• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پرویز مشرف بڑے اطمینان سے حکومت کر رہے تھے، عوام میں بھی ہل جل نہیں تھی۔ تمام معمولات پی پی پی اور مسلم لیگ (ن)کے بغیر ٹھیک جا رہے تھے۔مہنگائی بھی 60روپے کا ڈالر ہونے کے باعث رکی ہوئی تھیکہ اچانک اوپر والوں سے پیغام ملا کہ پی پی پی یا مسلم لیگ (ن )والوں سے محاذآرائی ختم کر کے ان کو این آر او یعنی ان کے گناہوں پر پردہ ڈالو اور حقیقی جمہوریت کو واپس لائو۔ صدر پرویزمشرف بھی مسلم لیگ (ق)والوں سے اب بیزار ہوتے جا رہے تھے۔ کچھ امریکہ بھی ان سے شاکی تھا، گلف کے حکمرانوں کے ذریعے بار بار دبائو ڈالا جا رہا تھا۔ الیکشن بھی نزدیک آرہے تھے، مشرف نے دبائومیں آکر دونوں جماعتوں میں پی پی پی کو غنیمت جانا اور مٹی پائو والوںسے تھوڑی دوری اختیار کرتے ہوئے پی پی پی والوں کو این آر او دے دیا کہ محترمہ بے نظیر بھٹو صاحبہ جلاوطنی ختم کر کے دوبارہ پاکستان کی سیاست میں حصہ لیں اور اصلی جمہوری سیاست کا دور شرع ہو۔ مسلم لیگ (ن)کو بھی در پردہ زور آزمائی کرنے کی اجازت دے دی۔(ق)لیگ والے بدکے بھی مگر ان کو خاموش کرادیاگیا کہ یہ سب کچھ دنیا والوں کو دکھانے کے لئے ڈرامہ رچایاجا رہا ہےکیونکہ عوام صدر مشرف سے خوش ہیںاور الیکشن میں (ق)لیگ ہی آئے گی مگر اچانک چیف جسٹس افتخار چوہدری کی جبری بر طرفی گلے پڑ گئی۔ دیکھتے ہی دیکھتے محترمہ بے نظیر ان کی حمایت میں میدان میں اتر آئیں اور اعتراز احسن اور وکلاء کا ان کے خلاف احتجاج بڑھتے بڑھتے پورے ملک میں پھیل گیا۔ پرویز مشرف جو وزیر اعظم شوکت عزیز اور مسلم لیگ (ق)کے چودھریوں کے مشورہ کے باوجود چیف جسٹس کی بر طرفی کا ردِعمل نہیں سنبھال سکے۔عدلیہ بھی حرکت میں آکر فوجی اقتدار کے سامنے دیوار بن کر اپنے چیف کو بچانے اوراپنا کردار ادا کرنے کے لئے کمر بستہ ہوگئی۔ پرویز مشرف مرحوم اکبر بگٹی، اسلام آباد کی لال مسجد اور کراچی کے 12مئی کے سانحوںمیں گھر گئے۔ پھر محترمہ بے نظیر کی پنڈی کے جلسے میں شہادت کا سانحہ مشرف حکومت کو لے ڈوبا۔ (ق)لیگ بُری طرح الیکشن ہار گئی۔ پی پی پی الیکشن میں دوبارہ اقتدار میں آگئی اور صدر آصف علی زرداری نے محترمہ بے نظیر بھٹو کی جگہ سنبھالی۔ مشرف حکومت نے آئی ایم ایف ودیگر قرضے شوکت عزیز کی حکمت عملی سے اتار دئیے تھے۔ اب نئی آنے والی حکومت کو کچھ کر دکھانا تھا مگر پی پی پی حکومت نے آہستہ آہستہ من مانی شرائط پر قرضے لینے شرو ع کر دیے۔ ڈالر پھر حرکت میں آگیا اور 60روپے سے بڑھتے بڑھتے 90روپے کا ہوگیا اور آخر میں 105تک جا پہنچا۔4سال تک صدر آصف علی زرداری نے میاں نواز شریف سے کوئی تنازع مول نہ لیا اور نہ نواز شریف نے،اور پاکستان کی سیاسی تاریخ میں خاموش اپوزیشن کا کردار ادا کیا۔ اب پھر الیکشن کا وقت قریب آرہا تھا تو پی پی پی کے من چلوں نے لاہور میں ایک بڑا جلوس نکالا اور نعرہ دیا، اگلی واری پھرزرداری زرداری،یہ مسلم لیگ (ن)والوں کو ہضم نہیں ہوا۔ وہ بھی پی پی پی کی کرپشن، مہنگائی اور بیروزگاری کے خلاف ڈٹ گئے اور کھل کر الیکشن میں زرداری صاحب کو نیچا دکھانے اور الیکشن کو جیتنے کے لئے میدان میں اترے۔ عوام پی پی پی کی کار کردگی اور مہنگائی سے پریشان تھے۔ لہٰذا الیکشن میں مسلم لیگ (ن)میاں نواز شریف کو کامیابی حاصل ہوئی اور میاں صاحب نے اقتدار سنبھالا مگر اب میاں صاحب کے تیورکچھ بدلے بدلے تھے اور انہوں نے اپنی جلاوطنی کا بدلہ لینے کے لئے کئی نئے محاذ کھولے جن میں سب سے خطر ناک فوج کے خلاف محاذآرائی تھی۔سب کچھ ٹھیک جا رہا تھا کہ پانامہ کا دھماکہ ہوگیا۔ میاں صاحب کی ساری بساط الٹ گئی اور میاں صاحب قبل از وقت وزارت عظمیٰ سے ہاتھ دھو بیٹھے اور یہی شکوہ کرتے رہے کہ مجھے کیوں نکالا۔ عمران خان جو الیکشن میں دھاندلیوں،کرپشن، میاں صاحب کی برائیوں، مہنگائی اور بیروزگاری کو لے کر دھرنے کی کامیاب سیاست میں ابھر چکے تھے۔ان کے سنہری وعدوں پر عوام اعتمادکر بیٹھے، کچھ خلائی مخلوق نے بھی ساتھ دیا اور اب اقتدار عمران خان کی گود میں ڈال دیا گیا جو کسی کو بھی ہضم نہیں ہوا۔

3سالہ جشن میں فخریہ بتایا جا رہا ہے کہ تبدیلی آچکی ہے مگر وہی ماضی کی طرف اگلے الیکشن میں آنے کی وعید عوام پر بجلی گرا رہی ہے کہ خدانخواستہ ا نہیں دوبارہ لایا گیا تو اب ناقا بل برداشت ہو گا۔ 3سال پہلے عوام کی قوت خرید کتنی تھی اور اب کتنی ہے؟ یہ کوئی نہیں بتاتا اور عوام کو بتایا جاتا ہے کہ ریکارڈ تعداد میں موٹر سائیکلیں بک گئیں، گاڑیاں بک گئیں، لیکن کوئی یہ بھی تو بتائے کہ کتنے کروڑ لوگ ایسے ہیں جو نہ تو گاڑی خرید سکتے ہیں اور نہ موٹر سائیکل خریدنے کی سکت رکھتے ہیں اور لاکھوں کروڑوں لوگ وہ ہیں جو مہنگائی کی وجہ سے اپنی گاڑیاں بیچ کر موٹر سائیکلیں خرید رہے ہیں اور جن کے پاس موٹر سائیکلیں ہیں ان کے پاس کچھ نہیں رہا،لاکھوں لوگ بیروزگار ہو گئے ہیں۔ اب جو کرپشن کی نئی رپورٹ میں پاکستان 4درجے نیچے جا چکا ہے۔ حکمران ابھی تک خوش فہمی کا شکار ہیں اور بقول میاں صاحب کہ اب تو عمران خان کو لانے والے بھی پچھتا رہے ہیں۔حکمرانو ںکا 3سال کا کچا چھٹا کھل کر سامنے آچکا ہے مگر وہ ابھی تک اپنی شکست ماننے کے لئے تیار نہیں ۔ ستم ظریقی تو دیکھئے نیوزی لینڈ کا دورہ منسوخ ہوااور ہم آئیںبائیں شائیںکر رہے ہیں، اپنی غلطی تسلیم کرنے کیلئے تیار نہیں۔ نیوزی لینڈ کرکٹ ٹیم کے دورے کی واپسی کے بعد انگلینڈ نے بھی اپنا دورہ پاکستان منسوخ کر دیا۔ یکے بعد دیگرے2انٹرنیشنل ٹورز منسوخ ہونا پاکستان کے لئے تکلیف دہ اور شرمناک بھی ہے۔

تازہ ترین