• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
سابق وفاقی وزیر رانا نذیر احمد خان کے والد مرحوم کی فاتحہ خوانی کے لئے کامونکی میں جونہی ان کی رہائش گاہ پر پہنچا تو دیکھا کہ لوگوں کی بڑی تعداد شامیانے کے نیچے جمع تھی۔ گاڑی رکی اور ایک ملازم مجھے ڈرائنگ روم کی طرف لے گیا۔ میں نے دیکھا کہ اکلوتے رانا نذیر عصر کی نماز ادا کررہے تھے۔ نما ز سے فراغت کے بعد فاتحہ خوانی ہوئی پھر رانا نذیر احمد خان کہنے لگے ......’’جس روز انسان میں تکبر آتا ہے وہ اسی روز مرجاتا .....‘‘ قومی اسمبلی کے رکن رانا عمر نذیر بتانے لگے کہ ان کے دادا نے کبھی تکبر کو نزدیک بھی نہیں آنے دیا تھا، ان کی عمر سو سال سے زائد تھی مگر وہ ساری زندگی عاجز رہے۔ وہ اکثر قیام پاکستان کے وقت دی گئی قربانیوں کا تذکرہ کرتے تھے اور پھر پاکستان سے اپنی والہانہ محبت کا اظہار کرتے تھے، جب لالو پور میں زمین الاٹ ہوئی تو وہ بہت خوش ہوئے۔ سچائی کی یہ ساری داستانیں رانا عمر نذیر نے اپنے دادا سے سنی تھیں، پاکستان سچی محبتوں کے باعث ہی قائم ہوا تھا۔
آج بہت سے ایسے لوگ دعوے کرتے ہیں جو ہجرت کے وقت آرام سے ٹرین پر بیٹھ کر آگئے تھے اگر آپ نے قربانیوں کی داستان کا پوچھنا ہے تو پنجاب اور کشمیر میں رہنے والوں سے پوچھئے ہجرت کے وقت ان دونوں علاقوں میں مسلمانوں کو گاجر مولی کی طرح قتل کیا گیا تھا۔ افسوسناک پہلوئوں پر نگاہ دوڑائی جائے تو پتہ چلتا ہے کہ راوی، چناب، ستلج ، بیاس اور جہلم کے دریا خون سے سرخ ہوگئے تھے یہ سارا خون پنجابیوں اور کشمیریوں کا تھا۔ یہ دونوں علاقے خالصتاً تقسیم ہوگئے تھے۔ اس کی تصدیق ایک سکھ شاعرہ امرتا پریتم نے کی ہے کہ
اج آکھاں وارث شاہ نوں
آ تک اپنا پنجاب
اج بیلے لاشاں وچھیاں
تے لہو دی بھری چناب
ترجمہ:’’دل چاہتا ہے کہ آج وارث شاہ سے کہوں کہ آئو آج اپنا پنجاب دیکھ لو جس کے بیلے میں لاشیں بچھی ہوئی ہیں اور جس کا دریائے چناب خون سے بھرا پڑا ہے‘‘۔
آج ماضی کے اوراق الٹنے کو دل چاہ رہا ہے۔1940میں جب قرار داد پاکستان منظور ہوئی تو اس کے فوراً بعد سکھ رہنما ڈاکٹر بیر سنگھ بھٹی نے پنجابیوں کے لئے الگ ریاست کا مطالبہ کردیا تھا۔ اس مرحلے پر نہرو نے سکھوں کو سہانے خواب دکھا کر خاموش کروادیا، جب تقسیم کے وقت سکھوں نے نہرو سے اپنی الگ ریاست کا مطالبہ کیا تو نہرو نے کہا کہ سکھ ہجرت کرنے والے مسلمانوں پر حملے کریں، ان کا قتل عام کریں، اس کے بعد ریاست کی بات ہوگی، سکھوں نے مسلمانوں پر بہت ظلم کیا انہوں نے نہرو کے اشارے پر تاریخ کی اس بڑی ہجرت کو بڑی مقتل گاہ بنادیا۔ اس قتل گاہ میں بیس لاکھ سے زائد لوگ مارے گئے۔ مسلمانوں کے کئی خاندانوں میں سے صرف ایک یا دو افراد زندہ بچے۔ اس قتل عام کے باوجود سکھوں کی قسمت ان کے ساتھ ہاتھ کرگئی۔ آزادی کے دو ماہ بعد دس اکتوبر1947کو سکھ رہنمائوں کا ایک وفد پنڈت جواہر لعل نہرو سے ملا۔ وفد نے مطالبہ کیا کہ فوری طور پر سکھوں کے لئے الگ ریاست کا اعلان کیا جائے، وفد نے نہرو کو اس کا وعدہ بھی یاد کروایا۔ نہرو نے روایتی مکاری کا مظاہرہ کیا اور سکھوں کو قانون شکن قرار دیتے ہوئے اپنے وعدے سے مکر گیا اور کہنے لگا کہ.....’’ہندوستان کے پہلے ہی ٹکڑے ہوگئے ہیں، اب سکھ اس کے مزید ٹکڑے کرنا چاہتے ہیں‘‘۔ اس کے بعد نہرو نے بھارتی آئین میں آرٹیکل 25کا اضافہ کیا جس کے تحت سکھ مذہب کو ہندوئوں کا ایک فرقہ قرار دے دیا گیا، بس ا سی دن سے خالصتان کی تحریک کا آغاز ہوگیا تھا۔ اس تحریک نے60ء کی دہائی میں بہت زور پکڑا جب ماسٹر تارا سنگھ نے25ہزار ساتھیوں سمیت گرفتاری دی تھی۔1971میں خالصتان تحریک کی قیادت جگجیت سنگھ چوہان کے پاس تھی۔ 1980میں بلبیر سنگھ سندھو نے خالصتان کے لئے بہت کام کیا۔80ء کی دہائی میں بھارت سرکار نے سنت جرنیل سنگھ بھنڈرانوالہ سمیت ہزاروں سکھوں کو قتل کیا۔ آج کل پھر خالصتان تحریک زوروں پر ہے۔
کشمیر یوں نے آزادی کی تحریک سکھوں سے بھی پہلے شروع کردی تھی۔ کشمیر بھارت کا کبھی بھی حصہ نہیں رہا لہٰذا اسے اٹوٹ انگ کہنا سراسر بکواس ہے۔ اس کی وضاحت بھارت کے ہاتھ کشمیر بیچنے والے مہاراجہ ہری سنگھ کے بیٹے مہاراجہ ڈاکٹر کرن سنگھ نے بھارتی راجیہ سبھا میں کی ہے۔ بھارتی راجیہ سبھا کے رکن نے بھرپور انداز میں واضح کیا ہے کہ کشمیر کبھی بھی بھارت میں ضم نہیں ہوا، جب ایسا ہوا ہی نہیں تو اٹوٹ انگ کیسے بن گیا؟۔ ڈاکٹر کرن سنگھ نے تسلیم کیا کہ ان کے والد مہاراجہ ہری سنگھ نے انگریز گورنر جنرل کے ساتھ ملی بھگت سے کشمیر کا بھارت کے ساتھ الحاق کیا، انہوں نے مزید کہا کہ جب معاہدے پر دستخط ہوئے تھے تو وہ اپنے والد کے ساتھ موجود تھے۔ اس معاہدے کے تحت بھارت کے ساتھ صرف دفاع، مواصلات اور خارجہ امور پر الحاق ہوا تھا، باقی تمام معاملات ریاست کے اپنے تھے اور ہیں۔ ڈاکٹر کرن سنگھ نے بھارتی ریاست اورا سٹیبلشمنٹ کو یاد دلایا کہ’’باقی ریاستیں بھارت میں ضم ہوگئی تھیں مگر کشمیر کبھی بھی بھارت میں ضم نہیں ہوا۔ بھارتی آئین کا آرٹیکل 370اس بات کا ثبوت ہے.....‘‘۔
ستر سال بعد ہی سہی مہاراجہ ہری سنگھ کے بیٹے کو سچ بولنا ہی پڑا۔ یہاں یہ بات بڑی اہم ہے کہ بھارت نے سکھوں اور کشمیریوں دونوں کے ساتھ مکاری کی، دونوں کو ان کے حق سے محروم کیا، دونوں کے ساتھ وعدے کئے، مگر پورے نہ کئے، کشمیریوں کے معاملے میں تو وعدہ بھی اقوام متحدہ میں کیا گیا مگر گائے کا پیشاب پینے والوں کو اپنے وعدے کا پاس کہاں؟
