• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
جمعہ کی نماز کے بعد میری مرتضیٰ شبلی سے بات ہوئی جو اس وقت سری نگر میں اپنےگھر میں تقریباً مقید تھے۔ انہوں نے بتایا کہ مسجدوں سے ہزاروں کی تعداد میں کشمیری نکل کر آزادی اور پاکستان کے حق میں نعرے بلند کرتے ہوئے مارچ کر رہے ہیں۔ صورت حال ان کے بقول بہت کشیدہ تھی۔ محبوبہ مفتی اور سرکاری فوج ابھی تک اپنی تمام تر کوششوں کےباوجود کشمیر میں اٹھی اس آزادی کی لہر کو دبانےمیں ناکام رہے ہیں اور ہر چند کے 50 سے زائد جوانوں کو شہید اور ہزاروں کو زخمی کیا جاچکا ہے، مگر کشمیری اب کی بار ایک نئے ولولے کے ساتھ اٹھ کھڑے ہوئے ہیں۔ میں مرتضیٰ شبلی سے کشمیر میں جاری اس لہر اور ہندوستانی فوج کے جبر کے حوالے سے مزید جاننا چاہتا تھا۔ انہوں نے میرے سوال کا جواب کچھ یوں دیا:
’’کشمیر میں گزشتہ دو ہفتوں سے آتش و آہن کی قیامت خیزیاں جاری ہیں۔ کشمیر میں رہنے والے صحافیوں کا ماننا ہے کہ محبوبہ مفتی اور ہندوستانی سرکار کی جانب سے لوگوں پر جس طرح بے پناہ تشدد کیا جارہا ہے پچھلے تیس سال کی مزاحمتی تحریک میں اس کی مثال ملنا مشکل ہے۔ 8جولائی سے شروع ہونے والے اس عوامی احتجاج کے پہلے تین یا چار دنوں میں لگ بھگ پچیس افراد کو قتل کردیا گیا۔ حکومتی پروپیگنڈے کے برعکس پرامن احتجاجی جلوسوں پر بھی بندوقوں اور پیلٹ گن سے گولیاں برسائی جاتی ہیں جس سے اب تک لگ بھگ ساڑھے تین ہزار زخمی اور سینکڑوں نوجوان اندھے یا شدید زخمی ہوچکے ہیں۔ حکومت کا یہ وحشیانہ رویہ صرف احتجاج کرنےوالوں تک محدود نہیں سیکورٹی فورسز نے گھروں میں گھس کر لوگوں بشمول عورتوں اور بچوں کو نشانہ بنایا ہے جس سے کئی افراد جاں بحق یا زخمی ہوگئے ہیں۔ محبوبہ مفتی اور ہندوستانی فورسز کی بربریت کا اندازہ اس سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ یہ لوگ کشمیریوں کو گولیوں سے زخمی کرنے کے بعد اور زخمیوں کو لے جانے والی ایمبولینسوں اور اسپتالوں کو بھی نشانہ بناتے ہیں تاکہ زخمیوں کو بروقت طبی امداد نہ مل سکے اور وہ جانبر نہ ہوسکیں۔
محبوبہ مفتی کے آبائی گائوں بیچ بہارہ میں بھارتی سیکورٹی فورسز نے 12جولائی کو 22 سالہ عامر نذیر لٹو کو اس کے گھر سے چند قدم دور گولیوں کا نشانہ بنایا۔ اس کے گھر والوں نے اپنی جان پر کھیل کر بڑی مشکل سے اسے اسپتال پہنچایا جہاں ابتدائی طبی امداد کے بعد اس کو اسپتال کی ایک ایمبولینس میں ڈال کر سری نگر کے بڑے اسپتال لے جایا جارہا تھا۔ عامر کے عزیز و اقارب کے بقول ایمبولینس ابھی اسپتال کےاحاطے میں ہی تھی کہ بھارتی فوجیوں نے اس پر حملہ کردیا۔ انہوں نے زخمی عامر کے ڈرپ سیٹ اور دیگر طبی سامان کو توڑ پھوڑ کر پھینک دیا۔ اس کے والد، چچا، بھائیوں اور دیگر کو زد و کوب کیا گیا۔ یہ سب کرنےکے بعد بھی گاڑی کو ایک گھنٹے سے زائد وقت روکے رکھا گیا۔ اگر یہ قیمتی وقت ضائع نہ ہوتا تو شاید عامر کی زندگی بچ جاتی مگر فوجیوں کو شاید عامر کی موت ہی مقصود تھی۔
