• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سیاسی ڈائری:کراچی میں احساس بیگانگی بڑھتاجارہا ہے

اسلام آباد (محمد صالح ظافر ،خصوصی تجزیہ نگار) سات دھائیاں گزر جانے کے باوجود دیہی اور شہری سندھ کی نفسیاتی تقسیم ختم نہیں ہوسکی بلکہ اس میں اضافہ ہورہاہے کراچی میں احساس بیگانگی لگاتار بڑھ رہا ہے اس شہر کےباسی اگرچہ سمجھتے ہیں کہ دیہی علاقوں کی قیادت ان پر مسلط رہنے کی خوگر ہے اور ان کے مسائل سے عہدہ برا ہونے میں دلچسپی بھی نہیں رکھتی تو ان کا ایسا سوچنا غلط نہیں ہے گزشتہ دس سال میں کراچی کو بدترین حالات  سے دوچار کردیا گیا ہے جس میں اس کے اپنوں کے حصے کو نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔ اس صورتحال سے ناجائز فائدہ اٹھانے کے خواہاں لوگوں اور شہر کو برباد کرنے والوں دونوں سے اسے محفوظ رکھنے کی اشد ضٗرورت ہے۔کراچی میں بارش کا نزول اچانک ہواہے اور نہ ہی برسات کا موسم اچانک آیا ہے اس کےباوجود سندھ حکومت نے بدھ کے روز اپنے پیرانہ سال وزیراعلیٰ کی سرکردگی میں منعقدہ اجلاس میں کروڑوں روپے کی رقوم ہنگامی طور پر منظور کیں تاکہ انسدادی تدابیر اختیار کی جاسکیں اس سے قدرتی طور پر یہ تاثر ابھرتا ہے کہ صوبائی حکومت بے تابی سے انتظار کررہی تھی کہ بارش کا چھینٹا پڑے اور اس پر ابر رحمت برسے کروڑوں کی بھاری رقوم واگزار کرانے کے لئے اس عذر کا کامیابی کے ساتھ استعمال کیا جائے اب اس رقم کا معتدبہ حصہ اخراجات کے لئے رسمی تقاضوں کی تکمیل کے ساتھ ہی دبئی منتقل ہوجائے گا جس کے لئے کوئی ایان علی پہلے سے تیار بیٹھا ہوگا تاکہ یہ اضافی خدمات بجا لائے۔ سندھ حکومت نے رائے عامہ کی طرف سےنشاندہی کے بعد چند روز قبل ہی بارہ کروڑ روپے کی رقم محض ایک مسدود نالے کو پانی کی گزر گاہ کے طور پر بحال کرنے کے لئے منظوری دی تھی جس کے مصرف کا تاحال کسی کو علم نہیں ہوسکا۔ دو روز کی بارشوں کے بعد جنہیں غیر معمولی قرار نہیں دیا جاسکتا دو کروڑ سے زیادہ نفوس پر مشتمل ملک کا سب سے بڑا شہر گوناں گوں مسائل کا شکار ہوگیا ہے۔ محکمہ موسمیات حالیہ ہفتوں میں دھائی دیتا آیا ہے کہ کراچی اورصوبے کےدیگر علاقوں میں اس سال بارشوں کا امکان قوی تر ہے اس سلسلے میں کئی روز قبل ان ایام اور اوقات کی پیشگی نشاندہی بھی کردی گئی تھی جن میں برکھابرسنے کے لئے کہا گیا تھا۔ اعلیٰ عدلیہ نے صوبائی انتظامیہ کو تاکید بھی کی تھی کہ وہ بڑی اور مصروف شاہراہوں سے بل بورڈز ہٹا دے تاکہ ان کے گرنے سے انسانی جانوں کے اتلاف کے اندیشے کا سدباب ہوسکے اس سے ظاہر ہوتاہے ملک کی محترم عدلیہ نے بھی صوبائی حکومت کوامکانی خدشات اور بارشوں کی آمد آمد سے آگاہ کردیا تھا۔ دیروزہ بارش کے بعد سےکراچی کے متعدد علاقوں سے بجلی کی رو غائب ہے اس بارے میں شہریوں کی شکایات کی کوئی شنوائی نہیں ہورہی تھی کہ بدھ کی بارش کےباعث مزید علاقوں سےبجلی چلی گئی۔ ایک اندازے کے مطابق بجلی کے اڑھائی سو فیڈرز نے کام چھوڑ دیا۔ اس طرح دھابیجی،گھارو اور پپری کے واٹر پمپنگ اسٹیشنز کوبھی بجلی سے محروم ہونا پڑا جن کی مشینری معطل ہوگئی اور آن واحد میں شہر کو جو پہلے ہی پانی کی کمیابی کا رونا رو رہا تھا مزید ساڑھے سات کروڑ گیلن پانی سے محروم ہونا پڑا۔ ہرچند بعض علاقوں میں پانی کی جزوی ترسیل شروع ہوگئی ہے تاہم قلت کا تاثر بدستور برقرار ہے یہ ماہ صیام کے آخری عشرے میں ہورہاہے اور اب اس عشرے کی مقدس ترین طاق راتوں میں عبادت گزاروں نے یاد الٰہی کرنا ہوتی ہے جنہیں و ضو کے لئے بھی پانی دستیاب نہیں ہورہا۔ سحری اور افطاری کے لئے بھی پانی نہیں مل رہا ایسے میں صوبائی انتظامیہ جس نے شہری سہولتوں کی مشینری کو اپنے اجارے میں لے رکھا ہے اور اس پر چن چن کرنا اہل اور داغدار شہرت کے حامل لوگوں کو مسلط کر رکھا ہے ان روزہ داروں سے کس قدر دعائیں لے رہے ہونگے اس کا بخوبی اندازہ کیا جاسکتا ہے۔کراچی کے شہریوں کو محض بارش کےباعث جن مشکلات کا سامنا ہے اس کا وہ سیاسی عناصر یقیناً فائدہ اٹھانے کی کوشش کرینگے جنہوں نے ہمیشہ عوام کے مسائل کو غلط رنگ دیا اور پھر انہیں اپنے مقاصد کے لئے استعمال کیا یہ عناصر طویل ترین عرصے تک شریک اقتدار رہے اور عوام کی خدمت کی بجائے نعرہ بازی کی سیاست کرتے رہے ایک جانب وہ عوام کے جذبات سے کھیلنے میں مشغول رہے تو دوسری طرف قتل و غارت گری اور ہڑتالوں فسادات کے ذریعے قومی معیشت کا گلا گھونٹنے میں مصروف رہے۔ کراچی میں پیدا شدہ صورتحال اس شہر عروس البلاد کو الگ انتظامی اکائی بنانے کا تقاضا کرتی ہے۔ شہر کے منتخب بلدیاتی نمائندوں کو اختیارات تفویض کرنے اورا ن ادا روں کا اقتدار انہیں منتقل کرنے کا صوبائی حکومت کو یارا نہیں ہورہا اس کا سبب واضح ہے کہ صوبائی حکومت میں فائز افراد کی توجہ اور سیاست کا محور کراچی سے دور دیہی علاقے ہیں یہ ان کی سیاسی قوت کا مرکز ہیں یہی وجہ ہے کہ کراچی میں پیدا شدہ مشکلات اور بے چینی انہیں خاطر خواہ طور پر پریشان نہیں کرتی۔ یہ الگ بات ہے کہ دیہی علاقوں کی بھلائی کے لئے بھی ان لوگوں نے کبھی کچھ نہیں کیا کیونکہ انہیں بخوبی علم ہے کہ جب بھی ان علاقوں سے انہیں تائید کی ضرورت ہوگی تو ان کے نہاں خانوں میں وہاں کے رہنے والوں کی ہمدردیاں بٹورنے کے لئے نوع بنوع کے جذباتی نعرے اور قصے موجود ہیں کچھ بھی نہ ہو تو نئے پرانے شہید تو کہیں نہیں گئے۔
تازہ ترین