• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستان کا مردم خیز صوبہ، بلوچستان، متنوّع موسمی حالات، مہمان نوازی کے علاوہ تازہ پھلوں، خشک میوہ جات اور لائیواسٹاک کی وجہ سے مشہور ہے، تو اپنے خوش رنگ، لذیذ اور روایتی کھانوں کے حوالے سے بھی شہرت رکھتا ہے۔ نو ہزار سال قدیم مہر گڑھ کے آثار پر تحقیق سے پتا چلتا ہے کہ اُس دَور کے لوگ جانوروں کے گوشت سے مختلف اقسام کی خوش ذائقہ ڈشز تیار ہی نہیں کرتے تھے، انہیں محفوظ رکھنے کے ہُنر سے بھی واقف تھے۔ دراصل بلوچستان میں کھانے پینے کی اشیاء زیادہ عرصے تک محفوظ رکھنے اورپھر ناموافق موسموں میں استعمال میں لانے کے کئی طریقے زمانۂ قدیم سے رائج ہیں۔ 

یہاں گوشت، مچھلی، زرد آلو (خوبانی)، شنے، دودھ، مکھن اور ساگ کے پتّوں سمیت دیگر اشیاء خشک کرکےطویل عرصے تک استعمال کرنے کا طریقہ صدیوں سے چلا آرہا ہے۔ ابتدائے آفرینش میں انسان اپنی غذا کے حصول کے لیے جنگلی جانوروں کا شکارکرتا تھا اور جب تک اُس کا گوشت خراب نہیں ہوتا، اُسے استعمال میں لاتارہتا۔ پھر رفتہ رفتہ گوشت کو محفوظ کرکے اُسے زیادہ عرصے تک قابلِ استعمال بنانے کی راہ ہم وار ہوئی۔ مزید برآں، جب انسان آگ کی دریافت کے قابل اور اس کی اہمیت سے آگاہ ہوا، تو اُس پر کھانا پکانے لگا، جس سے خوراک کی افادیت اورذائقے میں اضافہ ہوا۔ بہرحال، زیرِنظر مضمون میں قدیم دَور کے کچھ روایتی کھانوں اور ان کی تیاری کے حوالے سے چیدہ چیدہ معلومات نذرِ قارئین ہے۔

بلوچستان کے روایتی کھانے اپنی لذّت و غذائیت کی وجہ سے مُلک بھر میں معروف ہیں۔ جس طرح پاکستان کے مختلف علاقوں کی اپنی تہذیب و ثقافت اور مخصوص غذائیں ہیں، اسی طرح صوبہ بلوچستان کی بھی کچھ منفرد روایات اورخاص پکوان ہیں۔ یہاں جن مختلف کھانوں کا رواج ہے،اُن میں سب سے معروف پکوان سجّی، کاک اور دَم پُخت ہیں۔ صوبۂ بلوچستان کے سرد علاقوں میں صدیوں سے چھوٹے جانوروں کا گوشت دھوپ میں خشک کرکے سردیوں میں استعمال کرنے کا رواج عام ہے۔ 

جسے پشتو میں ’’لاندی‘‘ اور بلوچی یا براہوی میں ’’خدیت‘‘ کہاجاتا ہے۔ چھوٹے جانور، خصوصاً بھیڑ ذبح کرنے کے بعد کھال اُتار کر اس پر نمک اور ہینگ کا لیپ کیا جاتا ہے تاکہ اُسے کیڑا نہ لگے۔ بعض جگہ ذبح شدہ جانوروں کے بال جلا کر کھال کے ساتھ بھی محفوظ کیا جاتا ہے۔ پھر اس کے ٹکڑے کرکے حسبِ ضرورت سالن کا شوربا بنایاجاتا ہے۔ اُس میں مونگ کی ثابت دال ملانے سے ذائقہ دوچند ہوجاتا ہے۔ بلوچستان کے دُور دراز علاقوں میں شہروں کی طرح دکانوں پر جا بجا گوشت دست یاب نہیں ہوتا، لہٰذا اب بھی ان علاقوں میں اسی قدیم طریقے سے خشک گوشت محفوظ کرکے استعمال میں لایا جاتا ہے اور سردیوں میں پروٹین کی کمی پوری کی جاتی ہے۔ ان علاقوں میں چھوٹے جانوروں کے تازہ گوشت سے سجّی، روسٹ، دَم پُخت اور کھڈّی کباب وغیرہ بنائے جاتے ہیں۔