اس پر مستزاد یہ کہ جب گولیوں سے زخمی افراد جاں بحق ہو جاتے ہیں تو پولیس اورفوجی ان کی لاشوں کو اغوا کرکے اپنے قبضے میں لے لیتے ہیں۔ لواحقین کو یہ لاشیں لینے کے لئے گھنٹوں طرح طرح کی اذیت سے دوچار کیا جاتا ہے تاکہ انہیں کشمیر میں موجود قابض فوج اورمحبوبہ مفتی حکومت کی من مانی شرائط تسلیم کرنے پر مجبور کیاجائے۔‘‘
یہ ان کا رروائیوں کی چند جھلکیاں ہیں جو اس وقت کشمیر میں جاری ہیں۔ پاکستان کی حکومت اس معاملے میں اپنی تمام تر نعرے بازی کے باوجود کچھ خاص نہیں کرسکی۔ مولانا فضل الرحمٰن نے تو کشمیر کمیٹی کی دوچار میٹنگز بلا کر گویا اپنا فرض نبھا دیا۔ وزیراعظم پاکستان نے بھی آزاد کشمیر میں اپنی فتح کا جشن مناتے ہوئے سنایا کہ جلد کشمیر پاکستان بنے گا۔ سوال یہ ہے کہ کیسے؟ کشمیری تو قربانیاں دے رہے ہیں مگر آپ کیا ٹھوس اقدامات اٹھا رہے ہیں؟
سلگتے کشمیر سے مرتضیٰ شبلی نےاپنی چند نظمیں بھی بھیجی ہیں۔ وہاں کے نوجوانوں کے دل پر کیا گزر رہی ہے اس کا کچھ احوال آپ بھی جانئے۔
ان خوابوں کو تعبیریں دو
جو زخم ہیں میرے چہرے پر
وہ زخم ہیں سب کے سینوں میں
آجائو مسیحا بن کے کوئی
ان زخموں پر پھاہا رکھنے
آ جائو کہ ہر اک راہ گزر
ڈوبی ہے لہو میں سر تاپا
یہ کیسی بہاریں آئی ہیں
کٹتی ہیں جوانوں کی فصلیں
جلتے ہیں گھروندے بچوں کے
لٹتے ہیں یہاں پر پاک بدن
ممتا کی بہاریں سوکھ گئیں
تخلیق کےسوتے خشک ہوئے
سیرا ب زمینیں بنجر ہیں
آسیب ہوا ہے سایہ فگن
تقدیر نے بخشا ہے ماتم
ہے وقت ہےغم، ہر لمحہ الم
پر کچھ بھی تو نہیں ہے اب اپنا
آنکھوں میں نہیں اب آنسو بھی
اب جان تخیل کوئی نہیں
بس دل میں اداسی رہتی ہے
سیبوں میں لہو رنگ اترا ہے
بادام کی شاخیں ٹوٹی ہیں
اب کیسے چناروں کے سائے؟
نغمے ہیں کہاں اب جھرنوں میں؟
جھمکے ہیں کہاں خوبانی کے؟
اور رس ہے کہاں شہتوتوں میں؟
کیا پربت، گلشن کیا سبزہ؟
سب نوچ لیا، سب لوٹ لیا
اُس پار سے آئے غیروں نے
اب کیسی بہاریں، کیا نغمے
یہ اپنا وطن، یہ پاک وطن
اس وطن کے قریہ قریہ میں
ہے موت کا ایسا رقص چلا
ڈل جھیل میں روحیں دفن ہوئیں
آئے گی کہاں سے تازہ ہوا
لولاب کی وادی لال ہوئی
پھر بھی ہیں مگر ہم تازہ جبیں
امید لگائے بیٹھے ہیں
اور خواب سجائے بیٹھے ہیں
یہ خواب جو ہیں شاداب مگر
یہ خواب ابھی تک خواب ہی ہیں
تازہ ترین