• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

تاریخ اسلامی جمہوریہ پاکستان (دو جِلدیں)

مصنّف: مولانا ڈاکٹر محمّد عادل خان

صفحات: جِلد اول 695، جِلد دوم 678

قیمت: درج نہیں

ناشر: المنھل پبلشرز، بلاک وَن اے، گلستانِ جوہر، یونی ورسٹی روڈ، کراچی۔

مولانا ڈاکٹر محمّد عادل خان پاکستان کے ایک معروف، جیّد عالمِ دین تھے۔ جہاں اُنھیں دینی علوم میں گہرا رسوخ حاصل تھا، وہیں جدید تعلیم اور نئی فکر کے بھی شناور تھے۔درسِ نظامی کے فاضل ہونے کے ساتھ ڈاکٹریٹ کی سند کے بھی حامل تھے۔ اُن کی تحقیق کا موضوع وہ چار ہزار مسلمان علماء تھے، جنہوں نے برِّصغیر میں تصنیفی خدمات انجام دیں۔ 

اردو، انگریزی اور عربی سمیت کئی زبانوں پر عبور حاصل تھا۔اُن کی عالمانہ قابلیت کو بیرونِ مُلک بھی تسلیم کیا گیا۔ وہ ایک عرصے تک ملائیشیا میں انٹرنیشنل اسلامک یونی ورسٹی سمیت مختلف تعلیمی اداروں سے وابستہ رہے اور شان دار خدمات پر کئی اعزازات بھی حاصل کیے۔2018 ء میں تصنیف وتحقیق میں ملائیشیا ہائیر ایجوکیشن کی جانب سے فائیو اسٹار رینکنگ ایوارڈ سے نوازا گیا ، یہ ایوارڈاُنھیں ملائیشیا کے صدر کے ہاتھوں دیا گیا ۔جب کہ کچھ عرصہ امریکا میں بھی مقیم رہے، جہاں ایک بڑا اسلامی سینٹر قائم کیا۔2017ء میں اپنے والد، مولانا سلیم اللہ خان کی وفات پر پاکستان واپس آئے اور جامعہ فاروقیہ، کراچی میں اُن کی مسند پر متمکّن ہوئے، اِسی دوران حب ریور روڈ پر واقع مدرسے کے نئے اور بڑے کیمپس کے لیے بھی خدمات انجام دیتے رہے۔

گزشتہ برس اکتوبر میں دہشت گردی کے ایک واقعے میں اُنھیں شہید کردیا گیا۔ ڈاکٹر عادل خان ایک بہترین عالمِ دین، مدّرس اور خطیب ہونے کے ساتھ اعلیٰ پائے کے محقّق اور مصنّف بھی تھے۔ اُنھوں نے جامعہ کراچی اور غیر مُلکی جامعات کے لیے نصابی کتب کی تیاری میں حصّہ لیا، تو دیگر موضوعات پر بھی بہت سی کتب اور مقالات تحریر کیے، جن میں سے ایک زیرِ تبصرہ کتاب بھی ہے۔پاکستان اور تحریکِ پاکستان پر لکھی گئی اِس کتاب کی پہلی جِلد چھے ابواب پر مشتمل ہے، جس کا آغاز برّصغیر پاک و ہند کے تعارف سے کیا گیا ہے۔ اِس میں ہندوستان کی غیر اسلامی ریاستیں، محمّد بن قاسم سے لے کر مغلیہ سلطنت تک کی اسلامی حکومتوں، اسلام کی اشاعت میں صوفیائے کرامؒ کا کردار، ایسٹ انڈیا کمپنی، آزادی کی جنگ اور اس میں شامل نام وَر اور گم نام شخصیات کی تفصیل بیان کی گئی ہے۔

دوسرے باب میں تحریکِ پاکستان کے عنوان سے پاکستان کی سیاسی تحریک، بانیانِ پاکستان اور قرار دادِ پاکستان کا ذکر ہے۔ تیسرے باب میں قیامِ پاکستان کے بعد ہونے والی محلّاتی سازشوں، اقتدار پر قبضے کی جنگوں، سقوطِ ڈھاکا، سیاسی تحریکوں اور عمران خان کی حکومت کے قیام تک کے واقعات شامل کیے گئے ہیں۔اِس میں حصول ِپاکستان کے مقاصد میں ناکامی، موجودہ جمہوری نظام، فوجی حکومتوں کے قیام، پاکستان میں جمہوریت کے مستقبل، جہادِ افغانستان، طالبان کا پہلا دورِ حکومت اور دوحا مذاکرات کا بھی احاطہ کیا گیا ہے۔چوتھے باب میں تحریکِ آزادی میں علماء کے کردار پر بحث ہے۔ 

اِس ضمن میں پاکستان کی بیش تر مذہبی جماعتوں کا بھی ذکر آگیا ہے۔ پانچویں باب میں قیامِ پاکستان کے اغراض و مقاصد کے عنوان کے تحت نظریۂ پاکستان اور اس کے تقاضے، قائدِ اعظم کا تصوّرِ پاکستان، قراردادِ مقاصد، پاکستان کا آئین اور اس کی اسلامی دفعات کی تفصیل ہے۔ چھٹا باب افواجِ پاکستان، جوہری پروگرام اور شہدائے پاکستان کے نام ہے۔اِس کتاب کی دوسری جِلد بھی چھے ہی ابواب پر مشتمل ہے۔ 

پہلے باب میں پاکستان کے صوبوں، سابقہ ریاستوں، آزاد کشمیر، سیاحتی مقامات، کلچر اور معروف ملّی نغموں کی تفصیل ہے۔ دوسرے باب میں میڈیا، صحت، امنِ عامّہ اور اداروں کے باہمی ٹکراؤ سے متعلقہ مسائل کو موضوع بنایا گیا ہے۔تیسرا باب پاکستان کے نظامِ تعلیم سے متعلق ہے، جس میں مسلمانوں کے نظامِ تعلیم، پاکستان کی تعلیمی پالیسیز، مشہور یونی ورسٹیز اور مدارس، پاکستانی ادب اور ادیب کا بیان ہے۔ چوتھا باب پاکستان کے نظامِ معیشت پر ہے، تو پانچویں میں مُلک کی خارجہ پالسیی کا تفصیلی جائزہ لیا گیا ہے۔ چھٹے اور آخری باب میں پاکستان کے مستقبل کے حوالے سے تفصیلی بحث ہے۔ تقریباً 14 سو صفحات پر مشتمل بڑے سائز کی یہ کتاب معیاری کاغذ اور مضبوط جِلد کے ساتھ پیش کی گئی ہے۔ 

معروف عالمِ دین اور وفاق المدارس العربیہ کے سربراہ، مولانا محمّد تقی عثمانی نے اِسے ایک اہم علمی اور تصنیفی کارنامہ قرار دیتے ہوئے لکھا ہے کہ’’ یہ 1940ء سے لے کر 2020ء تک پاکستان کی جامع ترین تاریخ ہے، جو اِس مُلک کو سمجھنے کے لیے اہم دستاویز کی حیثیت رکھتی ہے۔‘‘بلاشبہ، ایسی کتابیں کم ہی لکھی گئی ہیں، جن میں اِس قدر جامعیت سے پاکستان اور اس کی تاریخ کا احاطہ کیا گیا ہو۔ یقیناً پاکستان سے متعلق کتب میں یہ ایک نہایت ہی شان دار اور قابلِ قدر اضافہ ہے۔

تازہ ترین