• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ایک ادیب، شاعر اور مفکر کی قدروقیمت کا تعین اس بات سے وابستہ ہوتا ہے کہ اسے کون سا زمانہ نصیب ہوا اور وہ زمانہ طے کرتا ہے کہ اس میں چھپے اضطراب اور سوالوں کو کس نے کیسے سمجھا اور کیسے ان کا سامنا کیا۔ زمانے چاہے کتنے ابتر ہوں یا ظلمت آشنا ہوں۔ وہ ہمیں ان تخلیق کاروں اور حریت فکر کے رہنمائوں سے ملا دیتے ہیں جو سماج اور زندگی کے دشمنوں کو کٹہرے میں لاکھڑا کرتے ہیں۔ ایسا ہی ایک استاد، ایک فکری رہنما ، ایک دردمند انسان دوست وارث میر بھی ہے جنہیں ساٹھ، ستر اور اسی کی دہائیوں کا زمانہ نصیب ہوا جو پاکستان کے مستقبل کی بنیادوں کا تعین کرنے کے مراحل میں تھا اس لیے سیاسی، سماجی، اقتصادی، ثقافتی، علمی اور فکری سطح پر انہوں نے ایسے سوالوں کا سامنا کیا جو ہماری ذہنی آزادی، رواداری، معروضی سوچ اور تاریخی سچائیوں کو برداشت کرنے کا کلچر پیدا کرنے کے لیے ضروری تھے۔ وارث میر یونیورسٹیوں کے ایسےاساتذہ کی کثیر تعداد میں شامل نہیں تھے جو حسرتوں کے مارے، گریڈوں اور عہدوں کے لالچ میں علمی بصیرت سے کوسوں دور تعصب اور تنگ نظری کی پٹی آنکھوں پر باندھے کئی نسلوں کو اندھیروں کے حوالے کرنے پر مامور تھے۔ وارث میر چومکھی لڑائی لڑنے والے دانشور تھے اور ایسے استاد تھے جو اپنے طلباء کو آزادی سے سوچنے کی بصیرت عطا کرتے تھے۔ ساتھ ہی تعصب کے ماحول سے بچانے کے لیے طلباء کو اپنے پروں کے نیچے محفوظ کرنے کا ہنر بھی جانتےتھے۔پروفیسر وارث میرنے صرف انچاس برس کی عمر پائی۔ میں میر صاحب کےعلمی اور فکری کام کو دیکھ رہا تھا جو ’’وارث میر کا فکری اثاثہ ‘‘ کے عنوان سے تین ضخیم جلدوں پر محیط ہے۔ میں نے ابھی ان کا مطالعہ مکمل کیا ہے۔ میں شاید ان کے اس اثاثے کا احاطہ نہ کرسکوں لیکن یہ تو میں کہہ سکتا ہوں کہ وہ ہماری علمی میراث کے صحیح معنوں میں کسٹوڈین تھے، محافظ تھے، وارث میر کی زندگی کو سالوں سے نہیں سوالوں سے ناپنا چاہئے جو انہوں نے اپنے مضامین میں اٹھائے۔ مگر افسوس زمانہ ان سوالوں کا بوجھ نہ اٹھا سکا۔ ورنہ آج جو فکری کنفیوژن ہے یا علمی ژولیدگی ہے یہ ہمارے معاشرے میں نہ ہوتی جس کا عکس ہم میڈیا پر دیکھتے ہیں جبکہ وارث میر نے زمانوں کا بوجھ بھی اٹھایا اور زمانوں کے ٹھیکیداروں کا بوجھ بھی اٹھایا۔
وارث میر کے علمی اور فکری سفر کا تجزیہ ہمارے فکری استاد اور اپنے وقت کے بڑے سکالر پروفیسر کرار حسین نے اس طرح کیا ہے۔ ’’وارث میر کو اسلام اور پاکستان سے بڑی محبت تھی بلکہ عشق تھا اور اسی لیے اس کی زندگی مذہب کے نام و نمائش پر اسلام اور پاکستان کا استحصال کرنے والے ٹھیکیداروں سے پیہم جہاد تھی۔ اس کے لیے اس کے نظریات اور ابلاغ کا مسئلہ زندگی اورموت کا مسئلہ تھا۔ وارث میر آمریت کے خلاف تھا۔خواہ وہ آمریت کسی رنگ میں ہو وہ ہر قسم کی ملائیت کے خلاف تھا خواہ وہ ملائیت کسی نظریہ یاعقائد پر مبنی ہو۔ اس لیے کہ یہ حالت انسان کی آگہی اور شرافت کو سلب کر لیتی ہے‘‘۔
