• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اپنے خیالات کو حوصلے اور ہمت کے ساتھ آگے بڑھانا اعلیٰ اقدار کا معیار ہے۔ ایک ایسا معیار جو بدقسمتی سے ہمارے ہاں تیزی سے ناپید ہوتا جا رہا ہے۔اس گراوٹ کی کئی وجوہات ہو سکتی ہیں لیکن کیا کسی کو اس حقیقت کا ادراک ہے؟

پرانے وقتوں میں کسی کی سچائی اس کے خلوصِ نیت کی غمازی کرتی تھی۔ یہ طرزِ عمل افراد کی معمول کی تربیت کا حصہ تھا تاکہ وہ اپنی ذہنی صلاحیت کے مطابق فیصلہ سازی کے لئے اپنے اندر ہمت پیدا کریں لیکن عصر حاضر میں ان اقدار کا فقدان ہے اور اب افراد موقع کی مناسبت سے اپنی سوچ تبدیل کرتے رہتے ہیں۔ اپنے اس منفی رویے پر نہ تو ان کا ضمیر ملامت کرتا ہے اور نہ ہی انہیں کسی مزاحمت کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ صبح سے شام اور پھر اگلی صبح تک بڑی ڈھٹائی کے ساتھ بیانات داغے جاتے ہیں جن کے جواب میں مخالف سمت سے بھی بیانات جاری کئے جاتے ہیں۔ پھر چند کھوکھلے دعوئوں کو ’’سچ‘‘ بھی ثابت کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ دعوئوں اور جوابی دعوئوں کے اس کھیل میں اصلیت کا کھوج لگانا انتہائی مشکل ہو جاتا ہے۔

معاملہ یہیں ختم نہیں ہوتا۔ جو لوگ جھوٹ کو سچ کے طور پر قبول کروانے کے لئے کوشاں ہیں وہ دراصل خود کو عدالتوں اور اداروں کے فیصلوں سے بھی مقدم سمجھتے ہیں۔ ایسے لوگوں کے خلاف زیرسماعت مقدمات میں کوئی منفی فیصلہ آئے تو وہ اداروں پر تنقید کرنے کے ساتھ ساتھ ان کی تذلیل کرنے سے بھی دریغ نہیں کرتے۔ ایسے رویے اداروں کی ساکھ ختم ہونے کی غمازی کرتے ہیں لیکن اس کے ساتھ یہ انفرادی کردار کی خرابی کی بھی علامت ٹھہرتے ہیں۔ ریاست کی عمارت اخلاقیات کی مضبوط بنیادوں پر استوار ہوتی ہے۔ اگر یہ موجود نہ ہو تو نہ صرف ریاست کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے، بلکہ ان اداروں کی کارکردگی بھی متاثر ہوتی ہے جو ریاستی دائرہ کار میں آتے ہیں۔ نقلی آرا کی مچھلی منڈی لگانا دراصل کردار کی تنزلی کی ایک بدصورت شکل ہے جس کے تحت آپ تجاویز کو بغیر غوروفکر کیسے مسترد کر دیتے ہیں جو دراصل اجتماعی فوائد پر انفرادی مفادات کو ترجیح دینے کے مترادف ہے۔

مثال کے طورپر انتخابات کے انعقاد پر تمام سیاسی جماعتوں کی جانب سے شکوک وشبہات کا اظہار کیا جاتا رہا ہے۔ اگر حکومتِ وقت کی جانب سے تجویز پیش کی جاتی ہے کہ اس حوالے سے مل بیٹھ کر مشترکہ لائحہ عمل وضع کریں اور الیکشن کے بعد سامنے آنے والے ممکنہ تنازعات کو ختم کریں تو ایسا کرنے میں حکومت کا ساتھ دینے میں کوئی برائی نہیں بلکہ حکومت کی اس مخلصانہ تجویز کا خیرمقدم کیا جانا چاہئے لیکن بدقسمتی سے ایسا نہیں ہوتا بلکہ من گھڑت بہانوں کی بنیاد پر حکومت سے اس معاملے پر بات چیت کرنے سے انکار کیاجاتا ہے کہ مذاکرات آئندہ انتخابات میں حکومت کی دھاندلی کی کوئی نئی چال ہیں۔ اس طرح کی منفی ذہنی کیفیت ایک ایسا معمہ ہے جو مسائل کے خاتمے میں آگے بڑھنے کا راستہ روکتا ہے۔

