• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستان کی سیاست میں شاید وہ مرحلہ آ گیا ہے ، جس کے بارے میں کچھ عرصہ قبل سابق صدر آصف علی زرداری اور بعض دیگر سیاسی رہنما پیش گوئی کرتے تھے کہ تحریک انصاف کی حکومت کے خلاف تحریک چلانے کی ضرورت نہیں ہے ۔ یہ حکومت خود ناکام ہو کر اپنے منطقی انجام کو پہنچ جائے گی لیکن پٹرولیم مصنوعات اور دیگر بنیادی اشیاء کی قیمتوں میںحالیہ بے پناہ اضافہ کے بعد مسلم لیگ (ن) کے رہنما رانا ثناء اللہ نے تجویز دی ہے کہ اپوزیشن کی سیاسی جماعتوں کو اب اسلام آباد کی طرف لانگ مارچ کی کال دینی چاہئے ۔ اس طرح پاکستانی سیاست کا ایک پرانا سوال ایک بار پھر پوری شدت کے ساتھ سامنے آیا ہے کہ ’’ سسٹم ‘‘ کے منطقی انجام تک پہنچنے کا انتظار کیا جائے یا پاکستان میں حقیقی سیاسی تبدیلی کے لئے مزاحمت کا راستہ اختیار کیا جائے ؟ تحریک انصاف کی حکومت میں پاکستان معاشی ، سیاسی داخلی اور خارجی طور پر جہاں پہنچ گیا ہے ، غورو فکر کرنے والے حلقوں کو اس پر حیرت نہیں ہے ۔ موجودہ حالات پیدا ہونے کے اسباب کو تفصیل سے بیان کرنے کی ضرورت نہیں ہے ۔ اس کےلئے صرف یہ کہنا کافی ہے کہ پاکستان کو یہاں تک پہنچانے کے لئےملکی اور بین الاقوامی طاقتوں نے جو فیصلے کئے ، تحریک انصاف کی حکومت نے ان فیصلوں کے خلاف اتنی بھی مزاحمت نہیں کی ، جتنی پاکستان پیپلز پارٹی اور پاکستان مسلم لیگ (ن) کی حکومتوں نے کی تھی ۔ تحریک انصاف کے سیاسی سفر اور ’’ کامیابیوں ‘‘ کو مدنظر رکھا جائے تویہ بات بھی واضح ہو جاتی ہے کہ وہ مزاحمت کرنے کی پوزیشن میں بھی نہیں ہے ۔ لہٰذا ہونا یہی تھا، جو ہو رہا ہے ۔ جہاں تک اپوزیشن کی سیاسی جماعتوں کے موجودہ حالات میں کردار کا سوال ہے ، وہ بھی بڑی سیاسی مزاحمت کے لئے تیار نہیں ہیں، جس کے بغیر حقیقی تبدیلی ممکن نہیں ۔ پاکستان مسلم لیگ (ن) کی قیادت یہ دعوی کرتی ہے کہ اس کا نہ صرف بیانیہ مزاحمتی ہے بلکہ سیاست بھی مزاحمتی ہے لیکن حال ہی میں اسے حقیقی مزاحمتی سیاست کا ایک موقع میسر آیا تھا ، جو اس نے اختیار کرنے سے انکار کیا ۔ پاکستان ڈیمو کریٹک موومنٹ ( پی ڈی ایم ) کے اسلام آباد کی طرف لانگ مارچ کے پروگرام کو پاکستان مسلم لیگ (ن) ، جمعیت علمائے اسلام اور دیگر اتحادی سیاسی جماعتوں نے یہ کہہ کرانکار کر دیا کہ پہلے اپوزیشن ارکان قومی اور صوبائی اسمبلیوں سے استعفادیں ۔ ان کے برعکس پیپلز پارٹی کی قیادت کا موقف یہ تھا کہ اسمبلیوں سے اپوزیشن ارکان کے استعفوں کے بعد حکومت ضمنی انتخابات کرا دے گی اور اپوزیشن کے پاس احتجاج کرنے کےلئے اسمبلیوں کا فورم بھی نہیں رہے گا ۔ پیپلز پارٹی لانگ مارچ کی حامی تھی ۔ اگر یہ لانگ مارچ ہو جاتا تو پاکستان کی سیاسی کیمسٹری تبدیل ہو جاتی ۔ مزاحمتی سیاست کا راستہ بہت مشکل ہے اور اس میں بہت آزمائشیں ہوتی ہیں ۔ پیپلز پارٹی اور ملک کی دیگر قومی اور عوامی جمہوری قوتوں نے یہ راستہ اختیار کرکے بہت قربانیاں دی ہیں ۔ کچھ حلقوں کا یہ اندازہ درست ہے کہ پیپلز پارٹی اب یہ راستہ اختیار کرنے میں بہت محتاط ہے ۔ پی ڈی ایم کے پلیٹ فارم سے وہ لانگ مارچ کرنے پر اس لئے زور دے رہی تھی کہ بعد ازاں اس مزاحمتی سیاست کی جو قیمت ادا کرنا پڑے گی ، وہ اسے اکیلے نہیں ادا کرنا پڑے گی ۔

