ذمّے لگا گیا ہے۔غالباً اِسی لیے امریکا نے ٹرمپ کے زمانے میں دوحا مذاکرات کے ذریعے دو معاہدے کیے۔ اگر ان معاہدوں پر غور کیا جائے، تو پتا چلے گا کہ وہ خود علاقے سے نکل کر خطّے کے ممالک کو مسائل کا حل تلاش کرنے کا کام سونپ رہا ہے۔پھر اُس نے انہی مذاکرات کے دَوران اِس امر کی بھی حوصلہ افزائی کی کہ طالبان، روس،چین، ایران، بھارت اور وسط ایشیائی ممالک سے دل کھول کر رابطے کریں۔

اگر اُس کی افغانستان سے واپسی کے بعد وہاں سے کوئی دل چسپی ہوتی، تو وہ ان ممالک کو وہاں کا حصّے دار کیوں بناتا؟ اِسی پس منظر میں یہ بات بھی سمجھی جاسکتی ہے کہ افغان مہاجرین کی امداد کے معاملے میں مغربی اور عرب ممالک کے ساتھ تُرکی بھی زیادہ گرم جوشی کا مظاہرہ کیوں نہیں کر رہا۔گو کہ افغان معاملے میں سب طبقات کی شرکت کی بات تو کی جارہی ہے، تاہم مغرب کا اس میں کوئی سفارتی کردار نہیں۔ اِسی لیے شنگھائی فورم میں، جو چین کی بنائی ہوئی تنظیم ہے، افغان معاملہ سرِفہرست رہا۔

چین اور روس نے طالبان سے وسیع البنیاد حکومت کی تشکیل کے ساتھ دہشت گردی کی مکمل روک تھام اور منشّیات کی اسمگلنگ پر پابندی کا مطالبہ کیا، جب کہ وزیرِ اعظم، عمران خان نے دوشنبے میں کہا کہ وہ وسیع البنیاد حکومت کے لیے طالبان سے بات چیت کریں گے، حالاں کہ اسلام آباد اِس سے قبل کہہ چُکا تھا کہ اُس کے طالبان پر اثرات بہت کم رہ گئے ہیں۔ افغانستان کی بحالی، امداد اور حکومت سازی کی ذمّے داری خطّے کے ممالک پر آگئی ہے اور اس میں چین سب سے اہم مُلک ہے کہ وہی معاشی طور پر افغانستان کی مدد کرسکتا ہے، لیکن امریکا نے آکوس جیسے معاہدے کے بعد اُس کی توجّہ بھی دو محاذوں پر بانٹ دی ہے۔ 

ظاہر ہے، آکوس کوئی اچانک ہونے والا معاہدہ تو ہے نہیں اور اسی پس منظر میں دیکھا جائے، تو امریکا کی افغانستان سے برق رفتار واپسی ایک سوچے سمجھے منصوبے کا حصّہ ہے۔ اب چاہے تجزیہ کار اسے شکست کہیں یا اقتصادی خسارہ۔ برطانیہ کی بھی بریگزٹ کے بعد یہی خواہش ہے کہ وہ یورپ کا اقتصادی متبادل تلاش کرے اور جنوب مشرقی ایشیا جیسا ترقّی یافتہ خطّہ اُس کے لیے آئیڈیل ہے۔ اِسی لیے اُس نے اپنے قریبی یورپی پڑوسی فرانس کی شکایات اور سخت تنقید کی بھی پروا نہیں کی۔پھر جنوب مشرقی ایشیا اور انڈو پیسیفک اُس کے لیے کوئی اجنبی خطّہ نہیں ہے۔نوآبادیات کی طویل تاریخ اس کی گواہ ہے۔آج بھی آسٹریلیا، نیوزی لینڈ اُس کی کامن ویلتھ کا حصّہ ہیں۔ آکوس معاہدے نے آسٹریلیا کو موقع فراہم کیا ہے کہ وہ انڈو چائنا میں زیادہ فعال کردار ادا کرے، جس کے لیے وہ تیار بھی ہے۔

’’آکوس‘‘ کے شراکت داروں کی خواہش ہے کہ یہ معاہدہ گیم چینجر ثابت ہو، تو کیا یہ ہمارے خطّے کے لیے بھی چیلنج بن سکتا ہے؟ماہرین کا کہنا ہے کہ آکوس بنیادی طور پر انڈو پیسیفک کے لیے ہے اور فی الحال اس کے اثرات یہاں تک نہیں ہوں گے، اِس لیے ہمیں بھی جذباتی بیان بازی سے پرہیز کرنا چاہیے۔ ویسے بھی یہ ابتدائی مراحل میں ہے، لیکن بہرحال امریکا کے خطّے سے جانے کے اثرات تو ضرور ہوں گے اور اس کا انخلا فوجی سے زیادہ اقتصادی میدان میں محسوس ہوگا۔ 

وہ افغانستان میں ڈالر پمپ کرتا تھا، جس کے رُکنے سے معیشت اور علاقے دونوں کے لیے مشکلات جنم لیں گی۔مشرقِ وسطیٰ میں بھی ایسا ہی ہوا اور وہاں اِسی لیے تیل کی قیمتیں عدم استحکام کا شکار ہیں۔ہمارے مُلک میں اس کا براہِ راست اثر ڈالر اور روپے کی قدر میں فرق سے ظاہر ہو رہا ہے۔روپے کی قدر میں کمی ہورہی ہے، جس سے منہگائی اور افراطِ زر میں اضافہ ہو رہا ہے، جو پہلے ہی ہمارے لیے پریشان کُن ہے۔ امریکا کو اب یہاں سیکیوریٹی ایشوز نہیں ہیں کہ اس کے کوئی ایسے مفادات نہیں، جن کے لیے فوجی اڈّوں کی ضرورت ہو۔ ویسے بھی تمام سمندروں میں اس کے فوجی بیڑے موجود ہیں، جہاں سے وہ کسی بھی علاقے کو نشانہ بنانے کی صلاحیت رکھتا ہے۔

قطر، یو اے ای اور سعودی عرب اسے ضروری سہولتیں فراہم کرسکتے ہیں۔ اُس کا اتحادی اسرائیل بھی موجود ہے، جس کے تعلقات تُرکی سے لے کر سعودی عرب تک پھیل چُکے ہیں۔نیز، اُس کی ایران سے نیوکلیئر ڈیل پر بات چیت جاری ہے۔امریکا کے جانے کے بعد اصل امتحان چین کا ہے کہ وہ یہ خلا کیسے پُر کرتا ہے؟وہ شنگھائی فورم کی صُورت علاقے کے ممالک کو ایک پلیٹ فارم مہیّا کر چُکا ہے، جس میں روس بھی شامل ہے اور بھارت بھی جس کا حصّہ ہے۔ 

اِن حالات میں ہمیں بہت تدبّر سے کام لینا چاہیے۔ سب سے اچھی پالیسی تو یہی ہے کہ اپنے مُلک اور عوام کی خوش حالی پر فوکس رکھا جائے۔ ایسی حکمتِ عملی بہتر ہوسکتی ہے، جس سے دو طرفہ تنازعات پُرامن طریقوں سے حل کیے جاسکیں۔ یہ وہی حکمتِ عملی ہے، جو جنوب مشرقی ایشیا کے ممالک نے اپنا کر غیر معمولی ترقّی کی۔ شاید بلاکس کی سیاست علاقے میں زیادہ سود مند ثابت نہ ہو، خاص طور پر اُن ممالک کے لیے تو بالکل بھی نہیں، جو کم زور معیشت کے حامل ہیں۔

تازہ ترین