گزشتہ چند مہینے جموں وکشمیر کے مسلمانوں پر بہت بھاری گزرے۔ پہلے مقبوضہ کشمیر میں قائد حریت سید علی گیلانی دنیا سے رخصت ہوئے تو اس کے ایک ماہ دس دن بعد آزادکشمیر کے ’لیاقت علی خان‘ سردار سکندر حیات نے قوم کو سوگوار چھوڑکر دارفانی سے عالم جاودانی کی طرف کوچ کیا۔ ہم سب اللہ کی طرف سے آئے ہیں اور سب کو اسی کی طرف لوٹ کے جانا ہے۔ سردار سکندر حیات خان اس بطل حریت کے چشم وچراغ تھے جس نے جموں وکشمیر کے مسلمانوں کو غلامی سے نجات دلانے کے لئے صرف دلوں میں کڑھنے کی بجائے ڈوگرہ راج کے خلاف عملی بغاوت کی راہ دکھائی پھر دیکھتے ہی دیکھتے ہر طرف اللہ اکبر اور آزادی کے نعرے گونجنے لگے اور ایک عظیم تر تحریک قائد کشمیر چوہدری غلام عباس اور شیخ محمد عبداللہ کی قیادت میں کل جموں وکشمیر مسلم کانفرنس کی صورت میں منصہ شہود پر آئی۔ نئی نسل کے لوگ کم ہی جانتے ہیں کہ اس تحریک کے اصل بانی سردار فتح محمد کریلوی تھے۔ چوہدری غلام عباس اور شیخ عبداللہ (شیخ صاحب بعد میں بھارت کی گود میں چلے گئے) کا مقام اپنی جگہ مگر وہ سردار کریلوی سے جونیئر تھے جنہوں نے ستائش کی تمنا نہ صلے کی پروا کرتے ہوئے ان دونوں کا بھرپور ساتھ دیا اور جموں وکشمیر کے طول و عرض میں ڈوگرہ مہاراجہ اور اس کے متعصب ہندو اہلکاروں کے ظلم وجبر کے ستائے ہوئے مسلمانوں میں بیداری کی لہر دوڑا دی۔ سردار فتح محمد کریلہ مجہان (موجودہ ضلع کوٹلی) کے باسی تھے جس کی مناسبت سے کریلوی کہلائے۔ یہ حقیقت بھی شاید تاریخ کے صفحات ہی میں پنہاں ہے کہ جموں وکشمیر ایک الگ ملک تھا جس میں پونچھ نام کی جاگیردارانہ ریاست اپنا وجود رکھتی تھی۔ پونچھ کی 98 فیصد آبادی مسلمانوں پر مشتمل تھی۔ ہندو صرف 2 فیصد تھے مگر وہاں کا راجہ ہندو اور جموں وکشمیر کے مہاراجہ کے ماتحت تھا۔ سردار فتح محمد کریلوی اس وقت پولیس میں ملازم تھے مگر مسلمانوں پر راجہ کے مظالم برداشت نہ کرسکے اور 1927 میں اس کے خلاف علم بغاوت بلند کرکے تھکیالہ پرادہ میں اس کی کسٹم چوکیاں جلادیں۔ مسلمانوں کی ہمت بندھی تو انہوں نے سود خور ہندوؤں کی دکانیں اور گھر بھی نذر آتش کردیئے۔ ہندوؤں نے بھاگ کر پونچھ شہر میں پناہ لی۔ مہاراجہ کشمیر نے پونچھ کے راجہ کی مدد کے لئے جموں سے فوج بھیجی جس سے پورے جموں وکشمیر میں شورش برپا ہوگئی۔ اسی شورش نے آگے چل کر 1931 کے سانحہ سری نگر کے بعد 1932 میں کل جموں وکشمیر مسلم کانفرنس کے قیام کی صورت میں باقاعدہ تحریک آزادی کی شکل اختیار کی۔ سردار فتح محمد نے کوئی منصب یا عہدہ قبول کئے بغیر چوہدری غلام عباس کی قیادت میں آزاد خطے کو بیس کیمپ بنا کر آزادی کی شمع روشن رکھی۔ پھر چراغ سے چراغ جلا اور ان کے صاحبزادے سکندر حیات نے عظیم باپ کے ہاتھوں سےحریت کا پرچم تھام لیا اور مجاہد اول سردار عبدالقیوم خان اور غازی ملت سردار محمد ابراہیم خان کی قیادت میں جموں وکشمیر کی آزادی کے لئے وہی کردار اپنا لیا جو قائد ملت لیاقت علی خان نے قائداعظم کی قیادت میں تحریک پاکستان کو کامیابی سے ہمکنار کرنے کے لئے اختیار کررکھا تھا۔ فرق صرف یہ کہ انہوں نے اپنی منزل پالی اور ان کا سفر ادھورا رہا۔ عظیم باپ کا یہ عظیم بیٹا زندگی کی 89 بہاریں گزار کر اتوار 10 اکتوبر کو دنیا سے چلا گیا مگر اپنا نام رہتی دنیا تک چھوڑ گیا۔ سردار سکندر حیات اپنے والد کی مجاہدانہ سرگرمیوں میں ان کے ساتھ ساتھ رہے جس کی وجہ سے جموں وکشمیر کی آزادی اور الحاق پاکستان کے نظریے سے غیر متزلزل وابستگی ان کا جزو ایمان بن گئی۔1959 میں سیز فائرلائن تو ڑ دو، تحریک میں انہوں نے بھرپور حصہ لیا ۔ اندرون اور بیرون ملک کشمیر کاز کے لیے زندگی بھر متحرک رہے۔ لوگوں میں گھل مل کر رہنے کی بدولت انہیں عوامی مسائل ومشکلات کا شرح صدر سے ادراک تھا چنانچہ 1970 میں پہلی بار آزادکشمیر اسمبلی کا الیکشن لڑا اور بھاری اکثریت سے جیت گئے پھر زندگی بھر ہر الیکشن میں فتح یاب ہوتے رہے۔ 1972 میں پہلی بار وزیر اور 1985 میں وزیراعظم منتخب ہوئے، وہ دوبار وزیراعظم اور ایک بار صدر بھی رہے۔ آزادکشمیر اسمبلی میں بطور قائدِایوان ان کا بڑا کارنامہ قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دینے کی قرارداد منظور کرانا ہے جو ایوان کے ایک رکن میجر (ر) سردار محمد ایوب نے کسی پیشگی منصوبہ بندی کے بغیر پیش کرکے حکومت کو امتحان میں ڈال دیا تھا۔ پاکستان پر بھی اس کے قوی اثرات پڑنے تھے اس لئے وزیراعظم بھٹو نے اسے رکوانے کے لئے زبردست دباؤ ڈالا مگر سردار سکندر، صدر سردار قیوم کی تائید سے اس کی حمایت میں ڈٹ گئے اور قرارداد کو منظور کرالیا۔ اس کے نتیجے میں یہ قرارداد پاکستان میں بھی منظور کرانا پڑی۔ مسلم کانفرنس اور اس کی سیاست ان کا اوڑھنا بچھونا تھی۔ بھٹو کے خلاف مسلم کانفرنس پاکستان قومی اتحاد کا حصہ بنی اور سردار سکندر حیات کو پی این اے کا سیکرٹری جنرل منتخب کیا گیا جس سے وسیع تر قومی سیاست میں ان کی قائدانہ صلاحیتیں سامنے آئیں۔ 1989 میں آزادکشمیر اسمبلی نے شریعت بل منظور کراکے عدالتوں کو شرعی قوانین کے مطابق فیصلے کرنے کا پابند بنایا۔ وہ آزادکشمیر میں ترقیاتی منصوبوں کا جال بچھانے والے وزیراعظم کے طور پر جانے جاتے ہیں۔ مشہور ہے کہ ان کے پاس داد رسی کے لئے جو بھی آیا خالی ہاتھ واپس نہیں گیا۔ وہ ایک عہد ساز شخصیت اور حلیم الطبع انسان تھے۔ سیاست میں وضعداری اور مخالفین کے ساتھ حسن سلوک ان کے کردار کی نمایاں خوبی تھی۔ جمہوریت کے لئے جدوجہد اور قربانیوں کے اعتراف میں عوام نے انہیں سالار جمہوریت کا خطاب دیا۔ زندگی کے آخری حصے میں مسلم کانفرنس کے اندرونی خلفشار سے بددل ہوکر وہ تحریک آزادی کی اس بانی جماعت سے الگ ہوگئے اور مسلم لیگ (ن) کا ڈول ڈالا مگر جلد ہی اپنی غلطی کا احساس ہوگیا۔ چنانچہ 2021کے الیکشن سے قبل وہ سپریم ہیڈ کے طور پر اپنی اصلی جماعت میں واپس آگئے۔ سردار سکندر آج ہم میں نہیں ہیں مگر سیز فائر لائن کے دونوں اطراف وہ کشمیریوں کے دلوں میں ہمیشہ زندہ رہیں گے۔