’’وارث میر نے مذہبی اور سماجی فکر کے ایک پابند ماحول میں اپنا کیریئر شروع کیا لیکن رسمی اور جامد عقیدوں اور تنگ و تاریک تعصبات سے اپنا دامن چھڑا کر زندگی کے تجربات کی روشنی میں اپنی بصیرت کے مطابق حق کی تلاش کی اور اس کا برملا اظہار کیا‘‘۔
کرار حسین کے دو اقتباس اس لیے نقل کئے ہیں کہ وارث میر کے دور میں فکری مغالطوں کی فصلیں کاشت کرنے والے منظم گروہوں کی نشاندہی کی جاسکے۔ وارث میر ان سے ٹکرایا اس حوالے سے انہوں نے اپنی اور اپنے بچوں کی زندگی بھی دائو پر لگا دی۔ اس حوالے سے احمد بشیر جو ناک پر مکھی نہیں بیٹھنے دیتے تھے اور چور کو چور کہنے کے لیے آستینیں چڑھا کر حشر نشر کر دیتے تھے کا ایک مضمون وارث میر کو خراج عقیدت پیش کرتا ہے۔ بہت کھلا ڈلا مضمون ہے جس میں وارث میر کے عورتوں کے حقوق سے متعلق مضامین کی سیریز کا احوال لکھا ہے۔ جنرل ضیاء الحق کا زمانہ تو وارث میر کو مہمیز دینے کے لیے ہی ہم پر مسلط ہوا تھا۔ احمد بشیر بتاتے ہیں کہ آپا نثار فاطمہ ضیاء الحق کے ایجنڈے کا جھنڈا اٹھائے پھرتی تھی۔ نہایت چالاک خاتون تھی آدھے منہ کا پردہ کرتی تھی مگر سونے کی چوڑیوں سے بھری ہوئی کلائی کہنی تک ننگی رکھتی تھی۔ اس زمانے میں عورتوں کے حقوق اور آزادی کے خلاف اس کے خیالات کے جواب میں وارث میر نے عورتوں کے حقوق اور ان کی اسلام میں حیثیت کے حوالے سے بے شمار سوالوں کو نہ صرف اٹھایا بلکہ ان سوالوں کے لیے مذہبی، انسانی، اخلاقی، ثقافتی، سماجی، قانونی اور موروثی حوالوں سے تحقیق کے بعد دنیا کو سمجھایا کہ پاکستان کی عورت کو اس کا مقام نہیں دیا جارہا۔ کبھی مذہب کبھی روایت پرستی اور کبھی مرد کی حاکمیت کا سہارا لے کر عورتوں کو غلام رکھا جارہا ہے۔ اتنی اعلیٰ عمرانی، مذہبی اور سماجی تحقیق اس حوالے سے میں نے کبھی نہیں دیکھی۔ آج اگر اسلامی نظریاتی کونسل کچھ کہہ رہی ہے۔ مفتی صاحبان کچھ کہہ رہے ہیں اور قومی اسمبلی کچھ اور کہتی ہے تو میری گزارش ہے کہ یہ سب لوگ وارث میر سے رجوع کیوں نہیں کرتے۔ عاصمہ جہانگیر نے بجاطور پر وارث میر کی خدمات کا اعتراف کیا ہے۔
وارث میر ایک بے قرار روح لے کر آئے تھے لیکن بظاہر خاموش اور شانت سمندر کی طرح تھے۔ بیٹے بھی اسی روح میں پلتے رہے۔ بے قرار، بے چین، مگر بابا کے علمی اورذہنی ورثے میں گوندھے گئے ہیں۔ اس لیے میڈیا میں کامیابی نے انہیں الٹی سیدھی حرکتیں کرنے پر مجبور نہیں کیا نہ ہی وہ ریٹنگ کے لیے دوسروں کی پگڑیاں اچھالنے کا کاروبار کرتے ہیں۔
