• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاناما لیکس تحقیقات، بھارت نے آف شور ممالک کو 100 ریفرنسز ارسال کیے

کھٹمنڈو(احمد نورانی)پاناما لیکس کے بعد بھارتی حکومت نے 297 کیسز میں تحقیقات کرتے ہوئے مختلف آف شور مقامات کو 100کیسز میں ریفرنسز ارسال کردیے ہیں۔ یہ بات کھٹمنڈو میں ہونے والی دوسری ایشین انویسٹی گیٹو جرنلزم کانفرنس میں سامنے آئی۔ کانفرنس میں صحافیوں کی گفتگو اور مباحثوں سے پتہ چلا کہ ایشیا میں مختلف حکومتوں نے پاناما لیکس اور دیگر ذرائع سے بے نقاب ہونے والی آف شور کمپنیوں کی مالک طاقتور شخصیات سے متعلق مختلف ردعمل کا اظہار کیا۔ کانفرنس کا انعقاد گلوبل انویسٹی گیٹو جرنلزم نیٹ ورک، سنٹر فار انویسٹی گیٹو جرنلزم   اور کونراڈ ایڈنائر اسٹفٹنگ نے مشترکہ طور پر کیا تھا جس میں 51 ممالک کے ساڑھے تین سو صحافیوں نے شرکت کی۔ انڈین ایکسپریس کی ایگزیکٹو ایڈیٹر نیوز اینڈ انویسٹی گیشن رتو سارین نے دی نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ بھارتی حکومت نے پاناما پیپرز کے فورا بعد تحقیقات شروع کردی تھیں اور 297 افراد کو نوٹس جاری کیے تھے۔ تحقیقات کے بعد درجنوں آف شور علاقوں کو  100 افراد کے خلاف ریفرنسز بھیجے گئے تاکہ ان کی کمپنیوں اور اثاثوں کی معلومات حاصل کرکے قانونی چارہ جوئی کی جاسکے۔ انہوں نے بتایا کہ ان لوگوں کے خلاف ریفرنسز بھیجے گئے جنہوں نے انکم ٹیکس ریٹرنز میں اپنی آف شور دولت نہیں دکھائی یا کوئی قانون شکنی کی۔ وزیر اعظم آفس میں تحقیقات کی رپورٹس پہلے 15 روزہ بنیادوں پر جمع کرائی جاتی تھی، تاہم ماہانہ بنیاد پر جمع کرائی جاتی ہیں۔ پی ٹی ٹیمپو انڈونیشیا کے واہیو دھیاتمیکا  نے بتایا کہ ان کے ملک کے بعض کابینہ ارکان کے نام پاناما پیپرز میں آئے، جنہیں بچانے کے لیے ٹیکس چھوٹ اسکیم متعارف کرائی جارہی ہے۔ رتو سارین نے 19 جولائی 2016 کو خبر دی تھی کہ 297 افراد میں سے 120 نے انکم ٹیکس کے سامنے آف شور کمپنیوں میں اثاثوں کا اعتراف کرلیا۔ جن 12 ممالک کو ریفرنسز بھجوائے گئے ان میں برٹش ورجن آئی لینڈز، بھاماس، متحدہ عرب امارات، لکسمبرگ، برطانیہ، جبرالٹر، جرسی، سنگاپور، سیشلز، ریاست ہائے متحدہ امریکہ، سوئٹزرلینڈ اور قبرص شامل ہیں۔ ان لوگوں کے خلاف ریفرنسز بھیجے گئے جنہوں نے آف شور کمپنیوں سے تعلق سے انکار کیا، یا جنہیں ہائی رسک قرار دیا گیا، یا جنہوں نے تعلق کا اعتراف کیا مگر اس کا ذکر انکم ٹیکس گوشواروں میں نہیں کیا، یا جزوی طور پر کیا۔ سب سے زیادہ ریفرنس ایف ٹی ٹی آر (فارن ٹیکس اور ٹیکس ریسرچ) شعبے کے انکم ٹیکس (تفتیش) یونٹوں نے بھیجے۔ دہلی یونٹ نے 25 ، ممبئی نے 22 اور حیدرآباد نے 16 ، احمد آباد 9، کولکتہ 9، بنگلور (6) اور پونے نے 4 ریفرنس ارسال کیے۔ اس کے علاوہ انکم ٹیکس حکام نے 360 سمن بھی جاری کیے۔ یہ فہرست 297 افراد کی ایکشن لسٹ سے بڑی ہے، کیونکہ بعض کیسز میں کئی دیگر افراد کا نام شیئر ہولڈر یا مستفید مالک کے طور پر بھی آیا ہے۔ 24 مئی 2016 کو گلوبل انڈونیشن وائسز نے انڈونیشیا کے وزیر خزانہ مسٹر بامبانگ براڈجوگورو کا ایوان نمائندگان کے کمیشن میں دیا گیا بیان شائع کیا کہ ان کی حکومت کو اس وقت تک بیرون ملک دولت محفوظ کرنے والے شہریوں سے کوئی پریشانی نہیں جب تک وہ ٹیکس دیتے رہیں۔ مسئلہ اس وقت پیدا ہوگا جب وہ بیرون ملک دولت رکھوانے کا مقصد نہیں بتائیں گے۔ انہوں نے کہا کہ حکومت کو بیرون ملک سرمایہ رکھوانے والے سرمایہ کاروں اور تاجروں سے کوئی پریشانی نہیں، کیونکہ زرمبادلہ کا ملکی قانون پیسے کی آمد و رفت کی اجازت دیتا ہے۔  تاہم انڈونیشیائی حکومت ساتھ ہی ساتھ ملک میں اپنی دولت ظاہر کرنے کے خواہاں شہریوں کے لیے بیرون ملک موجود کالے دھن کو سفید کرنے کی قانون سازی پر بھی کام کرتی رہی۔ کانفرنس میں صحافی اس نتیجے پر پہنچے کہ مجموعی طور پر سنجیدہ تحقیقات نہیں ہوئیں کیونکہ بیرون ملک آف شور کمپنیوں میں دولت چھپانے والوں میں سیاست دان اور طاقت ور شخصیات شامل ہیں، جو اپنے ممالک میں تحقیقات کی کوششوں اور مطالبات کو غیر موثر بناتے رہے۔
تازہ ترین