• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

یہ کس قسم کا اسکینڈل ہے اور یہ کیسے ’’پنڈورا پیپر ز ‘‘ ہیں جن میں 700 پاکستانیوں کا نام آیا، ان کی آف شور کمپنیز بے نقاب ہوئیں لیکن کیا فائدہ کہ ایک کروڑ 19لاکھ خفیہ فائلیں چھان ماری گئیں، دنیا بھر کے 600صحافیوں نے اس قدر محنت کی اور اس مشکوک آف شور سسٹم کو بے نقاب کیا لیکن ہمیں کیا حاصل ہوا؟ 

ہماری تو ساری کی ساری اُمیدیں ہی دم توڑ گئیں ہماری توحکومت بھی اس ا سکینڈل سے مایوس ہوئی ہے سارے حکومتی وزیر و مشیر انگشت بدنداں ہیں، ہوں بھی کیوں نہ کہ اس ناہنجار ’’انٹرنیشنل کنسورشیم آف انویسٹی گیٹو جرنلسٹس‘‘ کی یہ کس قسم کی تفتیش ہے کہ نہ اس میں آصف علی زرداری یا ان کی فیملی کا نام آیا، نہ نواز شریف، شہبازشریف، یا ان کے کسی خاندان کے فرد کا نام ہے، نہ مولانا فضل الرحمٰن، ایم کیو ایم، اسفندیار ولی یا کسی دوسری سیاسی جماعت کے کسی سرکردہ رہنما کی آف شور کمپنی نکلی ہے بلکہ گھوم پھر کے حکومتی وزرا، مشیروں اور کئی ایک ریٹائرڈ فوجی افسروں اور ان کے فیملی ارکان کے نام اس اسکینڈل میں شامل کر دیے گئے۔

اب حکومت کیلئے یہ ایک بڑی مصیبت آن پڑی ہے کہ وہ طعن و تشنیع کرے تو کس پر، کیا اپنے ہی وزیروں اور ان کے بھائی بندوں پر یا اپنے اتحادیوں کے بھائی بیٹوں پر ؟

اُلٹا ان ’’ آئی سی آئی جے ‘‘ والوں نے اللہ جانے کہاں سے ڈھونڈ ڈھانڈ کے 2زمان پارک لاہور کا ایڈریس بھی ڈال دیا کہ اس پتے پر بھی آف شور کمپنی موجود ہے، یعنی ان کی پوری کوشش تھی کہ وزیراعظم عمران خان کو بھی اس اسکینڈل میں انوالوو کیا جائے لیکن وہ تو شکر ہے کہ ایک بڑے ’باادب ‘ وزیر با تدبیر کمر کس کے میدان میں آئے اور دوڑ کی کوڑی یہ لائے کہ نہیں نہیں نمبر 2زمان پارک دو مختلف گھر ہیں۔ لیکن ان کا ایڈریس ایک ہی ہے اور اس ایک ایڈریس پر اگر کوئی آف شور کمپنی ہے بھی تو عمران خان کا اس سے کوئی تعلق نہیں اور اگر یہ آف شور کمپنی عمران خان کے کسی کزن وزن کی ہے تو وزیر اعظم اس کے کیسے ذمہ دار ہیں، یوں عمران خان ’’ آئی سی آئی جے ‘‘ کی اس مبینہ سازش سے بچا لئے گئے۔ 

یوں تو وزیر اعظم نے فوری بیان دیا ہے کہ ٹیکس چور ی، منی لانڈرنگ اور کرپشن کے ذریعے بیرون ملک اثاثے بنانے والوں کے خلاف تحقیقات ہوں گی اور کوئی گناہ گار بچ نہیں سکے گا۔ ویسے تو عمران خان آف شور کمپنی بنانے کو غلط نہیں سمجھتے اور کئی سال پہلے خود بھی آف شور کمپنی کے مالک تھے بعد ازاں انہوں نے یہ کمپنی ختم کر دی تھی، اب مخمصہ حکومت کیلئے یہ ہے کہ کہنے کو تو وزیر اعظم نے اعلان کر دیا ہے کہ گناہ گاروں کی تحقیقات ہوں گی اور یہ بچ نہیں سکیں گے لیکن قرآئن بتاتے ہیں کہ وزیراعظم کیلئے ایسا کرنا جوئے شیر لانے کے مترادف ہو گا ۔