سجّی: سجّی وہ پکوان ہے، جو نہ صرف صوبہ بلوچستان کی ثقافت اور روایت کا حصّہ ہے، بلکہ اسے مُلک بھر میں صوبے کی پہچان بھی سمجھا جاتا ہے۔ قدرتی ماحول اور قدرتی اشیاء سےتیار ہونے والی مزے دارسجّی لوگ بہت ذوق و شوق سے تناول کرتے ہیں۔ 

سجّی پکانے کے یوں تو کئی طریقے ہیں، تاہم عام روایتی طریقے کے مطابق کسی درخت یا زیتون کی تازہ ٹہنی میں گوشت کے ٹکڑوں کو پرو کر مناسب فاصلے سے زمین میں نصب کردیا جاتا ہے، پھر اس کے درمیان آگ جلا ئی جاتی ہے، لیکن یہ خیال رکھنا ضروری ہے کہ آگ کی لَپٹیں براہِ راست گوشت کونہ چھوئیں، بلکہ گوشت مناسب تپش پر آہستہ آہستہ پکتا رہے۔ گوشت کو نرم رکھنے کے لیے اس پر کھانے کا تیل یا چربی لگائی جاتی ہے۔ تھوری دیر میں آگ کی تپش سے گوشت گل جاتا ہے اور خوش ذائقہ، مزے دار سجّی تیار ہوجاتی ہے۔ 

جسے حسبِ ضرورت نمک اور مسالے لگاکر نوش کیا جاتا ہے۔ یاد رہے کہ جانور جتنا فربہ ہوگا، اس کی سجّی بھی اُتنی ہی لذیذ ہوگی۔ سجّی کھلی جگہ کے علاوہ تندور کے اندر بھی تیار کی جاتی ہے، جہاں انگارے سلگا کر لکڑی یا لوہے کی سلاخ میں پروئے گئے گوشت کو تندور کے اندر رکھ کر تندور کا منہ اچھی طرح بند کر دیا جاتا ہے۔ اس کی تیاری میں ڈھائی سے تین گھنٹے لگتے ہیں اور اس دوران آگ کی تپش سے گوشت سے اٹھنے والی خوشبو، بھوک کو دوچند کر دیتی ہے۔

کاک: کاک روٹی کی ایک قسم ہے، اسے عموماً پتھر کی روٹی بھی کہا جاتا ہے اور یہ بلوچ ثقافت کا ایک اہم پکوان ہے۔ مزے کی بات یہ ہے کہ اُسے پکانے کے لیے کسی برتن یا دیگر لوازمات کی بھی ضرورت نہیں پڑتی۔ ان علاقوں میں برتن اور توے کے بغیر بھی روٹی پکانے کا طریقہ رائج ہے، جسے کاک (کُرنُو) کہاجاتا ہے۔ اس طرح کی روٹی پکانے کے لیے سب سے پہلے ایک بڑے سے پتھر کو خوب اچھی طرح دھو کر اس میں آٹا گوندھا جاتا ہے۔ پھر جمع کیے گئے گول گول پتھروں کو دہکتی آگ میں خُوب گرم کرنے کے بعد اُن پر آٹا لپیٹ کر دہکتے کوئلوں کے قریب پکنے کے لیے رکھ دیا جاتا ہے۔ جب تھوڑی دیر میں وہ اچھی طرح پک جاتا ہے، تو پتھرسے نکال کر اسے روٹی کی طرح استعمال کیاجاتا ہے۔ یہ ذائقے میں بڑا ہی لذیذاور صحت بخش ہوتا ہے۔