حقیقی ایشوز پر عوام کو سڑکوں پر لانا ہی مزاحمتی سیاست ہے ۔ ویسے تو ملکی اور بین الاقوامی اسٹیبلشمنٹ کی کارندہ سیاسی جماعتیں بھی نان ایشوز پر بڑے بڑے عوامی اجتماعات کر لیتی ہیں لیکن ان سے اسٹیبلشمنٹ کو خوف نہیں ہوتا ۔ وہ خوفزدہ تب ہوتی ہیں ، جب لوگ اپنے جمہوری ، سیاسی ، معاشی ، سماجی اور گروہی بنیادی حقوق کےلئے سڑکوں پر آجاتے ہیں ۔ 18اکتوبر 2007ء کو محترمہ بے نظیر بھٹو کی وطن واپسی پر جو عوامی طوفان اٹھا تھا ، وہ پاکستان کی جمہوری تحریکوں اور خصوصاً تحریک بحالی جمہوریت ( ایم آر ڈی ) کے بعد حقیقی مزاحمتی سیاست کا حامل عوامی طاقت کا آخری اور بھرپور مظاہرہ تھا ، جو دہشت گردی کے ذریعے منتشر ہو گیا ۔ محتر مہ بے نظیر بھٹو اپنی سیاسی اور بین الاقوامی لابنگ کے ذریعے اپنی وطن واپسی کےلئے جنرل پرویز مشرف کی حکومت کو مجبور کر چکی تھیں لیکن محترمہ اپنی کتاب ’’ مفاہمت ‘‘ میں لکھتی ہیں کہ جنرل پرویز مشرف نے انہیں پیغام بھجوایا کہ وہ وطن واپس ضرور آئیں لیکن کراچی ایئرپورٹ سے سیدھا ہیلی کاپٹر کے ذریعے بلاول ہاوس چلی جائیں ۔ وہ کسی قسم کا عوامی اجتماع نہ کریں ۔ محترمہ بے نظیر بھٹو نے یہ ’’ مشورہ ‘‘ نہیں مانا اور عوامی طاقت کے مظاہرے کی قیمت ادا کی ۔ پی ڈی ایم کے جلسوں نے کامیاب لانگ مارچ کے حالات پیدا کر دیئے تھے اور پاکستان میں کیفیتی سیاسی تبدیلی کے امکانات روشن ہو گئے تھے لیکن پھر پی ڈی ایم اختلافات کا شکار ہوئی اور لانگ مارچ منسوخ کر دیا گیا ۔ مسلم لیگ (ن) کے رہنما رانا ثناء اللہ خان پھر لانگ مارچ کی تجویز دے رہے ہیں ۔ پہلے وہ اپنی قیادت سے پوچھیں کہ ان کی سیاسی جماعت اس لانگ مارچ کی متحمل ہو سکتی ہے ۔ پاکستان کی سیاست اور معیشت میں مداخلت کے خلاف مزاحمت ، عوامی لانگ مارچ کا مطلب ہو گا تقسیم کی سیاست کے خلاف مزاحمت ۔ پھر حکومت میں آنے کے بعد ان سارے عوامل کو بھی کھلی مزاحمت کرنا ہو گی ۔ ورنہ نہ تو مہنگائی کنٹرول ہو گی ، نہ احتساب کا غیر جانبدارانہ اور شفاف نظام قائم ہو سکے گا اور نہ گڈ گورننس ہو سکے گی ۔

حتمی اور فیصلہ کن راستہ پرامن سیاسی مزاحمت کا ہے ، جو تاریخ کا ایک قرض ہے ۔ جتنا یہ قرض ادا کرنے میں دیر کی جائے گی ، سود بڑھتا جائے گا ۔ عوام کو مہنگائی ، کرپشن ، احتساب کے غیر شفاف نظام اور سیاست میں غیر متعلق قوتوں کی مداخلت کے خلاف جدوجہد میں ساتھ ملانا ہو گا ۔ اگر یہ راستہ اختیار نہ کیا گیا تو موجودہ مہنگائی ، بے روزگاری اور مایوسی میں افراتفری اور انتشار کے حالات پیدا ہوں گے اور ان حالات کو غیر سیاسی طاقتیں اپنے مقاصد کے لئے استعمال کر سکتی ہیں۔ افغانستان میں طالبان کی حکومت کے بعد وہاں ’’ داعش ‘‘ بھی نئی طاقت کے ساتھ آگے بڑھ رہی ہے اور یہ اس اسکرپٹ کا حصہ ہے ، جس کے تحت حقیقی عوامی اور مزاحمتی سیاست کا راستہ روکنا ہے ۔

تازہ ترین