ضیاء الحق کا زمانہ وارث میر کی فکری تکمیل کا زمانہ ثابت ہوا۔ آج مڑ کر دیکھتا ہوں تو ایک طرف وہ زمانہ شدید حبس اور خوف و ہراس کا تھا دوسری طرف پکڑ دھکڑ۔ کوڑے برسانے، جیلیں ادیبوں ، دانشوروں، صحافیوں، وکلاء اورسیاسی کارکنوں سے بھرنے کا زمانہ تھا۔ بہت رونق لگی رہتی تھی۔ ہمارے پاس بہادر بننے کے نادر مواقع موجود تھے، مزاحمتی ادب میں افسانے اور شاعری کے دفتر کے دفتر لکھے گئے اور ان سب سرگرمیوں میں وارث میر فرنٹ فٹ پر کھیل رہا تھا۔ جب عورتوں کے حقوق کے لئے ریگل چوک میں خواتین کے جلوس میں حبیب جالب نظم پڑھ رہا تھا اور بدترین لاٹھی چارج میں چادر اور چار دیواری کی دھجیاں بکھرگئیں اور جالب صاحب لہولہان ہوئے تو وہیں کہیں وارث میر بھی موجود تھے۔ میرا ان سے تعلق بھی اسی بنیاد پر قائم ہوا۔
ایک مذہبی جماعت جو ضیاء الحق کی لاڈلی تھی۔ اس کے کچھ کالج کے اساتذہ نے مل کر پنجاب کے بڑے شہروں کے کالجوں کے ترقی پسند اور علم دوست اساتذہ کی فہرستیں تیار کیں۔ یہ سو کے قریب پروفیسر تھے۔ پہلے توان ترقی پسند پروفیسروں کے خلاف فرد جرم تیار کی گئی اور پھر ان ترقی پسند پروفیسروں کے ’’کالے کرتوتوں‘‘ پر ایڈیشن شائع کیاگیا۔ ان پروفیسروں میں میرا نام بھی شامل تھا۔ میں ایمرسن کالج ملتان میں لیکچرار تھا، مجھے شکرگڑھ بھیجا گیا جہاں گورنمنٹ کالج لاہور سے انو ر ادیب بھی تبدیل ہو کر پہنچے۔ چھٹیوں میں لاہور آجاتا اور یہاں کی ادبی اور سماجی سرگرمیوں میں شریک ہو جاتا۔ مارشل لاء کے خلاف اس وقت بے شمار نظمیں لکھیں جو دوستوں تک پہنچ جاتی تھیں۔ وارث میر کو جب پتہ چلا کہ ہم اساتذہ کے ساتھ کیا ہوا ہے؟ تو انہوں نے دست شفقت بڑھایا۔ ہمیں حوصلہ دیا اور پھر یہ سفر ہم سب کا ایک ساتھ چلا۔ ہر دوسرے تیسرے کسی نہ کسی تقریب میں وارث میر صاحب سے ملاقات ہو جاتی۔ یہ تقریب بھی مارشل لاء کو پتھر مارنے کا ایک بہانہ ہوتی تھی۔ 1978ء سے 1983ء تک میں ملتان سے نکلنے کے بعد لاہور سےباہر رہا۔ البتہ ادبی اور ثقافتی سرگرمیوں میں برابر شریک رہا۔ 1984ء سے 1987ء تک وارث میر کو قریب سے دیکھنے اور سننے کے کئی مواقع ملے۔ یہ وہ زمانہ ہے جب سیاسی سرگرمیوں پر پابندی کیوجہ سے سیاسی کارکن بھی فنون لطیفہ اور ادب کے ذریعے اپنا اظہار کرنے لگے تھے۔ ان ثقافتی اور ادبی تقریبات کی اطلاع سینہ بہ سینہ سب کو ہو جاتی تھی۔ عین وقت پر ہم سب پہنچے ہوتے تھے۔ وارث میر باقاعدگی سے ان نشستوں میں اپنا فکری حصہ ڈالتے رہے۔
پنجاب یونیورسٹی پر اس زمانے میں جس مذہبی جماعت کا قبضہ تھا (شاید اب بھی ہو) وہ اپنے ہم خیال اساتذہ کوفائدہ پہنچانے اور اپنے سے اختلاف رکھنے والوں کی سرکوبی کرنے کے لیے ڈنڈے اور پستول کی زبان استعمال کرتی تھی ہمیں معلوم تھا وارث میر دن رات کس طرح کے دبائو کا مقابلہ کررہے ہیں۔ یہ معلوم نہیں تھا کہ وہ ایسا منصوبہ بنائیں گے کہ ان کا بیٹا قتل کے جرم میں سزا پا جائے۔ وارث میر نے یہ وقت کس دبائو میں گزارا اور پھر 1987ء میں وہ یہ دبائو برداشت نہ کرسکے۔ اجتماعی آواز کوخاموش تو کیا جاسکتا ہے لیکن اسے اجتماعی حافظے سے نکالا نہیں جاسکتا۔ اگر اس مذہبی جماعت نے وارث میر کے خاندان سے معافی مانگ لی ہے تو ٹھیک ہے۔ نہیں تو اعلانیہ معافی مانگ لینی چاہئے۔ وارث میر معاف کردیں گے۔
تازہ ترین