• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ایف آئی اے نے اسلام آباد ہائی کورٹ میں رپورٹ جمع کرائی ہے کہ دو سالوں میں 1 لاکھ 78 ہزار شکایات موصول ہوئیں، چائلڈ پورنوگرافی اور نفرت انگیز تقاریر سمیت دیگر جرائم میں ملوث 1831 افراد کو گرفتار کیا گیا، عدالت نے سوشل میڈیا رولز میں ترمیم کے لیے پی ایف یو جے سمیت دیگر اسٹیک ہولڈرز سے مشاورت مکمل کرنے کی ہدایت کرتے ہوئے سماعت دو نومبر تک ملتوی کر دی ۔

چیف جسٹس اطہر من اللّٰہ نے سابق چیئرمین پیمرا ابصار عالم اور صحافی بلال غوری کو ایف آئی اے کی جانب سے جاری نوٹسز کیخلاف درخواستوں پر سماعت کی ، حکومت اور ایف آئی اے کی جانب سے ایڈیشنل اٹارنی جنرل قاسم ودود عدالت میں پیش ہوئے ۔

عدالت نے استفسار کیا کہ بتائیں ایف آئی اے کے بنائے گئے ایس او پیز پر کیوں عمل نہیں ہو رہا؟ ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ مختلف ممالک میں سخت قوانین موجود ہیں جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ جہاں پر ڈریکونین لاز ہیں وہاں ایسے قوانین استعمال ہوتے ہیں جو آپ ہمیں بتا رہے ہیں۔

چیف جسٹس اطہر من اللّٰہ نے کہا کہ قانون کی یہ شقیں جنہوں نے بنائی تھیں انہوں نے تو خود انہیں استعمال کرنا چھوڑ دیا، شہریوں کے بنیادی حقوق کا تحفظ عدالت کی ذمہ داری ہے، ایف آئی اے پیکا ایکٹ کو چھوڑ کر کبھی پاکستان پینل کوڈ پر چلی جاتی ہے ، نفرت انگیز تقاریر روزانہ سوشل میڈیا پر چل رہی ہوتی ہیں لیکن ایک آدمی بھی اس پر نہیں پکڑا گیا۔

ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ نفرت انگیز تقریر ہوتی کیا ہے اس کی تعریف کرنا بہت مشکل ہے اس پر عدالت نے قرار دیا کہ نفرت انگیز تقریر کی ایک یونیورسل تعریف موجود ہے ، کسی کو مشتعل کر کے مذہبی جذبات کو ابھارنا دنیا بھر میں ہیٹ سپیچ یا نفرت انگیز تقریر کہلاتا ہے ۔

عدالت نے کہا کہ ایسا تاثر نہیں جانا چاہئے کہ آپ لوگ کسی کو ٹارگٹ کر رہے ہیں، اگر یہ تاثر ختم نہ ہوا تو عدالت کو اپنا فیصلہ دیناپڑے گا۔

سوشل میڈیا صرف صحافیوں کے استعمال تک محدود نہیں، جن کی معاشرے میں کوئی آواز نہیں ہوتی وہ بھی سوشل میڈیا کا خود استعمال کرتے ہیں، وہ جو بات کر رہے ہیں اگر غلط بھی ہو تو ان کی بات سننی تو چاہئے۔یہ بہت مثبت چیز ہے اگرتمام اسٹیک ہولڈرز سے مشاورت کر لی جائے۔

عدالت نے کہا کہ آئندہ سماعت سے قبل پراسیس مکمل کر کے آگاہ کریں تاکہ عدالت اس کی روشنی میں فیصلہ جاری کرے۔

تازہ ترین