• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اِس مرتبہ میں نے اپنی ٹائم مشین کو تین سو سال قبل مسیح یونان کے لئے سیٹ کیا تھا مگر یہ ستّر سال پیچھے جاکر ہی رُک گئی، اور وہ بھی یونان کی بجائے انگلستان میں۔ ویسے ایک لحاظ سے یہ اچھا ہی ہوا۔جس جگہ میں اترا وہ ٹرینٹی کالج، کیمبرج کا خوبصورت باغ تھا۔میں نے دل میں سوچا کہ اگر ستارھویں اٹھارھویں صدی کے آس پاس کہیں آ جاتا تو استاد نیوٹن سے ملاقات ہو جاتی۔ ابھی میں اسی حیرانی میں کھڑا ہونقوں کی طرح ادھر ادھر دیکھ رہا تھا کہ اچانک طلبا کا غول نظر آیا جو ایک بوڑھے پروفیسر نما شخص کے ساتھ تھا، اُس پروفیسر کے منہ میں پائپ تھا اور چہرے پر بلا کی طمانیت اور مہاتما بدھ جیسی شانتی۔ شکل کچھ جانی پہچانی سی لگی، غور کیا تو معلوم ہوا کہ قبلہ برٹرینڈ رسل ہیں۔ میں نے لپک کر سلام کیا اور اپنا جھوٹا سچا تعارف کروایا، انہوں نے شفقت سے جواب دیا اور اپنے شاگردوں کو جانے کے لئے کہا تاکہ مجھ سے کچھ گفتگو کر سکیں۔ چھوٹتے ہی پہلا سوال میں نے یہ کیا کہ آپ مذہب کے اس قدر خلاف کیوں ہیں، اگر کسی شخص کو مذہب کی آغوش میں آسودگی ملتی ہے تو آخر اِس میں غلط بات کیاہے ؟ یہ سُن کر برٹرینڈ رسل کے چہرے پر ایک خفیف سی مسکراہٹ اُبھر آئی اور وہ بولے :’’لو کریشس کا نام سنا ہے کبھی ؟ ‘‘ پھر میرے جواب دینے سے پہلے ہی بو ل پڑے :’’ یہ سو سال قبل از مسیح کا ایک لاطینی شاعر تھا، اِس کا کہنا تھا کہ مذہب انسانی خواہشات کے نتیجے میں جنم لیتا ہے، اِس سفاک اور بے رحم دنیا میں یہ انسان کو اطمینان دلانے کی کوشش کرتا ہے کہ اِس بھری کائنات میں کوئی اُس کا پرسان حال ہے اور یہ غلط فہمی مایوسی کا سبب بنتی ہے۔ میری رائے بھی اِس سے ملتی جلتی ہے۔ مذہب انسان کے انجانے خوف کے نتیجے میں پیدا ہوتا ہے، اور قطع نظر اِس بات کے، میں اسے انسان کی فطری آزادی کے بھی خلاف سمجھتا ہوں۔ خیر چھوڑو اِن باتوں کو، تمہیں ایک مزے کا واقعہ سناتا ہوں، 1918میں جب میرے نظریات کی پاداش میں مجھے جیل بھیجا گیا تو جیل وارڈن نے کاغذات میں اندراج کرنے کی غرض سے میرا مذہب پوچھا، میں نے جواب میں کہا Agnostic، اسے کچھ سمجھ نہ آئی،پوچھا کہ اِس کے ہجے کیا ہوں گے؟ پھر خود ہی کہنے لگے کہ دنیا میں اتنے سارے مذاہب ہیں لیکن میرا خیال ہے کہ وہ سب ایک ہی خدا کی پرستش کرتے ہیں۔ یقین کرو برخوردار اِس بات نے ایک ہفتے تک جیل میں میرا موڈ ہشاش بشاش رکھا۔ ‘‘رسل کے جواب سے میری تشفی نہیں ہوئی، میں نےسوچا انہیں موت کا کچھ خوف دلایا جائے، آخر موت ہی تو ایسا معمہ ہے جس کا کسی فلسفی کے پاس کوئی حل نہیں۔ ’’لارڈرسل، یہ بتائیں کہ ابھی چند سال پہلے ناروے میں آپ کا جہاز ایک حادثے کا شکار ہوا، آپ نے بڑی مشکل سے تیر کر اپنی جان بچائی۔ کیا آپ اسے معجزہ نہیں سمجھتے ؟ کیا آپ کو اُس وقت موت کا خوف محسوس نہیں ہوا؟ کیا آپ نے سوچا نہیں کہ اگر میں مر گیا اور خدا کے آگے پیش ہوا تو کیا جواب دوں گا ؟ ‘‘اپنی طرف سے گویا میں نے تُرپ کا پتہ پھینکا۔