• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

انسانی ارتقا میں جدوجہد ہی وہ عامل ہے جس کی بدولت انسان نے تاریخ کے دھارے بدل دیے، تہذیبوں کو اٹھان بخشی اور مشکلات کا مقابلہ کرتے ہوئے کامیابی حاصل کی۔ انسانیت نہ صرف جدوجہد سے پہچانی جاتی ہے بلکہ اس کے مختلف پہلوئوں کو اجاگر بھی کرتی ہےلیکن بدقسمتی یہ ہے کہ جدوجہد انسان کے اندر لالچ اور ہوس بھی پیدا کرتی ہے، اس میں ناقابلِ تسخیر ہونے کا زعم پیدا کرتی ہے اور یہی روش تباہی کو جنم دیتی ہے اور متعدد پریشانیوں کا سبب بنتی ہے۔ یہ ایسا عمل ہے جو ایک بھیانک روپ دھار لیتاہے اور ترقی کے عمل کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچاتا ہے۔ لالچ اور ہوس کے اس بھیانک روپ سے بچے رہنا انتہائی اہم ہے۔

انسانی تاریخ نے بارہا تہذیبوں کے عروج وزوال اور ترقی وتنزلی کی داستانیں رقم ہوتے دیکھی ہیں۔ یہ وہ ارتقائی عمل ہے جو انسانی ذہن کے اندر پرورش پاتا ہے اور ترقی کی منازل طے کرتا ہے ۔ یہ انسانی جستجو کی ایک مثال ہے۔ آج ہم تاریخ کے جس دوراہے پر کھڑے ہیں وہ اسی جذبے کا مرہون منت ہے جسے ہمیں اپنی آئندہ نسلوں کا مستقبل محفوظ بنانے کے لئے بھی استعمال کرنا ہے لیکن ہمیں یہ حقیقت بھی تسلیم کرنا ہوگی کہ ایسی کوشش دن بدن مشکل سے مشکل تر ہوتی جا رہی ہے۔شاید ہم وقت کے دھاروں میں کھو چکے ہیں۔ آج ہمارے اندر انسانیت کی بھلائی کے ماضی کے جذبے اور حوصلے کی جگہ لالچ اور ہوس نے لے لی ہے جس کی جھلک ہمارے رویوں اور عمل میں واضح ہے جو حقیقتاً صرف اپنی ذات کے گرد منڈلاتی ہے۔ ہمیں ایسی اجتماعی کاوشوں کی ضرورت ہے جن کے ذریعے قوم کو اندھیروں سے نکالا جا سکے اور معاشرے کے پسماندہ اور محروم طبقات کی تقدیر بدلی جا سکے۔

اس بات کی نشاندہی کرنا ابھی مشکل ہے کہ ملک کے تاریخی ارتقا میں وہ لمحہ کب آیا جب معاشرہ اجتماعیت کے بجائے شخصیت کی طرف منتقل ہوا۔ اس کی ایک بنیادی وجہ ریاستی اداروں کے ساتھ سیاسی کھلواڑ بھی ہے۔ اداروں میں قابلیت ، دیانتداری اور پیشہ ورانہ عزم رکھنے والے افراد کی بجائے سیاسی قائدین کی جانب سے ایسے لوگوں کو تعینات کیا گیا جو سرکاری امور کی بجائے اپنے سیاسی آقائوں کے مفادات کے تحفظ پر مامور رہے۔ اداروں کو تباہ کر دیا اور ایک ایسے کلچر کی حوصلہ افزائی کی گئی جو فطری طورپر اجتماعی بھلائی کے خلاف تھا۔ اداروں میں شفافیت لانے ، جوابدہی اور سرکاری امور پیشہ ورانہ انداز میں چلانے کے بجائے افسر شاہی نے مقتدر حلقوں کے سامنے اپنے ضمیر بیچے۔ وقت کے ساتھ ساتھ اس کلچر نے سیاسی نظام میں جڑیں پکڑ لیں اور ریاستی اداروں کو مکمل طورپر مفلوج کرکے رکھ دیا۔ تنزلی کے اس عمل کو ان لوگوں کے ذریعے عملی جامہ پہنایا جاتا رہا جو بیوروکریسی کا لبادہ اوڑھے پس پردہ رہتے ہیں۔ وہ ذہنی غلامی کے ایک ایسے طوق میں جکڑے ہوئے ہیں جو نوآبادیاتی نظام نے امور مملکت چلانے کیلئے بنا یا تھا ۔ سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ آج بھی ہمارا معاشرہ ایسے ناخدائوں کی خدمت میں پیش پیش رہتا ہے۔ سب سے بدترین امر یہ ہے کہ ایسے لوگ اپنے آقائوں کو تنقید سے محفوظ رکھنے کیلئے بڑے اہتمام کے ساتھ راہ ہموار کرتے ہیں جس کی وجہ سے نہ صرف ایسے لوگ سنگین جرائم کا الزام عائد ہونے سے محفوظ رہتے ہیں بلکہ ان کے عہدوں پر بھی قدغن نہیں لگ سکتی۔