نمکین روسٹ: یہاں کا ایک اور پکوان، نمکین روسٹ بھی بہت مقبول ہے، جسے تیار کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ سب سے پہلے چھوٹے جانور کے گوشت کو مناسب ٹکڑوں میں اس طرح کاٹا جاتا ہے کہ اس میں گوشت اور ہڈی دونوں موجود رہیں۔ پھر اسے پانی میں اُبالنے کے بعد حسبِ ضرورت نمک اور ہلدی ملادی جاتی ہے۔ چوں کہ اُس میں نمک اورہلدی کے علاوہ کسی قسم کا اورکوئی مسالا شامل نہیں کیا جاتا، اس لیے یہ نمکین روسٹ کہلاتا ہے۔ جب گوشت گل جاتا ہے، تو تقریباً ایک ایک پاؤ کا ٹکڑا بطور ِخاص مہمان کو پیش کرنے کے لیے رکھا جاتا ہے، جب کہ اُس میں رہ جانے والا پانی جو چکنائی سے پُر ہوتا ہے، الگ سے مہمانوں کو پیش کیا جاتا ہے۔

دَم پخت اور کھڈّی کباب:ھڈی کباب کا شمار بھی بلوچستان کی مخصوص ڈشز میں ہوتا ہے، جو سالم دنبے یا بکرے سے تیار کیے جاتے ہیں۔ اسے پکانے کا طریقہ بڑا دل چسپ ہے۔ سب سے پہلےچھوٹے جانور کی کھال اُتار کر اس کے پیٹ کو اچھی طرح صاف کرکے سالم شکل میں ایک تندور نما جگہ یا گڑھے میں رکھ دیا جاتا ہے، جہاں وہ معلّق رہتا ہے اور اس کے چاروں طرف آگ کے کوئلے دہکادیئے جاتے ہیں۔ 

پھر اس تندور کو لپائی کرکے بند کیاجاتا ہے۔ مقررہ وقت پر جب لپائی شدہ حصّے کو ہٹایا جاتا ہے، تو اس وقت تک دَم پخت تیار ہوچکا ہوتا ہے۔ اُس کے کوئلوں کی راکھ کوقدرے فاصلے پر اس طرح رکھا جاتا ہے کہ وہ گوشت سے ملنے نہ پائے۔ بعض اوقات بکرے یابھیڑ کے پیٹ کو اچھی طرح صاف کرکے اس میں چاول دھوکر ڈال دیئے جاتے ہیں۔ دَم پخت کی یہ ضیافت پندرہ سے بیس مہمانوں کے لیے کافی ہوتی ہے۔

آلو بخارے کا سالن: آلو بخارے کو خشک کرکے اُس سے سالن تیار کیاجاتا ہے۔ خصوصاً اُس آلو بخارے سے، جس کا ذائقہ ترش ہوتا ہے۔

شنے: بلوچستان کے پہاڑوں میں ایک درخت پایا جاتا ہے، جس سے پیدا ہونے والے میوے کو پشتو میں ’’شنے‘‘ اور بلوچی، براہوی میں ’’گُون‘‘ کہاجاتا ہے۔ اس سبز رنگ کے خشک میوے کا سائز کالی مرچ کے برابر ہوتا ہے، اس کی اوپری سطح کے نیچے ایک سخت خول ہوتا ہے اور اُس کی کھال اور گِری خشک میوےکی مانند ہوتی ہے۔ کئی علاقوں میں اس سے سالن بھی تیار کیاجاتا ہے۔

بورکی،آبوس، ستّو: بلوچستان کےکچھ علاقوں میں ساگ اور سبز پتّوں کو بھون کر پراٹھے کی طرح دو روٹیوں کے درمیان رکھ کے کھایا جاتا ہے، جسے ’’بور کی‘‘ کہتے ہیں۔ اسی طرح گندم کے سبز خوشے کو بھی آگ پر بھون کر کھایا جاتا ہے، جسے براہوی میں ’’آبوس‘‘ کہتے ہیں۔ جب کہ پسی ہوئی گندم کو بھوننے کے بعد اُس میں گڑ ڈال کر ’’ستّو‘‘ بنایا جاتا ہے۔

