• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
یکم جون 2016ء کو صدر مملکت جناب ممنون حسین کے پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے خطاب کے دوران اپوزیشن کے بعض ارکان نے پارلیمانی روایات سے ہٹ کر صدر کی تقریر کے بعض حصوں پر احتجاج کیا جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ صدر کے خطاب کو پارلیمانی روایات کی روشنی میں نہیں دیکھا گیا۔ یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ آیا صدر کے خطاب کے دوران کسی قسم کی مداخلت کی جاسکتی ہے یا نہیں اس لئے مناسب معلوم ہوتا ہے کہ پارلیمانی طرز حکومت میں صدر کے پارلیمنٹ سے خطاب کی نوعیت، اس کی تاریخ اور روایات کا ایک مختصر جائزہ لیا جائے۔
برصغیر کی تاریخ میں سربراہ مملکت کے پارلیمنٹ سے خطاب کا آغاز 1921ء سے ہوا۔ جب گورنمنٹ آف انڈیا ایکٹ 1919ء کے تحت پہلی مرتبہ مرکزی مقننہ وجود میں آئی اور اس ایکٹ کی دفعہ 63۔ بی، کی ذیلی دفعہ (3) کے تحت گورنر جنرل کو مقننہ سے خطاب کا حق دیاگیا۔ اس حق کو استعمال کرتے ہوئے اس وقت کے وائسرائے ہند ڈیوک آف کناٹ نے 9فروری 1921ء کو قانون ساز اسمبلی سے خطاب کیا۔ بعد میں گورنمنٹ آف انڈیا ایکٹ 1935ء نافذ کیاگیا تواس کی دفعہ 20کے تحت بھی یہ حق بحال رکھا گیا۔ 11اگست 1947ء کو قائداعظم محمد علی جناح نے پاکستان کی پہلی دستور ساز اسمبلی سے خطاب کیا مگر یہ خطاب بطور گورنر جنرل نہیں بلکہ دستور ساز اسمبلی کے صدر کی حیثیت سے تھا، 14اگست 1947ء کو وائسرائے ہند لارڈ مائونٹ بیٹن نے پاکستان کی دستور ساز اسمبلی سے خطاب کیا مگر اس خطاب کی نوعیت بھی مختلف تھی کیونکہ یہ خطاب گورنر جنرل ہندوستان کی حیثیت میں تھا۔
قیام پاکستان کے بعد پہلی مرتبہ 29فروری، 1956ء کو یہ اختیار دیا گیا۔ اس دستور ساز اسمبلی نے ایک آئین تشکیل دیا اس آئین کے آرٹیکل 52 کے تحت صدر مملکت کو پارلیمنٹ سے خطاب کا اختیار دیا گیا جس کی رو سے پاکستان کے پہلے صدر جنرل اسکندر مرزا نے 25مارچ 1956ء کو قانون ساز اسمبلی سے خطاب کیا۔ 7اکتوبر 1958ء کو یہ آئین منسوخ کر کے ملک میں مارشل لاء نافذ کردیا گیا۔ 1958ء سے لے کر 1972ء تک تین صدور جنرل ایوب خان، جنرل یحییٰ خان اور ذوالفقار علی بھٹو برسراقتدار رہے مگر اس دور میں مارشل لاء یا صدارتی طرز حکومت نافذ رہا۔ لہٰذا ان 14سالوں کا پارلیمانی دور حکومت سے موازنہ بے محل ہے اس کے بعد 1973ء میں ملک میں ایک نیا آئین نافذ کیا گیا جس کے آرٹیکل 56کے تحت صدر کو پارلیمنٹ سے خطاب کا اختیار دیا گیا۔ مگر صدر چوہدری فضل الٰہی نے اپنے دور صدارت میں اس اختیار کو کبھی استعمال نہیں کیا۔ مارچ 1985ء میں 1973ء کے آئین کی بحالی کے صدارتی حکم نمبر 14کے تحت 1973ء کے آئین میں ترمیم کر کے صدر کے پارلیمنٹ کو خطاب کرنے کے اس اختیاری حق کو لازمی قرار دے دیا گیاکہ صدر ہر پارلیمانی سال کے آغاز پر پارلیمنٹ سے لازمی خطاب کرے گا۔ اس کے بعد 1985ء میں ہی آٹھویں آئینی ترمیم کے ذریعے 1973ء کے آئین کے آرٹیکل 56میں مزید ترمیم کردی گئی کہ صدر اپنے خطاب کے اختیاری حق کے علاوہ عام انتخابات کے بعد پارلیمنٹ کے پہلے اجلاس سے اور ہر پارلیمانی سال کے آغاز پر پارلیمنٹ سے لازمی خطاب کرے گا۔ اس حق کو استعمال میں لاتے ہوئے جنرل ضیاء الحق، غلام اسحاق خان، فاروق احمد خان لغاری اور محمد رفیق تارڑ بطور صدر مملکت باقاعدگی کے ساتھ پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاسوں سے خطاب کرتے رہے جبکہ جنرل پرویز مشرف نے صدر کا عہدہ سنبھالنے کے بعد 17 جنوری 2004ء کو پہلی مرتبہ پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے خطاب کیا۔ اس کے بعد آصف علی زرداری اور اب موجودہ صدر ممنون حسین پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے خطاب کرتے چلے آرہے ہیں۔