سرکاری نظم ونسق میں بعض اوقات عدالتوں کی جانب سے انصاف کی فراہمی کی بجائے کاری ضرب لگائی جاتی ہے ۔ درحقیقت انصاف کی فراہمی بھی زیادہ تر سیاسی کھیل بن چکا ہے۔ عدالتوں کی جانب سے حکم امتناعی کے احکامات ایسے دیے جاتے ہیں کہ گویا یہ ہر مبینہ مجرم کا بنیادی حق ہو جبکہ امیر اور طاقتور طبقے کی ضروریات اور خواہشات کو مدنظر رکھتے ہوئے مقدمات کی سماعت ہفتوں اور مہینوں کیلئے ملتوی کر دی جاتی ہے۔ یہ حقیقت اس بات کی نشاندہی کرتی ہے کہ مجرم موجودہ فرسودہ عدالتی نظام کی وجہ سے خود کو بہت زیادہ محفوظ سمجھتے ہیں۔ غیرفعال ادارے،کرپشن ، ناکارہ اور نااہل بیوروکریسی کے ساتھ ساتھ عدالتی نظام ، جو انصاف کی فراہمی میں ہچکچاہٹ کا شکار رہے اور میڈیا کے منفی کردارکی موجودگی میں ریاست کے پاس اپنی فعالیت بچانے کیلئے کچھ نہیں بچتا۔ موجودہ دور کا یہی سب سے بڑا چیلنج ہے جس کی وجہ سے آج سرکاری عملداری اور اس کی اخلاقیات پر مسلسل انگلیاں اٹھائی جا رہی ہیں۔ ان حالات کو پٹڑی پر لانے کے لئے کوشش تو کی جا سکتی ہے لیکن کوئی ایسا طریقہ نہیں کہ ان عوامل کو فوری درست کیا جا سکے جو ریا ست کے ایک بااعتماد ادارہ کے طور پر کام کرنے کے لئے انتہائی ضروری ہیں جس میں عوام کا معیار زندگی بہتر بنانے کی مکمل صلاحیت اور ہمدردی ہو۔

موجودہ حکومت نے غریب اور مستحق افراد کے لئے بہت کام کیا ہے اور مستقبل میں بھی ان کی خدمت جاری رکھے گی لیکن بدقسمتی سے حکومتی پالیسیوں کے ثمرات عوام تک پہنچانے کیلئے ترسیل کا ایک فرسودہ نظام ہے۔ جب تک اس خستہ حال نظام کو درست نہیں کیا جاتا حکومت کی نیک نیتی پر مبنی مثبت پالیسیاں بھی سودمند ثابت نہیں ہو سکتیں۔ ایسے نظام کا قلع قمع کرنے کا واحد حل یہی ہے کہ بلاتاخیر اور کسی دبائو میں آئے بغیر سخت اقدامات کئے جائیں جن کی بدولت کرپٹ نظام کو جڑ سے اکھاڑ پھینکا جائے۔اس کے ساتھ ساتھ عوام کی بہتری کے لئے اشد ضروری ہے کہ زمینی ناخدائوں کا فوری طورپر قلع قمع کیا جائے۔

(صاحبِ تحریر وزیراعظم کے معاونِ خصوصی برائے اطلاعات، سیاسی اور دفاعی تجزیہ کار اور ادارۂ علاقائی امن کے بانی ہیں)

تازہ ترین