کھجور/ ڈنگ: بلوچستان کے گرم علاقوں میں کھجور کی پیداوار کثرت سے ہوتی ہے، خصوصاً مکران کا علاقہ تو کھجور کی پیداوار کے لیے مشہور ہے۔ کھجور کو کئی طریقوں سے خوراک کے لیے استعمال کیاجاتا ہے۔ پیلے رنگ کی ادھ پکی کھجور کو ڈنگ کہاجاتا ہے، جب کہ پوری پکی ہوئی کھجوروں کو خوراک کے طور پر بھی استعمال کیا جاتا ہے۔

مچھلی کا لوجر: ساحلی علاقوں میں مچھلی کو خشک کرکے استعمال کرنے کا بھی رواج ہے، جسے مقامی زبان میں’’لوجر‘‘ کہاجاتا ہے۔ اس کا سالن بھی بنتا ہے، جسے چاول کے ساتھ استعمال کیاجاتا ہے۔

دودھ سے تیار لوازمات: غذائیت کے لحاظ سے دودھ اور اس سے تیار کردہ لوازمات کی اہمیت سے بھی انکارنہیں کیا جاسکتا۔ تازہ دودھ کو پشتو میں ’’شدے‘‘ بلوچی میں ’’شِیر‘‘ اور براہوی میں ’’پروال‘‘ کہاجاتا ہے۔ دودھ کو خشک کرکے جب لسّی میں دوبارہ ملایاجاتا ہے، تو اس کا ذائقہ دوچند ہوجاتا ہے، جسے مقامی طور پر ’’سمبار‘‘ کہتے ہیں۔ لسّی میں تھوڑا سا دودھ ملا کر اُبالنے سے گاڑھا ہوجاتا ہے، جسے’’شیلانچ ‘‘یا چکہ کہاجاتا ہے، پھر اسے خشک کرکے ٹکیاں بنائی جاتی ہیں، جنہیں بعد ازاں پانی میں ابال کر مزے دار سالن تیار کیا جاتا ہے۔

تریت: بلوچستان میں گوشت کے شوربے کو پتلا کرکے اس میں روٹیاں توڑ کر کھانے کا رواج بھی عام ہے، جسے ’’تریت‘‘ کہاجاتا ہے۔ روٹی نرم ہوجانے اور گوشت کے شوربے کے امتزاج سے ’’ تریت‘‘ ایک زود ہضم غذا بن جاتی ہے۔ حضور اکرم ﷺ کے دَور میں بھی اس قسم کی ایک غذا مروّج تھی۔ جسے ’’ثرید‘‘ کہا جاتا تھا، جو حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بہت مرغوب تھی۔ 

بلوچستان میں سالن پکانے کے لیے اگر گوشت، سبزی یا دیگر اشیاء نہ ہوں، تو صرف گھی پیاز، مرچ، نمک اور پانی سے بھی سالن تیار کیا جاسکتا ہے۔ جسے پشتو میں ’’اشکنہ‘‘ اور براہوی میں ’’دروغ بیدیر‘‘ کہاجاتا ہے۔ اس پتلے شوربے میں بھی روٹی توڑ کر ڈالی جاتی ہے، جس سے لذیذ خوراک تیار ہوجاتی ہے۔ اگر اس میں پانی کی بجائے لسّی، دہی یا کُرد گھول دیا جائے، تو اُسے کلجوش کا نام دیا جاتا ہے۔

بلوچستان کے لوگ اپنی بودوباش اور علاقائی رہن سہن کی وجہ سے چوں کہ آبادی سے دُور ہوتے ہیں، اس لیے مشکل حالات میں بھی جینے کا ہنُرجانتے ہیں۔ برتن اور کھانے پکانے کا سامان نہ بھی میسّر ہو تو اپنی غذا کا مناسب اہتمام کرہی لیتے ہیں۔ گوشت دست یاب ہو، تو مشکل سے مشکل کھانا بھی با آسانی تیار کرلیتے ہیں، اور اگر نہ ہو، تو دست یاب وسائل ہی کو استعمال کرکے اپنے لیے دو وقت کی خوراک کا بندوبست کرلیتے ہیں مگر غذا کے حصول کے لیے دوسروں پر انحصار نہیں کرتے۔

تازہ ترین