میرا سوال سُن کر رسل کے چہرے پر دوبارہ پھر وہی عالمانہ سی مسکراہٹ اُبھر آئی مگر اِس میں تکبر او ر غرور کا شائبہ تک نہیں تھا۔ ’’برخوردار، پہلی بات تو یہ ہے کہ میں اسے کوئی معجزہ نہیں سمجھتا بلکہ سچ پوچھو تو سگریٹ نوشی کی عادت نے میری جان بچائی۔ میری نشست اسموکنگ والے حصےمیں تھی اور اسی وجہ سے میں بچ گیا، ویسے بھی میں نے ائیر لائن والوں کو کہا تھا کہ اگر میں جہاز میں سگریٹ نہیں پی سکتا تو مجھے مر جانا چاہئے۔ ‘‘ یہ کہتے ہوئے رسل نے ایک ہلکا سا قہقہہ لگایا۔

برٹرینڈ رسل سے بات کرتے ہوئے میرا اعتماد اب کچھ بحا ل ہو چکا تھا، میں نے سوچا کہ موضوع بدلا جائے۔ ’’ آپ کے خیال میں زندگی کیسے گزارنی چاہئے ؟ کیا اِس کے لئے کچھ لگے بندھے اصول ہیں ؟ اور اگر اصول ہیں تو پھر ان اصولوں اور کسی عقیدے میں کیا فرق ہے ؟‘‘ اپنی طرف سے میں نے پھر رسل کو گھیرنے کی کوشش کی۔ رسل نے غور سے میری بات سنی اور جواب دیا کہ ’’ہر انسان اپنے اصول خود وضع کر سکتا ہے، یہی چیز اسے عقیدے سے ممتاز کرے گی۔ میں اپنے بارے میں بتا سکتا ہوں کہ میری زندگی پر تین باتوں کا غلبہ رہا۔ پہلی، محبت کی جستجو۔ دوسری، علم کی خواہش۔ تیسری، انسانیت پر ہونے والے مظالم پر کڑھنا۔ محبت آپ کو ایک عالم بے خودی میں لے جاتی ہے، یہ آپ کی تنہائی دور کرتی ہے، اِس عالم میں مجھے مسرت کے جو لمحات ملتے ہیں اُن کی خاطر میں پوری زندگی قربان کرسکتا ہوں۔ اسی طرح میں علم کا بھی طالب ہوں، میں نے یہ چاہا کہ جان سکوں کہ آسمان پر ستارے کیوں ٹمٹماتے ہیں، زیادہ تو نہیں مگر کچھ نہ کچھ تو میں نے جان ہی لیا ہے۔ محبت اور علم کی یہ جستجو مجھے جنت میں لے جاتی ہے مگر انسانیت پر ہونے والے مظالم مجھے واپس دنیا میں دھکیل دیتے ہیں۔ بھوک سے بلکنے والے بچے، جابر حکمرانوں کا تشدد سہنے والے لوگ، بے یارو مدد گار بوڑھے جو اپنے بیٹوں کی نظروں میں بوجھ ہیں، اور تنہائی اور غربت کی ماری یہ پوری دنیا جو انسانیت کے منہ پر ایک طمانچہ ہے، میں چاہتا ہوں کہ اِس ظلم کا کچھ مداوا کر سکوں مگر نہیں کر پاتا اور یہی بات میری لئے تکلیف کا باعث بنتی ہے۔ ‘‘یہ کہتے ہوئے رسل کی آنکھوں میں نمی آ گئی جسے چھپانے کی ناکام کوشش کرتے ہوئے انہوں نے مجھ سے پوچھا کہ کیا میں نے دوپہر کا کھانا کھایا ہے۔ نفی میں جواب پا کر وہ اٹھے اور میرا ہاتھ تھام کر بولے ’’چلو پھر اکٹھے کھاتے ہیں، تمہیں وہائٹ ہیڈسے بھی ملواؤں گا۔ ‘‘اس وقت تک مجھے شدیدبھوک لگ چکی تھی اس لئے میں انکار نہ کر سکا، ویسے اِس قسم کے دانشورانہ لنچ کی دعوت قبول نہ کرنا حماقت ہی ہوتی۔ چلتے ہوئے رسل نےمجھ سے بھی ایک سوال داغ دیا ’’برخوردار یہ بتا ؤ کہ اگر تمہیں کہا جائے کہ جمہوریت اور ایک بوری انا ج میں سے کسی ایک چیز کا انتخاب کرو تو بھوک کا وہ کون سا لمحہ ہوگا جب تم اناج کو جمہوریت پر ترجیح دو گے۔ ‘‘میرا دماغ چکرا کر رہ گیا۔ اِس سے پہلے کہ میں کچھ کہتا، لارڈ رسل مسکرائے او ر کہا ابھی جواب دینے کی ضرورت نہیں، گھر واپس جا کر سوچنا۔

تازہ ترین