یہ نقطہ نظر اس بوسیدہ دلیل کی عکاسی کرتا ہے کہ الیکشن جیتنے کا حق صرف کسی ایک پارٹی کو ہوتا ہے۔ وہ پارٹی اگر الیکشن نہ جیتے تو واویلا شروع کر دیا جائے کہ انتخابی عمل میں دھاندلی کی گئی ہے۔ اپوزیشن کا یہ رویہ جمہوریت کے بنیادی اصولوں سے انحراف کے مترادف ہے جس کا مقصد صرف ایک پارٹی کا اقتدار سے چمٹے رہنا ہے۔ جمہوری روایات کے مطابق کسی بھی سیاسی جماعت کے اقتدار میں رہنے کا دارومدار اس کے عوامی فلاح وبہبود کیلئے کام کرنے پر منحصر ہوتا ہے اور آیا اس نے اپنے انتخابی منشور کے تحت کئے گئے وعدے پورے کئے یا نہیں۔ بعض سیاسی جماعتوں کا رویہ ایسا ہے جیسے صرف انہی کو اقتدار پر براجمان رہنے کا حق حاصل ہے، جسے وہ کسی دوسری جماعت کے حوالے کرنے کو تیار نہیں۔ ایک طرف ملک میں ہونے والے عام انتخابات کی متنازع تاریخ کو دیکھتے ہوئے سیاسی جماعتیں ان کے انعقاد سے مطمئن نظر نہیں آتیں جبکہ دوسری جانب بوسیدہ انتخابی نظام کو بہتر بنانے کیلئے حکومتی کوششوں کا ساتھ دینے پر بھی راضی نہیں۔ اس طرح ان جماعتوںکے اپنے ہی موقف میں تضاد پایا جاتا ہے۔ ایک طرف یہ لوگ انتخابات کے نتائج پر بعض طاقتوں کی جانب سے اثرانداز ہونے کا الزام عائد کرتے ہیں لیکن پھر انہی طاقتوں سے اپیل بھی کرتے ہیں کہ وہ مستقبل میں ہونے والے انتخابات کے آزادانہ اور منصفانہ انعقاد کو یقینی بنائیں۔ یہی وہ ذہنی الجھاؤ ہے جس میں اپوزیشن کی سیاسی جماعتیں پھنسی ہوئی نظر آتی ہیں۔ یہی وہ منفی سوچ ہے جو اپوزیشن جماعتوں کے اندر رچ بس چکی ہے جو یقیناً ملک میں شفاف انتخابات کا ذریعہ نہیں بن سکتی۔ شفاف انتخابات کا انعقاد ایک ایسا مطالبہ ہے جس سے کوئی بھی حکومت اختلاف نہیں کرے گی۔ ماضی کے انتخابات میں ہونے والی شکست کے بارے میں صرف تلخی کا اظہار مستقبل میں حالات کو بہتر نہیں بنا سکتا۔ اگر انتخابی عمل کو بہتر بنانا ہے تو حکومتی تجاویز پر مل بیٹھ کر بات کرنا ہوگی۔ حکومت اور اپوزیشن دونوں جانب سے انتخابی نظام شفاف بنانے کے لئے آگے بڑھنے سے ہی مثبت نتائج برآمد ہو سکتے ہیں۔

اس حوالے سے دوسری تجاویز کے ساتھ انتخابات میں الیکٹرونک میکانزم کے استعمال کو کھلے ذہن کے ساتھ قبول کرنا چاہئے۔ الیکٹرونک میکانزم کے ممکنہ فوائد اور نقصانات پر تفصیلی غور کئے بغیر انہیں مسترد کرنا ایسی ذہنیت کی عکاسی کرتا ہے جو صرف سیاسی پوائنٹ اسکورنگ کے علاوہ کچھ نہیں۔ انتخابی نظام کو جدید خطوط پر استوار کرنے کیلئے سنجیدگی سے کام کرنا ہوگا تاکہ اس کا سب کو فائدہ ہو سکے۔کوئی بھی نظام بلاشبہخامیوں سے پاک نہیں ہوتا۔ کوشش یہ ہونی چاہئے کہ خامیوں کو دور کرنے کیلئے نئی ٹیکنالوجی سے استفادہ حاصل کیا جائے۔ اس سمت میں پہلا مثبت قدم دانشمندی اور ایمانداری کو بروئے کار لانا اور تمام ممکنات کیلئے ذہن کو کھلا رکھنا ہے تاکہ عام انتخابات کے انعقاد کو آزادانہ ،منصفانہ اور شفاف بنایا جا سکے۔ اپوزیشن جماعتیں بھی اگر ایسا چاہتی ہیں تو اپنے اندر حوصلہ پیدا کریں اور کھلے ذہن سے حکومت کے ساتھ مل کر آگے بڑھیں۔

تازہ ترین