اس کے برعکس پاکستان نے نہ کسی سے وعدہ خلافی کی اور نہ ہی کسی سے مکاری کی۔ پچھلے کچھ عرصے سے ایک بھارتی کالا ناگ اجیت کمار دوول اس چکر میں لگا ہوا ہے کہ وہ بلوچستان اور کراچی میں کسی طرح کوئی چکر چلا لے مگر اس منحوس آدمی کو کوئی کامیابی نہیں ملی بلکہ ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا ہے۔ بلوچستان میں پاکستان زندہ باد ریلیاں شہر شہر اور قریہ قریہ برآمد ہوئیں۔ دوول نے بلوچستان میں ایک غدار براہمداغ کے ذریعے کوشش کی جو بری طرح ناکام ہوئی، اس نے کراچی میں ایک ایسے شخص کے ذریعے جسے صبح و شام کا پتہ نہیں ہوتا، پاکستان کے خلاف نعرے لگوانے کی کوشش کی تو اس کی پارٹی میں بغاوت ہوگئی۔ پاکستان کی عظیم بیٹی ارم عظیم فاروقی نے مغلظات بکنے والے کو مسترد کردیا۔ دوسرے لوگوں نے بھی بیان سے اعلان لاتعلقی کیا۔ میں یہ سوچ ہی رہا تھا کہ اس شخص نے پہلے بھی متعدد مرتبہ بہت کچھ اول فول کہا ہے، اس کا علاج ہونا چاہئے، اسی دوران میرا دوست بودی شاہ آگیا، آتے ہی کہنے لگا.....’’ غداروںکی گردنیں سلامت کیوں ہیں؟ ان کی گردنیں اڑائی کیوں نہیں گئیں، انہوں نے میرے پیارے پاک پاکستان کے خلاف ژاژخائی کی ہے، سووموٹو ایکشن کیوں خاموش ہے، کیا ادارہ منصفی کو نظر نہیں آرہا ہے کہ ان لوگوں نے ملکی آئین کی خلاف ورزی کی ہے، ملکی سالمیت پر حملہ کیا ہے، اس واقعہ کے بعد توان کا کوئی ساتھی کوئی فرد ممبر اسمبلی نہیں رہ سکتا کیونکہ انہوں نے آئین کی خلاف ورزی کی ہے۔ بغاوت کی ہے، سینٹ اور تمام اسمبلیوں کے اسپیکرز کو چاہئے کہ وہ ان کے اراکین اسمبلی کے خلاف ایکشن لیں، ورنہ وہ خود توہین آئین کے مرتکب ہوں گے۔ ا بھی تک ایم کیو ایم پر پابندی کیوں نہیں لگی، جب تمام آڈیو ، ویڈیو ثبوت موجود ہیں تو پھر کارروائی کیوں نہیں ہورہی ، اب یہ جو چھوٹے موٹے چیلے مگرمچھ کے آنسو بہا کر چالاکیاں کررہے ہیں، یہ سب اجیت کمار دوول کا کھیل ہے، آپ کو تو پتہ ہی ہوگا کہ اجیت کمار دوول پچھلے سال دسمبر میں آپ کے ملک میں آیا تھا۔ لاہور کے قریب ایک گائوں میں، اس منحوس کے پائوں اس پاک دھرتی پر نہیں لگنے چاہئے تھے مگر یاد رکھنا کہ پاکستان کی مٹی غداروں کو جگہ نہیں دیتی ، یہ پاک دھرتی تو اپنے ہاں غداروں کو دفن بھی نہیں ہونے دیتی۔ میرے نزدیک غداروں کا ایک ہی علاج ہے ا ن کی گردنیں سلامت نہیں رہنی چاہئیں، انہیں نشان عبرت بنادینا چاہئے.....‘‘
بودی شاہ کی باتیں ذرا کڑوی ہیں، اس لئے افشاںؔ سجاد کا شعر پیش خدمت ہے کہ
پتھر کو کہے ہیرا، ذرے کو گہر سمجھے
دل اتنا بھی افشاںؔ اب نادان نہیں ہوتا


.
تازہ ترین