پارلیمانی روایات کے مطابق پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں کے مشترکہ اجلاس سے صدر مملکت کا یہ خطاب انتہائی باضابطہ اور رسمی نوعیت کا ہوتا ہے جس کے دوران انتہائی احترام اور وقار برقرار رکھا جاتا ہے۔ کسی رکن کی طرف سے کسی قسم کی مداخلت نہیں کی جاسکتی۔
صدر سرکاری کوچ سے پارلیمنٹ ہائوس میں پہنچتے ہیں تو دروازے پر چیئرمین ایوان بالا، اسپیکر ایوان زریں، وزیراعظم، وزیر برائے پارلیمانی امور اور دونوں ایوانوں کے سیکرٹری ان کا استقبال کرتے ہیں۔ صدر کا خطاب پارلیمنٹ کی کارروائی کا حصہ بن جاتا ہے۔ جس کے بعد دونوں ایوان علیحدہ علیحدہ اپنے اجلاس منعقد کرتے ہیں اور صدر کے خطاب کی مصدقہ کاپی ایوان کی میز پر رکھ دی جاتی ہے۔ قواعد کے مطابق صدر کے خطاب پر بحث کی غرض سے کسی رکن کی طرف سے شکریہ کی تحریک پیش کی جاتی ہے۔ جس میں کہا جاتا ہے کہ اس ایوان کے اراکین صدر کے اس خطاب پر ان کے تہہ دل سے شکر گزار ہیں جو کہ انہوں نے فلاں تاریخ کو پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں فرمایا۔ کسی دوسرے رکن کی طرف سے اس تحریک کی تائید کی جاتی ہے۔ بحث کے لئے مقررہ دنوں میں ارکان کو اس خطاب کے بارے میں بحث کرنے کی آزادی ہوتی ہے اور بحث کا دائرہ کار اس قدر وسیع ہوتا ہے کہ اراکین ہر قسم کے قومی اور بین الاقوامی مسائل کو زیر بحث لاسکتے ہیں۔ حتیٰ کہ جن معاملات کا خطاب میں ذکر نہ کیا گیاہو، انہیں بھی شکریہ کی تحریک میں ترامیم پیش کر کے زیر بحث لایا جاسکتا ہے۔ صرف ایک بات کی پابندی لازمی ہوتی ہے کہ ایسے معاملات جو حکومت کی براہ راست ذمہ داری کے تحت نہ آتے ہوں، زیر بحث نہیں لائے جاسکتے اور بحث کے دوران صدر مملکت کا نام استعمال نہیں کیا جاسکتا کیونکہ اس خطاب کے مندرجات کی ذمہ داری صدر پر نہیں بلکہ حکومت پر عائد ہوتی ہے۔ اگر کوئی رکن شکریے کی اس تحریک میں ترمیم پیش کرنا چاہے تو وہ اس طریقہ سے پیش کرسکتا ہے کہ شکریے کی تحریک کے آخر میں ان الفاظ کا اضافہ کردیں۔
صدر کا پارلیمنٹ سے خطاب آئین کے آرٹیکل 56(3) کے تحت ایک آئینی تقاضا اور یہ خطاب دراصل حکومت کی پالیسی کا بیان ہوتا ہے جس میں حکومت کی گزشتہ سال کی کارکردگی اور کارناموں کا ذکر ہوتا ہے اورآئندہ سال کے لئے قومی اوربین الاقوامی مسائل پر حکومت کی پالیسی بیان کی جاتی ہے۔ نیز آئندہ سال کے لئے پارلیمنٹ میں ہونے والی قانون سازی کے اہم نکات بیان کئے جاتے ہیں۔ دنیا کی پارلیمانی روایات کے مطابق صدرپارلیمنٹ میں کوئی ایسی تقریر نہیں کرسکتا جس کی منظوری وزیراعظم اور کابینہ سے حاصل نہ کی گئی ہو۔
صدر کے پارلیمنٹ سے خطاب سے بعض اہم آئینی سوالات پیدا ہوتے ہیں۔ پہلا سوال یہ ہے کہ اگر اس ملک میں پارلیمانی نظام حکومت قائم ہے تو آیا پار لیمانی روایات کے مطابق صدر کا یہ خطاب حکومت کی پالیسی بیان ہے یا صدر کے ذاتی خیالات؟ دوسرا سوال یہ ہے کہ آیا اس خطاب کوکابینہ کے سامنے پیش کیا گیا اور اسے کابینہ کی منظوری حاصل ہے؟ اگر یہ صدر کے ذاتی خیالات ہیں توپھر اس خطاب پر جو بحث اورتنقید ہوگی وہ صدر مملکت پر ہوگی جبکہ پارلیمانی روایات کے مطابق صدر کے خطاب پر بحث کے دوران صدر کا نام بھی استعمال نہیں کیا جاسکتا۔ لیکن اگرپارلیمانی روایات سے ہٹ کرصدر کے ذاتی خیالات کو زیر بحث لا کر ان پر تنقید کی بھی جائے تو چونکہ اس بحث یا تنقید کو سننے کے لئے صدر اس ایوان میں موجود نہیں ہوتے اور وہ جواب نہیں دے سکتے اوراپنا دفاع نہیں کرسکتے، اس لئے پارلیمانی روایات کے مطابق جو شخص ایوان میں آکر اپنا دفاع پیش نہیں کرسکتا اس پر ایوان کے اندر تنقید نہیں کی جاسکتی۔ جہاں تک حکومت یا حکومت کے کسی وزیر کی طرف سے صدر کے خطاب پر کی جانے والی بحث کو سمیٹتے ہوئے اختتامی تقریر پر کرنے کا تعلق ہے تو وہ حکومت کی پالیسی بیان کا دفاع تو کرسکتا ہے مگراس کے لئے صدر کے ذاتی خیالات کا دفاع کرنا ممکن نہ ہوگا۔ پارلیمنٹ کی طرف سے شکریہ کی تحریک منظور ہونے کے بعد صدر کے خطاب پر بحث کا اختتام ہو جاتا ہے۔
تازہ ترین