’کاش ‘ اس نئے ’’ پنڈورا پیپرز ‘‘ اسکینڈل میں کوئی اقامہ کا ذکر ہوتا، اس بات کا ثبوت ہوتا کہ نواز شریف، آصف علی زرداری، فضل الرحمٰن یا ان کی فیملی کے کسی بندے نے آف شور کمپنیز کے ذریعہ اربوں روپے پاکستان سے لوٹ کربیرون ملک بینکوں میں رکھوائے ہیں تو آج پاکستان کے میڈیا پر کیا رونق لگی ہوتی بعض ٹوڈلر جیسے معصوم براق صفت حکومتی طمطراق سے اپوزیشن کے وہ لتے لے رہے ہوتے کہ الامان الحفیظ، بھولے بھالے عوام اس ’ فیض عام ‘ کے مزے لوٹ رہے ہوتے لیکن ’ افسوس ‘ کہ یہ مزہ کر کراہو گیا اور بازی الٹی پڑ گئی۔

حالت اب یہ ہے کہ کرپشن کا کُھرا اپنی ہی دہلیز پر آکر منہ چڑھا رہا ہے بلکہ لگتا یوں ہے کہ یہ ’کھرا ‘ پوری تبدیلی سرکار کا منہ چڑھائے گا۔ وزیر اعظم کا یہ سیاسی بیان تو قابلِ تحسین ہے کہ وہ اس بڑے مالیاتی اسکینڈل کا خیر مقدم کرتے ہیں اور میری حکومت پنڈورا پیپرز میں سامنے آنے والے تمام پاکستانی شہریوں کی تحقیقات کرے گی لیکن وہ یہ کیوں بھول گئے کہ پانامہ لیکس میں جو 480پاکستانی شہریوں کے نام تھے ان میں سے ایک دو کے علاوہ کس کا احتساب ہوا یا آپ کس کس کو اپنے تین سالہ دور ِ حکومت میں قانون کے کٹہرے میں لے کر آئے یا اب یہ 700 جمع 480یعنی 1180کیسز ہو چکے کیا ا ن کے خلاف بھی جے آئی ٹی بنے گی یا حکومت سپریم کورٹ جائیگی ؟

ہاں ! پانامہ لیکس میں احتساب تو اس وقت کے وزیر اعظم نواز شریف کا ہوا جن کا اپنا نہیں ان کے بیٹوں کے نام پانامہ لیکس میں آئے تھے لیکن انہیں بھی پانامہ کے بجائے اقامہ کیس میں نکالا گیا اور اب تو پانامہ سے بڑا مالیاتی اسکینڈل ہے جس میں 700 پاکستانی شامل ہیں تو کیا ’’ یوٹوپیا ‘ ‘ کی طرح یہ توقع کریں کہ پانامہ ملزموں کی طرح ’’ پنڈورا پیپرز ‘‘ کے ملزم بھی دندناتے پھریں گے۔ 

قبل ازیں بھی نواز شریف کا نام حالانکہ براہ راست پانامہ لیکس میں شامل بھی نہیں تھا لیکن فیصلہ کرنے والی قوتوں نے 479کو چھوڑ دیا اور اکیلے نواز شریف کو نشان عبرت بناکر اپنے ہاتھ جھاڑ لئے تو کیا آج خان حکومت بھی ایسا ہی کرے گی کہ ایک آدھ نا پسندیدہ بکرے کی قربانی دے کر باقی 699کو صاف بچا کر اپنی لغزش پا حکومت کے دن بڑھانے کی کوشش کرے گی ؟

معمہ اب یہ ہے کہ وزیر اعظم ان میڈیا مالکان، ریٹائرڈ جرنیلوں اور ان کے عزیز و اقارب اپنے وزیروں و مشیروں کیخلاف مقدمات کیسے چلوائیں گے احتساب کیسے کروائیں گے جبکہ پنڈورا باکس تو کھل چکا ہے تو ان کو سزا کس ماڈل کے تحت ملے گی۔

چائنا ماڈل، ریاستِ مدینہ ماڈل، پاکستان کے رائج ٹوٹے پھوٹے جمہوری نظام کے مطابق یا برطانیہ کی آئینی بادشاہت اور پارلیمنٹری سسٹم کے مطابق جہاں وزیر اعظم عمر کا ایک بڑا حصہ رہے اور جس نظام کی مثالیں دیتے نہیں تھکتے ؟ 

وزیر اعظم قوم کوایک دفعہ اپنی یہ پوزیشن بھی کلیئر کر دیں کہ 1983میں انہوں نے آف شور کمپنی کیوں بنائی تھی کیونکہ مئی 2016 میں وہ خود یہ اعتراف کرچکے ہیں کہ میں نے لندن میں فلیٹ خریدنے اور ٹیکس بچانے کیلئے آف شور کمپنی بنائی تھی جو کہ میرا حق تھا ، یقیناً آف شور کمپنی بنانا خلافِ قانون نہیں ہے لیکن ٹیکس نہ دینے کیلئے اسے استعمال کرنا ضرور جُرم ہے جو جانے انجانے میں آپ سے بھی ہوا جناب وزیر اعظم !

تازہ ترین